Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ : تمہیں وصیت کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَوْلَادِكُمْ : تمہاری اولاد لِلذَّكَرِ : مرد کو مِثْلُ : مانند (برابر حَظِّ : حصہ الْاُنْثَيَيْنِ : دو عورتیں فَاِنْ : پھر اگر كُنَّ : ہوں نِسَآءً : عورتیں فَوْقَ : زیادہ اثْنَتَيْنِ : دو فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے ثُلُثَا : دوتہائی مَا تَرَكَ : جو چھوڑا (ترکہ) وَاِنْ : اور اگر كَانَتْ : ہو وَاحِدَةً : ایک فَلَھَا : تو اس کے لیے النِّصْفُ : نصف وَلِاَبَوَيْهِ : اور ماں باپ کے لیے لِكُلِّ وَاحِدٍ : ہر ایک کے لیے مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے السُّدُسُ : چھٹا حصہ 1/2) مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا (ترکہ) اِنْ كَانَ : اگر ہو لَهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد وَّوَرِثَهٗٓ : اور اس کے وارث ہوں اَبَوٰهُ : ماں باپ فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا الثُّلُثُ : تہائی (1/3) فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَهٗٓ : اس کے ہوں اِخْوَةٌ : کئی بہن بھائی فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا السُّدُسُ : چھٹا (1/6) مِنْۢ بَعْدِ : سے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْ بِھَآ : اس کی وصیت کی ہو اَوْ دَيْنٍ : یا قرض اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ وَاَبْنَآؤُكُمْ : اور تمہارے بیٹے لَا تَدْرُوْنَ : تم کو نہیں معلوم اَيُّھُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ لَكُمْ : نزدیک تر تمہارے لیے نَفْعًا : نفع فَرِيْضَةً : حصہ مقرر کیا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد 17 کے بارے میں تاکیداً حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر 18 ہوگا۔ اگر اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں اور وہ دو سے زائد ہوں 19 تو ان کا ترکہ سے دو تہائی حصہ ہے اور اگر ایک ہی ہو تو اس کا ترکہ کا نصف حصہ ہے۔ اگر میت کی اولاد بھی ہو اور والدین بھی تو والدین میں سے 20 ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اگر میت کی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف والدین ہوں تو ماں کا تہائی حصہ ہے اور اگر اس کے بہن بھائی بھی ہوں 21 تو ماں کا چھٹا حصہ ہے اور یہ تقسیم میت کا قرضہ اور اس کی وصیت ادا کرنے کے بعد ہوگی۔ تم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں۔ یقینا اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور حکمت 22 والا ہے
17 اس سورة کی آیت نمبر 11، اور 12 میں میراث، وصیت اور قرضہ کے جو احکام بیان ہوئے ہیں۔ انہیں ہم سہولت کی خاطر نئی ترتیب سے پیش کرتے ہیں اور احادیث کے حوالوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ خ علم میراث یا علم الفرائض کی اہمیت 1۔ آپ نے فرمایا (علم) الفرائض اور قرآن خود سیکھو اور لوگوں کو سکھلاؤ اس لیے کہ میں وفات پانے والا ہوں (ترمذی : ابو اب الفرائض، باب فی تعلیم الفرائض) 2۔ وصیت اور وراثت کے احکام :۔ آپ نے فرمایا علم تین ہیں اور ان کے سوا جو کچھ ہے وہ فضل ہے۔ آیات محکمات کا علم، سنت قائمہ اور انصاف کے ساتھ ورثہ کی تقسیم۔ (دار قطنی، ابن ماجہ، حاشیہ حدیث ترمذی مذکورہ بالا) قرضہ کی ادائیگی : قرضہ کی ادائیگی کا ذکر اگرچہ وصیت کے بعد مذکور ہے تاہم میت پر قرضہ کے بوجھ کے متعلق احادیث صحیحہ میں جو وعید آئی ہے اس کی بنا پر امت کا اجماع ہے کہ تقسیم میراث کے وقت سب سے پہلے قرضہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ اگر بیوی کا حق مہر ادا نہ ہوا ہو تو وہ بھی قرضہ ہے اگر میت پر حج فرض ہوچکا ہو مگر کسی وجہ سے کر نہ پایا ہو۔ یا اس نے منت مانی ہو تو اس قسم کے اخراجات تقسیم میراث اور وصیت پر عمل سے پہلے نکالے جائیں گے۔ خ وصیت کے احکام۔۔ وصیت کی تحریر 3۔ آپ نے فرمایا اگر کوئی شخص وصیت کرنا چاہتا ہو تو اسے دو راتیں بھی اس حال میں نہ گزارنا چاہئیں کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود نہ ہو۔ (مسلم۔ کتاب الوصیۃ) 4۔ وصیت کی آخری حد ایک تہائی مال تک :۔ وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ آپ نے خطبہ حجۃ الوداع کے دوران فرمایا۔ اللہ عزوجل نے ہر صاحب حق کا حق مقرر کردیا لہذا اب وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں (ترمذی، ابو اب الوصایا باب لا وصیہ لوارث) اسی طرح وصیت کی آخری حد ایک تہائی مال سے زیادہ نہیں ہے۔ 5۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں مکہ میں بیمار ہوا اور مرنے کے قریب ہوگیا۔ نبی اکرم میری عیادت کو تشریف لائے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! میرے پاس مال بہت ہے اور ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں۔ کیا میں اپنا مال (اللہ کی راہ میں) دے دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں پھر میں نے کہا دو تہائی دے دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں پھر میں نے کہا نصف دے دوں ؟ فرمایا نہیں۔ پھر میں نے پوچھا تہائی دے دوں ؟ فرمایا تہائی دے سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے۔ پھر فرمایا گر تم اپنی اولاد کو مالدار چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔ بیشک جو مال تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا اجر ملے گا۔ حتیٰ کہ اس نوالہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں دو گے۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث البنات۔ نیز مسلم : کتاب الوصیۃ، باب وصیۃ بالثلث) 6۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں۔ کاش ! لوگ تہائی سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کریں۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تہائی بھی بہت ہے۔ اور وکیع کی روایت میں کثیر اور کبیر کے الفاظ ہیں۔ (مسلم، کتاب الوصیہ) 7۔ قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا : قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوسکتا۔ (ترمذی، ابو اب الفرائض باب فی ابطال میراث القاتل) 8۔ کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا : کافر یا مرتد مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا۔ (بخاری، کتاب الفرائض۔ باب لایرث المسلم الکافر۔۔ مسلم، کتاب الفرائض) میراث کی تقسیم سے متعلقہ احکام نازل ہونے سے پہلے مسلمانوں پر وصیت فرض کی گئی تھی کہ وہ اپنی موت سے پہلے اپنے والدین اور دوسرے اقرباء کے متعلق وصیت کر جائیں کہ انہیں میت کی جائیداد سے کتنا کتنا حصہ دیا جائے۔ پھر میت کی وصیت میں اگر کوئی شخص گڑ بڑ کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا بار گناہ انہی لوگوں پر ہوگا جو اس کی وصیت میں تبدیلی کریں گے۔ ہاں اگر کسی قریبی کو یہ خطرہ لاحق ہوجائے کہ وصیت کرنے والے نے جانبداری سے کام لیا ہے یا حصوں کی تقسیم کے متعلق انصاف کے ساتھ وصیت نہیں کی۔ اور ایسے غلط وصیت کردہ حصوں میں اصلاح کر دے (یعنی تبدیلی کرنے والے کی نیت بخیر ہو اور خودغرضی پر منحصر نہ ہو) تو اسے ایسی تبدیلی کرنے پر کچھ گناہ نہ ہوگا ( سورة بقرہ کی آیات نمبر 180 تا 182 کا ترجمہ) پھر جب اللہ تعالیٰ نے سورة نساء میں خود ہی والدین اوراقرباء کے حصے مقرر فرما دیئے (جسے علم الفرائض یا علم میراث کی اصطلاح میں ذوی الفروض یا ذوی الفرائض کہتے ہیں) تو ان آیات میراث کی رو سے وصیت کی فرضیت ختم ہوگئی۔ بالفاظ دیگر وصیت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اور اب وصیت کی حیثیت فرض کے بجائے محض اختیاری رہ گئی۔ یعنی اگر کوئی شخص وصیت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اور اگر نہ کرے یا کر ہی نہ سکے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ البتہ اس وصیت پر سنت نبویہ کی رو سے دو پابندیاں لگا دی گئیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص اپنے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا اور دوسرے یہ کہ وصیت ذوی الفروض کے حق میں نہیں کی جاسکتی جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث میں ان دونوں باتوں کی وضاحت آگئی ہے۔ اور ان دونوں پابندیوں کی غرض وغایت یہ ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصوں میں گڑبڑ اور بےانصافی ہوجاتی ہے۔ گویا آپ کو پہلی شکایت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تہائی مال کی پابندی کیوں لگائی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے کہ وراثت کے اصل حقدار والدین اوراقربین ہیں اور ان کے حصے اللہ نے خود مقرر کردیئے جو غیر متبدل ہیں۔ پھر کوئی شخص سارے مال کی وصیت کیسے کرسکتا ہے ؟ سوچنے کی بات ہے کہ وصیت میں اصلاح کا حق اگر کسی دوسرے شخص کو دیا جاسکتا ہے جیسا کہ سورة بقرہ کی مذکورہ بالا آیت 182 سے ثابت ہے تو آخر رسول اللہ ﷺ کو کیوں نہیں دیا جاسکتا۔ اور وارثوں کے حق میں وصیت کی نفی بھی قرآن سے ثابت ہے کیونکہ یہ دوسرے حقداروں کے حق پر اثرانداز ہوتی ہے اور یہی وہ جانبداری یا ناانصافی کی بات ہے جس کا ذکر سورة بقرہ کی مندرجہ بالا آیات میں آیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ : آپ اس کا خیال بھی کرسکتے ہیں کہ قرآن کریم وصیت کو فرض قرار دے اور بلا مشروط یعنی پورے مال میں وصیت کا حق دے اور رسول اللہ یہ فرمائیں کہ نہیں وصیت ایک تہائی مال میں ہوسکتی ہے اور وہ بھی غیر وارثین کے لیے۔ خدا کے حکم میں ایسا رد و بدل یقینا رسول اللہ ﷺ کی شان کے خلاف ہے جن کا ایک ایک سانس قرآن کی اتباع میں گزرا (قرآنی فیصلے ؓ 111) اب دیکھئے پرویز صاحب کو کبھی رسول اللہ ﷺ کی شان کا خیال آتا ہے اور کبھی مسلمانوں کی روایت پرستی کا۔ مگر انہیں یہ خیال کبھی بھولے سے بھی نہیں آتا کہ کہیں میری قرآنی بصیرت ہی کسی ٹیڑھے راستے پر تو نہیں چل نکلی ؟ اور اس قرآنی بصیرت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے وصیت اور ترکہ کے الگ الگ احکام کو یوں گڈ مڈ کردیا کہ دونوں کا جنازہ نکال دیا۔ اور ان کا اپنا موقف یہ ہے کہ میت کو اپنی جائیداد و اموال کی تقسیم میں پورا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے مصالح و مقتضیات کے مطابق جسے جی چاہے اور جتنا جی چاہے دے۔ ہاں اگر پھر بھی وصیت اور قرضہ کی ادائیگی کے بعد کچھ بچ جائے تو وہ تقسیم ہوگا اور اگر نہیں بچتا تو نہ سہی (ایضاً ص 109) لہذا اب ہم ایک دوسرے انداز سے قرآن ہی سے یہ ثابت کریں گے کہ پرویز صاحب کا یہ موقف قرآن کے صریحاً خلاف ہے۔ نیز یہ کہ محولہ بالا دونوں احادیث قرآن کے عین مطابق ہیں آپ کے موقف کا پہلا حصہ یہ ہے کہ میت جسے چاہے دے دے۔ اس جسے چاہے میں سے والدین اوراقربین کو بہرحال خارج کرنا پڑے گا۔ یعنی جسے چاہے کا اطلاق غیر وارثوں پر ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ والدین اوراقربین کے حصے تو اللہ نے خود مقرر کردیئے ہیں۔ لہذا وارثوں کے حق میں وصیت کی ضرورت ختم ہوگئی۔ اور اگر کوئی شخص وارثوں کے مقررہ حصوں کے بعد کسی وارث کے حق میں وصیت کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اللہ کے مقررہ کردہ حصوں سے مطمئن نہیں، نہ ہی اسے اللہ کے علم و حکمت پر کچھ اعتماد ہے۔ ایسا شخص اگر کسی وارث کے حق میں وصیت کر کے اللہ کے مقرر کردہ حق میں اضافہ کرتا ہے تو اس کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسرے وارثوں کے حصوں میں اسی نسبت سے کمی واقع ہوگی اور اگر کسی کے حصہ میں کمی کرتا ہے یا اس کا حصہ ختم کرتا ہے تو ایسی وصیت باطل قرار پائے گی۔ کیونکہ ایسی وصیت سورة بقرہ کی آیت نمبر 181 کی رو سے (جَنَفًا اَوْ اِثْمًـا 182؁ۧ) 2 ۔ البقرة :182) کے ضمن میں آتی ہے جس کی اصلاح کردینا ازروئے قرآن نہایت ضروری ہے۔ علاوہ ازیں جو شخص وارثوں کے حق میں کچھ وصیت کرتا ہے تو یہ وصیت خواہ کمی کی ہو یا بیشی کی یا تو آبائی جانب یعنی والدین کے متعلق ہوگی یا ابنائی جانب یعنی اولاد کے متعلق ہوگی اور ان دونوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۭ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا 11 ؀) 4 ۔ النسآء :11) تم نہیں جانتے کہ فائدہ کے لحاظ سے تمہارے باپ داداؤں اور بیٹوں پوتوں میں سے کون تم سے نفع کے لحاظ سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ اگر کوئی شخص وارثوں کے حق میں اللہ کے مقرر کردہ حصوں کے علی الرغم وصیت کرتا ہے تو وہ صرف اس آیت کی خلاف ورزی ہی نہیں کرتا بلکہ اللہ کے علم و حکمت کو بھی چیلنج بھی کرتا ہے۔ اور (لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۭ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا 11 ؀) 4 ۔ النسآء :11) کو بھی۔ ان قرآنی دلائل سے واضح طور پر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وارثوں کے حق میں وصیت کرنا قرآن کے منشا کے خلاف ہے نیز پرویز صاحب کا یہ نظریہ کہ جتنا چاہے دے دے کے زمرہ سے وارثوں کو بہرحال خارج کرنا ہی پڑے گا۔ اب پرویز صاحب کے موقف کے دوسرے حصہ جتنا چاہے دے دے کی طرف آئیے۔ سورة بقرہ کی آیت 180 کی رو سے والدین اوراقربون کے لیے وصیت فرض قرار دی گئی اور سورة نساء کی آیت نمبر 11 کی رو سے اللہ تعالیٰ نے خود ہی والدین اوراقربوں کا حصہ مقرر فرما دیا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ تقسیم ورثہ کے وقت والدین اوراقربون کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ان دونوں کے نتائج کو ملانے سے نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی شخص اپنا سارا مال غیر وارثین کے لیے وصیت نہیں کرسکتا۔ وہ جتنا جی چاہے مال نہیں دے سکتا۔ بلکہ مال کا کچھ حصہ ہی وصیت کے ذریعہ دے سکتا ہے اور وہ بھی صرف غیر وارثوں کو دے سکتا ہے وارثوں کو نہیں۔ اب رہی یہ بات کہ میت اپنے مال کا کچھ حصہ جو وصیت کرسکتا ہے وہ کیا ہونا چاہیے تو قرآن کے دونوں مقامات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ متروکہ مال کے اصل حقدار والدین اوراقربون ہی ہیں۔ لہذا مال کا زیادہ تر حصہ انہیں ہی ملنا چاہیے اور کم تر حصہ ایسا ہونا چاہیے جو میت اپنے اختیار سے کسی غیر وارث کو بذریعہ وصیت دے سکتا ہے۔ اب اس کم تر حصہ کی تحدید فی الواقع قرآن میں مذکور نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے بتلایا کہ یہ کم تر حصہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال تک ہے اس سے زیادہ حصہ کی وصیت کی جائے گی تو یہ (جَنَفًا اَوْ اِثْمًـا 182؁ۧ) 2 ۔ البقرة :182) کے ضمن میں آئے گی جس میں رد و بدل اور ترمیم کی جاسکتی ہے اور اس اصلاح کا حق اللہ تعالیٰ نے ہر مصلح کو دیا ہے۔ اور پرویز صاحب یہ حق میت کی موجودگی میں جماعت کو اور میت کی موت کے بعد اسلامی عدالت کو دیتے ہیں (قرآنی فیصلے ص 110) اور یہ بات تو شاید طلوع اسلام بھی تسلیم کرے گا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے سب سے بڑے مصلح، ہمدرد اور خیر خواہ بھی تھے اور اسلامی عدالت بھی۔ پھر اگر آپ کی یہ تحدید با اعتماد ذرائع سے درست ثابت ہوجائے اور یہ تحدید قرآن کے خلاف بھی نہ ہو بلکہ اس قاعدہ کے مطابق ہو کہ آپ کو قرآن کے مجمل احکام کی تفسیر و تعیین کا حق بھی قرآن ہی نے دیا ہو تو پھر معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایسی متعین کی ہوئی حد کو تسلیم کرنے میں طلوع اسلام کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ؟ اور وہ اس بات کا واویلا کرنے میں کیسے حق بجانب سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ احادیث قرض کے صریحاً خلاف ہیں۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کی اکثریت، جو سنت رسول کو حجت تسلیم کرتی ہے، کے عقیدہ کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے یہ تحدید وحی خفی کے ذریعہ فرمائی تھی جو (بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ 90۝) 2 ۔ البقرة :90) میں شامل ہوتی ہے۔ 18 قرآن میں مذکور وراثت کے حصے :۔ سب سے پہلے اولاد کے حصوں کا ذکر کیا گیا اور اس میں یہ کلیہ بیان کیا گیا کہ ہر لڑکے کا حصہ لڑکی سے دگنا ہوگا۔ یہ اس لیے کہ اسلام نے معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ مرد پر ڈالا اور عورت کو اس سے سبکدوش کردیا ہے اور جب مرد کمانے کے قابل نہیں رہتا مثلاً باپ، دادا وغیرہ تو اس کا حصہ عورت یعنی ماں، دادی وغیرہ کے برابر ہوتا ہے۔ 19 اگر اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں تو اگر ایک لڑکی ہو تو اسے آدھا ترکہ ملے گا۔ دو یا دو سے زیادہ ہوں تو دو تہائی۔ اور یہ عورتوں کے حصہ کی آخری حد ہے۔ شیعہ حضرات کی طرف سے سیدنا ابوبکر ؓ اور سیدنا عمر ؓ کو مطعون کرنے کے سلسلہ میں ایک یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ نے سیدنا ابوبکر ؓ سے اپنے باپ رسول اللہ ﷺ کے ترکہ سے وراثت کا حصہ مانگا تو سیدنا ابوبکر ؓ نے انہیں بموجب حکم قرآن نصف حصہ ترکہ کا دینے سے انکار کردیا۔ اسی طرح سیدنا عمر ؓ کے دور خلافت میں سیدنا علی ؓ نے سیدہ فاطمہ کی طرف سے یہی حصہ مانگا تو انہوں نے بھی انکار کردیا لہذا یہ دونوں غاصب ہیں۔ جس طرح انہوں نے سیدنا علی ؓ سے حق خلافت غصب کیا تھا اسی طرح سیدہ فاطمہ کا حق وراثت غصب کیا تھا۔ اس اعتراض میں حق خلافت کے غصب کا جواب تو ہم آگے چل کر اسی سورة کی آیت نمبر 54 کے حاشیہ میں دیں گے اور حق وراثت کا جواب دے رہے ہیں۔ آپ کی وراثت :۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کی حیثیتیں دو تھیں : ایک شخصی یا ذاتی اور دوسری بحیثیت رسول اور فرمانروائے ریاست اسلامی۔ لہذا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان دو حیثیتوں کے لحاظ سے آپ کا ترکہ کیا تھا اور ان سے متعلق آپ نے کیا احکام صادر فرمائے تھے۔ ذاتی حیثیت سے ترکہ اور اس کے احکام سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمایئے : 1۔ عمرو بن حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی دینار (بطور ترکہ) چھوڑا اور نہ درہم۔ نہ کوئی غلام اور نہ لونڈی۔ صرف ایک سفید خچر چھوڑا جس پر آپ سواری کرتے تھے یا کچھ جنگی ہتھیار تھے اور جو زمین تھی وہ آپ مسافروں کے لیے صدقہ کر گئے تھے۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب قول النبی لا نورث ماترکنا صدقۃ) 2۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ (ابو الشحم) یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب ما قیل فی درع النبی ) 3۔ سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس جو کی روٹی اور کچھ باسی چربی لے گیا اس وقت آپ کی یہ حالت تھی کہ آپ نے اپنی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی اور اس سے اپنی بیویوں کے لیے جو لیے تھے۔ اور میں نے محمد ﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ محمد کے گھر والوں کے پاس کبھی شام کو ایک صاع گیہوں یا غلہ جمع نہیں رہا۔ حالانکہ اس وقت آپ کے پاس نو بیویاں تھیں۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب شری النبی النسیئۃ) آپ کی وراثت کے تین مدعی ان احادیث سے معلوم ہوگیا کہ آپ کا ذاتی ترکہ کچھ بھی نہ تھا۔ باقی اموال فے ہی رہ جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اختیار دیا تھا کہ آپ اپنی صوابدید کے مطابق ان اموال کو جیسے چاہیں اور جہاں چاہیں صرف کریں۔ ان اموال میں ایک تو فدک کا باغ تھا، دوسرے کچھ خیبر کی زمین اور کچھ زمین مدینہ کی بھی تھی۔ جس کا کوئی مالک نہ تھا اور وہ سرکاری تحویل میں تھی۔ ان اموال میں سے ایک تو آپ اپنی بیویوں کا سالانہ خرچہ رکھ لیتے تھے۔ وہ بھی بڑی کفایت شعاری کے ساتھ۔ کچھ اپنے نادار اقربا میں تقسیم کرتے تھے۔ کچھ جہاد کے اخراجات اور رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ فرماتے۔ گویا یہ بیت المال کی ملکیت ہوتی تھی۔ یہی وہ اموال تھے جن کے متعلق ورثاء نے سیدنا ابوبکر ؓ اور پھر سیدنا عمر ؓ کے ہاں دعویٰ کیا تھا اور مدعی تین فریق تھے۔ ایک سیدہ فاطمہ جن کا آیت میراث کی رو سے 2/1 حصہ بنتا تھا۔ دوسرے آپ کی بیویاں، جن کا 8/1 حصہ بنتا تھا اور تیسرے آپ کے چچا سیدنا عباس ؓ جن کا بطور عصبہ باقی یعنی 8/3 حصہ بنتا تھا۔ اب ان سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : 1۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ نے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے اس ترکے سے حصہ مانگا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بطور فے عطا فرمائے تھے۔ ابوبکر صدیق ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ اس بات پر سیدہ فاطمہ ناراض ہو کر چلی گئیں۔ پھر سیدہ فاطمہ نے اپنی وفات تک ابوبکر ؓ سے ملاقات نہ کی اور آپ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں۔ آپ باغ فدک، خیبر اور مدینہ کی زمینوں سے اپنا حصہ مانگتی تھیں تو سیدنا ابوبکر ؓ نے یہ جواب دیا کہ میں کوئی بات چھوڑنے والا نہیں جو آپ کیا کرتے تھے۔ ان اموال کی تقسیم جیسے آپ کیا کرتے تھے۔ میں ویسے ہی کرتا رہوں گا اور میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ آپ کی کوئی بات چھوڑ کر گمراہ نہ ہوجاؤں۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب فرض الخمس) 2۔ اور ایک دوسری حدیث کے مطابق جو سیدہ عائشہ ؓ ہی سے مروی ہے۔ سیدہ فاطمہ اور سیدنا عباس ؓ دونوں نے سیدنا ابوبکر ؓ سے اموال فے کے ترکہ میں حصہ کا مطالبہ کیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الگ الگ مواقع ہوں۔ اور سیدنا ابوبکر ؓ نے ان دونوں کو وہی جواب دیا جو مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر و مخرج رسول اللہ الیھم) 3۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بیویوں نے سیدنا عثمان ؓ کو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے پاس بھیجا اور وہ اموال فے میں سے اپنا آٹھواں حصہ مانگتی تھیں۔ میں نے انہیں منع کیا اور کہا تمہیں اللہ کا خوف نہیں۔ کیا تم یہ نہیں جانتیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ چناچہ آپ کی بیویاں ترکہ مانگنے سے باز آگئیں۔ (بخاری کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر و مخرج رسول اللہ الیھم) مندرجہ بالا تین احادیث تو دور صدیقی سے متعلق ہیں۔ اور دور فاروقی میں مدعی صرف دو تھے۔ ایک سیدنا علی ؓ اپنی زوجہ سیدہ فاطمہ کی طرف سے اور دوسرے سیدنا عباس ؓ عصبہ کی حیثیت سے۔ ان دونوں نے اموال فے سے ترکہ کا مطالبہ کیا تو سیدنا عمر ؓ نے دلائل دینے کے بعد کہا کہ میں یہ اموال صرف اس شرط پر آپ کے حوالہ کرسکتا ہوں کہ تم ان کے متولی بن کر رہو اور اسی طرح تقسیم کرو جس طرح رسول اللہ ﷺ تقسیم فرمایا کرتے تھے۔ یہ بات ان دونوں نے تسلیم نہ کی۔ پھر دوسری بار گئے تو بھی سیدنا عمر ؓ نے وہی جواب دیا تو ان دونوں حضرات نے اس مرتبہ تولیت کی شرط قبول کرلی اور سیدنا عمر ؓ نے یہ اموال ان کی تحویل میں دے دیئے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر تم نے یہ شرط پوری نہ کی تو میں پھر یہ اموال اپنی تحویل میں لے لوں گا۔ پھر عملاً یہ ہوا کہ سیدنا علی ؓ ہی بطور متولی ان اموال پر قابض ہوگئے اور سیدنا عباس ؓ کو نزدیک نہ آنے دیا۔ پھر سیدنا علی ؓ کے بعد یہ امام حسن ؓ کے، پھر ان کے بعد امام حسین ؓ کے، پھر ان کے بعد امام زین العابدین علی بن حسین اور پھر حسن بن حسن (حسن مثنیٰ ) دونوں کے قبضے میں رہے اور وہ باری باری اس کا انتظام کرتے رہے۔ پھر زید بن حسن بن علی (ان کے بھائی) کے پاس رہے اور ہر شخص کے پاس اسی طریق سے رہا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا صدقہ ہے (یعنی یہ حضرات متولی بن کر رہے۔ مالک بن کر نہیں رہے) اب ہم ایک طویل حدیث سے اقتباس پیش کرتے ہیں جو ان جملہ امور پر روشنی ڈالتی ہے : فی الحقیقت رسول اللہ ﷺ کا صدقہ ہی تھا :۔ مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمر ؓ نے بلا بھیجا۔ میں وہاں پہنچا ہی تھا کہ سیدنا عمر ؓ کا غلام یرفا آ کر کہنے لگا کہ حضرات عثمان ؓ ، عبدالرحمن بن عوف ؓ ، زبیر ؓ اور سعد بن ابی وقاص ؓ آئے ہیں۔ اور آپ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ سیدنا عمر ؓ نے اجازت دے دی۔ وہ آ کر بیٹھے ہی تھے کہ یرفا پھر آیا اور کہنے لگا کہ عباس ؓ اور علی ؓ آئے ہیں۔ سیدنا عمر ؓ نے انہیں بھی بلا لیا۔ چناچہ سیدنا عباس ؓ نے سیدنا عمر ؓ سے کہا : امیر المومنین میرا اور اس شخص کا فیصلہ کر دیجئے۔ یہ دونوں حضرات بنو نضیر کے اموال فے کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور آپس میں گالی گلوچ پر اتر آئے تھے۔ سیدنا عثمان ؓ اور ان کے ساتھی کہنے لگے : امیر المومنین ان کا فیصلہ کر کے انہیں ایک دوسرے سے نجات دلائیے۔ سیدنا عمر ؓ نے ان دونوں سے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ؟ ان دونوں نے کہا بیشک پھر سیدنا عمر ؓ نے فے سے متعلق سورة حشر کی آیات پڑھ کر فرمایا، اللہ کی قسم ! نبی اکرم نے ان اموال کو اپنی ذات کے لیے جوڑ نہیں رکھا۔ بلکہ تم لوگوں کو دیا اور بانٹا۔ اسی مال سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ نکالتے اور جو مال بچ جاتا اسے تازیست سامان جنگ اور رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کرتے رہے۔ پھر سیدنا ابوبکر ؓ جو نبی کریم کے قائم مقام تھے اسی طرح کرتے رہے۔ حالانکہ تم دونوں اس وقت بھی یہ کہتے تھے کہ ابوبکر ؓ کی یہ کاروائی ٹھیک نہیں ہے۔ اور اللہ خوب جانتا ہے کہ ابوبکر ؓ سچے، راست باز، ٹھیک راستے پر چلنے والے اور حق کے تابع تھے۔ پھر ان کے بعد اب میں ان دونوں کا جانشین ہوں۔ پھر تم دونوں (عباس اور علی) میرے پاس آئے۔ اس وقت تم دونوں کی بات ایک اور معاملہ ایک تھا۔ پھر اے عباس ؓ ئتم اکیلے بھی میرے پاس آئے اور میں نے یہی کہا کہ انبیاء کا مال صدقہ ہوتا ہے۔ پھر میں نے تم دونوں سے کہا کہ میں تمہیں یہ اموال صرف اس شرط پر دیتا ہوں کہ تم اس کی تقسیم ویسے ہی کرو جیسے خود رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ اور میں کرتے رہے۔ اگر یہ شرط منظور ہے تو ٹھیک ورنہ مجھ سے گفتگو نہ کرو۔ تم نے یہ شرط مان لی تو میں نے یہ اموال تمہارے حوالے کردیے۔ اب تم اور کیا چاہتے ہو ؟ اب اگر تم اس مال کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو اور تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوسکتا تو پھر یہ کام میرے سپرد کردو۔ میں ہی یہ کام سر انجام دیا کروں گا۔ مگر وہ اٹھ کر چلے گئے اور انہوں نے اموال کو واپس سیدنا عمر ؓ کی تحویل میں دینا گوارا نہ کیا اور عملاً ان اموال پر سیدنا علی ؓ قابض ہوگئے۔ چناچہ عروہ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ یہ مال سیدنا علی ؓ کے قبضہ میں رہا۔ انہوں نے سیدنا عباس ؓ کو اس پر قبضہ نہ کرنے دیا۔ پھر اس کے بعد حسن بن علی ؓ کے قبضہ میں آیا، پھر حسین بن علی ؓ کے قبضہ میں، پھر علی بن حسین اور حسن بن حسن دونوں کے قبضہ میں، جو باری باری اس کا انتظام کرتے تھے۔ پھر زید بن حسن کے قبضہ میں رہا۔ اور یہ اموال فی الحقیقت رسول اللہ ﷺ کا صدقہ ہی رہے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث بنی نضیر و مخرج رسول اللہ الیھم)
Top