Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 139
اِ۟لَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًاؕ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَتَّخِذُوْنَ : پکڑتے ہیں (بناتے ہیں) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست مِنْ دُوْنِ : سوائے (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اَيَبْتَغُوْنَ : کیا ڈھونڈتے ہیں ؟ عِنْدَھُمُ : ان کے پاس الْعِزَّةَ : عزت فَاِنَّ : بیشک الْعِزَّةَ : عزت لِلّٰهِ : اللہ کے لیے جَمِيْعًا : ساری
جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست 185 بناتے ہیں تو کیا یہ لوگ کافروں کے ہاں عزت چاہتے ہیں حالانکہ عزت تو سب اللہ ہی کے لیے ہے
185 کافروں سے دوستی منافق کی مثال اور کردار :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنانا یا سمجھنا منافقت کی واضح علامت ہے۔ یہ لوگ کافروں کے ساتھ میل جول رکھ کر ان کے نزدیک مقبول بننا چاہتے ہیں۔ حالانکہ نتیجہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا والی بات بن جاتی ہے ایسے منافق، مسلمانوں کی نظروں سے بھی گرجاتے ہیں اور کافروں کی نظروں میں بھی ذلیل ہی رہتے ہیں اور ہر جگہ سے اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں اور جو شخص ہر حال میں ایک ہی گروہ سے منسلک رہے وہ دشمن کی نظروں میں بھی کم از کم قابل اعتماد ضرور ہوتا ہے۔ چناچہ مسلم میں اسی مضمون کی ایک حدیث بھی وارد ہے۔ آپ نے فرمایا منافق کی مثال بکریوں کے دو گلوں کے درمیان پھرنے والی بکری کی سی ہے جو کبھی اس گلے میں جاتی ہے اور کبھی اس گلے میں۔ (مسلم، کتاب صفۃ المنافقین و احکامھم) یہ بات بھی قابل غور ہے کہ منافق لوگ کافروں سے میل جول اس لیے رکھتے ہیں کہ ان کے ہاں وہ معتبر، مقبول اور معزز بن سکیں۔ لیکن اگر اللہ ان کافروں کو ہی، جن کے ہاں یہ عزت تلاش کر رہے ہیں ذلیل کر دے تو انہیں عزت کہاں سے ملے گی۔
Top