Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ
: اور اگر
خِفْتُمْ
: تم ڈرو
اَلَّا
: کہ نہ
تُقْسِطُوْا
: انصاف کرسکوگے
فِي
: میں
الْيَتٰمٰى
: یتیموں
فَانْكِحُوْا
: تو نکاح کرلو
مَا
: جو
طَابَ
: پسند ہو
لَكُمْ
: تمہیں
مِّنَ
: سے
النِّسَآءِ
: عورتیں
مَثْنٰى
: دو ، دو
وَثُلٰثَ
: اور تین تین
وَرُبٰعَ
: اور چار، چار
فَاِنْ
: پھر اگر
خِفْتُمْ
: تمہیں اندیشہ ہو
اَلَّا
: کہ نہ
تَعْدِلُوْا
: انصاف کرسکو گے
فَوَاحِدَةً
: تو ایک ہی
اَوْ مَا
: یا جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: لونڈی جس کے تم مالک ہو
ذٰلِكَ
: یہ
اَدْنٰٓى
: قریب تر
اَلَّا
: کہ نہ
تَعُوْلُوْا
: جھک پڑو
اور اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں ان سے انصاف
5
نہ کرسکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں، دو ، دو ، تین، تین، چار، چار تک نکاح کرلو۔
6
لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔ یا پھر وہ کنیزیں ہیں جو تمہارے قبضے میں ہوں۔
6
۔
1
بےانصافی سے بچنے کے لیے یہ بات قرین صواب ہے
5
یتیم لڑکیوں سے ناانصافی :۔ اور زیادہ حق تلفی یتیم لڑکیوں کی ہوتی تھی۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ یتیم لڑکی کا ولی کوئی قریبی رشتہ دار ہی ہوسکتا ہے اور وراثت میں بھی ولی اور یتیم لڑکی کا اشتراک ممکن ہے۔ اب لڑکی کے جوان ہونے پر تین صورتیں پیش آسکتی تھیں : ایک یہ کہ لڑکی خوبصورت نہ ہو اور ولی کے دل میں اس کی الفت بھی نہ ہو اور وہ محض اس طمع سے اس سے نکاح کرلے کہ اس کا ورثہ کا مال ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس طرح کا نکاح کرنا بھی اس لڑکی پر ظلم ہے۔ دوسرے یہ کہ لڑکی خوبصورت بھی ہو اور صاحب جائیداد بھی ہو، اس صورت میں ولی اس سے نکاح کرلیتا مگر جتنا حق مہر اسے دوسروں سے مل سکتا تھا اسے اس سے بہت کم دیتا اور دوسرا کوئی شخص ولی کی موجودگی میں اس سے نکاح کر بھی نہیں سکتا تھا۔ جبکہ ولی خود اس کا خواہش مند ہو۔ یہ بھی یتیم لڑکیوں کے حقوق پر ڈاکہ کی ایک صورت تھی۔ یہی ناانصافیاں تھیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمایا ہے۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :
1
۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص ایک یتیم لڑکی کی پرورش کرتا تھا اس نے صرف اس غرض سے اس کے ساتھ نکاح کرلیا کہ وہ ایک کھجور کے درخت کی مالکہ تھی ورنہ اس کے دل میں اس لڑکی کی کوئی الفت نہ تھی۔ اس کے حق میں یہ آیت اتری۔ اس حدیث کے ایک راوی ابن جریج کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصہ دار تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)
2
۔ سیدہ عائشہ ؓ کے بھانجے عروہ بن زبیر ؓ نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا بھانجے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک یتیم لڑکی اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور ترکہ کی رو سے اس کی جائیداد میں حصہ دار ہو اور ولی کو اس کا مال اور جمال تو پسند آئے مگر وہ اسے اتنا مہر دینے پر آمادہ نہ ہو جتنا اسے دوسرے لوگ دیتے ہیں تو وہ اس سے نکاح نہ کرے۔ ہاں اگر اتنا ہی دے دے تو پھر نکاح کرسکتا ہے۔ ورنہ وہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے جو انہیں پسند ہو نکاح کرلے۔ اور چار تک ایسی بیویوں کی اجازت دی گئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور تیسری صورت یہ کہ لڑکی نہ خوبصورت ہو اور نہ صاحب مال ہو اس صورت میں ولی کو اس سے نکاح کرنے میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی تھی۔
6
چار تک بیویوں سے نکاح کی اجازت :۔ یتیم لڑکیوں کے سرپرستوں کو ان دونوں ناانصافیوں سے روکا گیا اور فرمایا کہ اگر تم صاحب جمال لڑکی کا اتنا مہر ادا کرسکو جتنا باہر سے مل سکتا ہے تو تم اس سے نکاح کرسکتے ہو ورنہ اور تھوڑی عورتیں ہیں ان میں سے اپنی حسب پسند چار تک بیویاں کرسکتے ہو۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان میں مساوات کا لحاظ رکھو اور اگر یہ کام نہ کرسکو تو پھر ایک بیوی پر اکتفا کرو۔ یا پھر ان کنیزوں پر جو تمہارے ملک میں ہوں۔ مندرجہ ذیل دو احادیث بھی ان احکام پر روشنی ڈالتی ہیں
1
۔ چار سے زیادہ بیویاں :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ ثقفی ؓ جب اسلام لائے تو ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں۔ آپ نے اسے فرمایا ان میں سے کوئی سی چار پسند کرلو (باقی چھوڑ دو ۔ ) (ابن ماجہ۔ کتاب النکاح۔ باب الرجل یسلم و عندہ أکثر من أربع نسوۃ)
2
۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ جس کے نام قرعہ نکلتا اسے اپنے ہمراہ لے جاتے اور آپ ہر بیوی کی باری ایک دن اور ایک رات مقرر کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الہبہ۔ باب ھبۃ المرأۃ لغیر زوجھا) البتہ رسول اللہ ﷺ کا معاملہ بالکل الگ ہے کیونکہ آپ کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں جو کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی تھیں۔ لہذا جتنے نکاح آپ کرچکے تھے وہ سب آپ کے لیے حلال اور جائز قرار دیئے گئے۔ اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ اسلام میں تعدد ازواج کی کوئی حد نہیں اور قرآن میں جو دو دو تین تین، چار چار کے الفاظ آئے ہیں یہ بطور محاورہ زبان ہیں یعنی دو دو کی بھی اجازت ہے، تین تین کی بھی اور چار چار کی بھی، اور اسی طرح پانچ پانچ اور چھ چھ کی بھی فصاعداً ۔ یہ استدلال دو وجہ سے غلط ہے : ایک یہ کہ اگر اجازت عام ہی مقصود ہوتی تو صرف (مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۭ )
4
۔ النسآء :
3
) کہہ دینا ہی کافی تھا۔ چار تک تعین کرنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی اور دوسرے یہ کہ سنت نے چار تک حد کی تعیین کردی تو پھر اس کے بعد کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہوسکتا کہ وہ کوئی دوسری بات کرے۔ جیسے کہ اوپر سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ لوگ تو وہ تھے جو افراط کی طرف گئے اور کچھ لوگ تفریط کی طرف چلے گئے کہ عام اصول یہی ہے کہ صرف ایک عورت سے شادی کی جائے، ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تمہیں خدشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔ پھر اسی سورة کی آیت نمبر
129
میں فرمایا کہ اگر تم چاہو بھی کہ اپنی بیویوں کے درمیان انصاف کرو تو تم ایسا نہ کرسکو گے۔ گویا آیت نمبر
3
میں تعدد ازواج کی جو مشروط اجازت دی گئی تھی وہ اس آیت کی رو سے یکسر ختم کردی گئی۔ لہذا اصل یہی ہے کہ بیوی ایک ہی ہونی چاہیے۔ خ نظریہ یک زوجگی کی دلیل اور اس کا رد :۔ یہ استدلال اس لحاظ سے غلط ہے کہ اسی سورت کی آیت
129
میں آگے یوں مذکور ہے لہٰذا اتنا تو کرو کہ بالکل ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ اور دوسری کو لٹکتا چھوڑ دو ۔ اور جن باتوں کی طرف عدم انصاف کا اشارہ ہے وہ یہ ہیں کہ مثلاً ایک بیوی جوان ہے دوسری بوڑھی ہے۔ یا ایک خوبصورت ہے اور دوسری بدصورت یا قبول صورت ہے۔ یا ایک کنواری ہے دوسری ثیب (شوہر دیدہ) ہے۔ یا ایک خوش مزاج ہے اور دوسری تلخ مزاج یا بدمزاج ہے۔ یا ایک ذہین و فطین ہے اور دوسری بالکل جاہل اور کند ذہن ہے۔ اب یہ تو واضح بات ہے کہ اگرچہ ان صفات میں بیوی کا اپنا عمل دخل کچھ نہیں ہوتا، تاہم یہ باتیں خاوند کے لیے میلان یا عدم میلان کا سبب ضرور بن جاتی ہیں۔ اور یہ فطری امر ہے اسی قسم کی ناانصافی کا یہاں ذکر ہے۔ اور چونکہ اس قسم کے میلان یا عدم میلان میں انسان کا اپنا کچھ اختیار نہیں ہوتا لہذا ایسے امور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت اور مواخذہ نہیں۔ خاوند سے انصاف کا مطالبہ صرف ان باتوں میں ہے جو اس کے اختیار میں ہیں۔ جیسے نان و نفقہ، اس کی ضروریات کا خیال رکھنا اور شب بسری کے سلسلہ میں باری مقرر کرنا وغیرہ۔ کون نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی بیویوں میں سے سیدہ عائشہ ؓ سے زیادہ محبت تھی اور اس کی وجوہ یہ تھیں کہ آپ کنواری تھیں، نو عمر تھیں، ذہین و فطین تھیں اور خوش شکل تھیں۔ چناچہ آپ یہ دعا بھی فرمایا کرتے تھے کہ یا اللہ ! جن باتوں میں مجھے اختیار ہے ان میں سب بیویوں سے میں یکساں سلوک کرتا ہوں اور جو باتیں میرے اختیار میں نہیں تو وہ مجھے معاف فرما دے۔ تفریط کی طرف جانے والے لوگ دراصل تہذیب مغرب سے سخت مرعوب ہیں جن کے ہاں صرف ایک ہی بیوی کی اجازت ہے آج کل اس طبقہ کی نمائندگی غلام احمد پرویز صاحب فرما رہے ہیں۔ انہوں نے اس آیت میں یتامی کا لفظ دیکھ کر تعدد ازواج کی اجازت کو ہنگامی حالات اور جنگ سے متعلق کردیا چناچہ طاہرہ کے نام خطوط کے صفحہ
315
پر فرماتے ہیں : مطلب صاف ہے کہ اگر کسی ہنگامی حالت مثلاً جنگ کے بعد جب جوان مرد بڑی تعداد میں ضائع ہوچکے ہوں اور ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ معاشرہ میں یتیم بچے اور لاوارث جوان عورتیں شوہر کے بغیر رہ جائیں تو اس کا کیا علاج کیا جائے۔ اس ہنگامی صورت سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اس کی اجازت دی جاتی ہے کہ ایک بیوی کے قانون میں عارضی طور پر لچک پیدا کرلی جائے۔ پھر آگے چل کر (فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا ۭ )
4
۔ النسآء :
3
) کے معنی بیان فرماتے ہیں کہ ان میں سے ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں نکاح کرلو۔ اس طرح انہیں (اور بیواؤں کی صورت میں ان کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی) خاندان کے اندر جذب کرلو۔ یہی ان سے منصفانہ سلوک ہے۔ یہ مسئلہ اگر دو دو بیویاں کرنے سے حل ہوجائے تو دو دو کرلو اور اگر تین تین سے ہو تو تین تین اور چار چار سے ہو تو چار چار۔۔ یہ تو رہا اجتماعی فیصلہ (طاہرہ کے نام خطوط : ص
316
) اب یہاں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہنگامی حالات اور جنگ کی قید آ کہاں سے گئی ؟ کیا ہنگامی حالات یا جنگ کے بغیر کسی معاشرہ میں یتیموں کا وجود ناممکن ہے ؟ یا قرآن کے کسی لفظ سے ہنگامی حالات یا جنگ کا اشارہ تک بھی ملتا ہے ؟ خیر اس بات کو بھی جانے دیجئے، ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ پرویز صاحب بجا فرما رہے ہیں تو اس کے مطابق صرف جنگ احد ہی ایسی جنگ قرار دی جاسکتی ہے جو پرویز صاحب کے نظریہ کا مصداق بن سکے۔ کیونکہ اس میں ستر مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ دوسری کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کا اتنا زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس جنگ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی اور منافقین کو بھی مسلمانوں میں شامل سمجھا جائے تو ایک ہزار تھی۔ اور یہ وہ تعداد تھی جو میدان جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے ورنہ سب مسلمانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ اور ان میں سے ستر مسلمانوں کے شہید ہونے سے ستر عورتیں بیوہ ہوگئیں (کیونکہ پرویز صاحب کے نظریہ کے مطابق اصل صرف یک زوجگی ہے) اب ان میں ان کی یتیم اولاد یعنی جوان لڑکیاں۔۔ اس تعداد کو چار گنا کر دیجئے۔۔ یعنی تقریباً
300
عورتوں کی شادی کا مسئلہ تھا اور بقول پرویز صاحب چونکہ یہ اجتماعی مسئلہ تھا لہذا ڈیڑھ ہزار مسلمانوں میں سے صرف تین سو مسلمانوں کے مزید ایک بیوی کرلینے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا تھا اور یہ کام ہو بھی حکومتی سطح پر رہا تھا۔ پھر جب سارے مسلمانوں کو دو دو بھی حصہ میں نہ آسکیں تو تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کے کیا معنی ؟ اور یہ اجتماعی فیصلہ والی بات بھی عجیب قسم کی دھاندلی ہے۔ قرآن کہہ رہا ہے (فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا ۭ )
4
۔ النسآء :
3
) یعنی مسلمان انفرادی طور پر جس جس عورت کو پسند کریں اس سے نکاح کرلیں اور آپ اسے اجتماعی فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ سو یہ ہے پرویز صاحب کی قرآنی بصیرت، جو دراصل اس مغربی تخیل کی پیداوار ہے جس میں ایک سے زائد بیویوں سے نکاح کو مذموم فعل سمجھا جاتا ہے۔ بات بالکل صاف تھی کہ اسلام نے حکم تو ایک بیوی سے نکاح کرلینے کا دیا ہے۔ البتہ اجازت چار بیویوں تک ہے۔ تعدد ازواج اجازت ہے حکم نہیں۔ اور اس اجازت کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ہر ایک کے لیے اور ہر دور کے لیے تاقیامت دستور حیات ہے۔ لہذا کسی بھی ملک اور کسی بھی دور کے لوگ اپنے اپنے رسم و رواج یا ضروریات کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ملک پاکستان میں عورت کی علیحدہ ملکیت کا تصور نہیں۔ مرد اگر گھر والا ہے تو عورت گھر والی ہے لہذا یہاں اگر کوئی دو بیویاں کرلے تو بیشمار پریشان کن مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لہذا یہاں اگر کوئی دوسری یا تیسری بیوی کرتا ہے تو یقینا کسی خاص ضرورت کے تحت کرتا ہے اور ملک کی
95
فیصد آبادی اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھاتی اور ایک ہی بیوی کو درست سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس عرب میں آج بھی بیوی کی الگ ملکیت کا تصور موجود ہے۔ لہذا وہاں چار تک بیویاں کرنے پر بھی بیویوں کی باہمی رقابت اور خاوند کو پریشان کرنے والے مسائل بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ پھر وہاں طلاق کو بھی کوئی ایسا جرم نہیں سمجھا جاتا جس سے دو خاندانوں میں ایسی عداوت ٹھن جائے جیسی پاکستان میں ٹھن جاتی ہے۔ لہذا وہاں نصف سے زیادہ آبادی قرآن کی اس اجازت سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ لہذا شرعی لحاظ سے نہ پاکستان کے رواج کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے اور نہ عرب کے رواج کو۔ ایک سے زیادہ بیویوں کو مذموم فعل سمجھنے کے اس مغربی تخیل کی بنیادیں دو ہیں : پہلی بنیاد فحاشی، بدکاری، داشتائیں رکھنے کی عام اجازت اور جنسی آوارگی ہے جسے مغرب میں مذموم فعل کی بجائے عین جائز بلکہ مستحسن فعل سمجھا جاتا ہے۔ اور دوسری بنیاد مادیت پرستی ہے۔ جس میں ہر شخص یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا معیار زندگی بلند ہو اور اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلائے مگر ان باتوں پر چونکہ بےپناہ اخراجات اٹھتے ہیں جو ہر انسان پورے نہیں کرسکتا، لہذا وہ اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو یا کم سے کم ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا معاشرہ تو ایک بیوی بھی بمشکل برداشت کرتا ہے اور وہ بہتر یہی سمجھتا ہے کہ بیوی ایک بھی نہ ہو اور سفاح یا بدکاری سے ہی کام چلتا رہے۔ لیکن اسلام سب سے زیادہ زور ہی مرد اور عورت کی عفت پر دیتا ہے اور ہر طرح کی فحاشی کو مذموم فعل قرار دیتا ہے اور معیار زندگی کو بلند کرنے کی بجائے سادہ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے اسی لیے اس نے اقتضاء ات اور حالات کے مطابق چار بیویوں تک کی اجازت دی ہے۔ اب بتائیے کہ اس مغربی تخیل اور اسلامی تخیل میں مطابقت کی کوئی صورت پیدا کی جاسکتی ہے ؟۔ خ نکاح ثانی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا قانون :۔ اسی مغربی تخیل سے اور بعض مہذب خواتین کے مطالبہ سے متاثر ہو کر صدر ایوب کے دور میں پاکستان میں مسلم عائلی قوانین کا آرڈیننس
1961
ء پاس ہوا۔ جس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر مرد شادی شدہ ہو اور دوسری شادی کرنا چاہتا ہو تو وہ سب سے پہلے اپنی پہلی بیوی سے اس دوسری شادی کی رضامندی اور اجازت تحریراً حاصل کرے، پھر ثالثی کونسل سے اجازت نامہ حاصل کرے اور اگر ثالثی کونسل بھی اجازت دے تو تب ہی وہ دوسری شادی کرسکتا ہے۔ جیسا کہ اس آرڈیننس کی شق نمبر
21
اور
22
سے واضح ہوتا ہے۔ گویا حکومت نے نکاح ثانی پر ایسی پابندیاں لگا دیں کہ کوئی شخص کسی انتہائی مجبوری کے بغیر دوسرے نکاح کی بات سوچ بھی نہ سکے اور عملاً اس اجازت کو ختم کردیا جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو دی تھی۔ کیونکہ کوئی عورت یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ اس کے گھر میں اس کی سوکن آجائے۔ اب جو لوگ دوسری شادی کرنا چاہتے تھے اور پہلی بیوی کے رویہ سے نالاں تھے یا کسی اور مقصد کے لیے دوسری شادی ضروری سمجھتے تھے انہوں نے اس غیر فطری پابندی کا آسان حل یہ سوچا کہ پہلی بیوی کو طلاق دے کر رخصت کردیا جائے اور بعد میں آزادی سے دوسری شادی کرلی جائے۔ اس طرح جو قانون عورتوں کے حقوق کی محافظت کے لیے بنایا گیا تھا وہ خود انہی کی پریشانی کا موجب بن گیا۔ کیونکہ اللہ کے احکام کی ایسی غیر فطری تاویل اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے معاشرہ کو اس کی سزا مل کے رہتی ہے۔ خ ایک عورت چار اور چار شوہر :۔ پھر کچھ دریدہ دہن مغرب زدہ آزاد خیال عورتوں نے یہ اعتراض بھی جڑ دیا کہ یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے کہ مرد تو چار چار عورتوں سے شادی کرلے اور عورت صرف ایک ہی مرد پر اکتفا کرے ؟ اور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسا اعتراض کوئی ایسی حیا باختہ عورت ہی کرسکتی ہے جو یہ چاہتی ہے کہ اسے بھی بیک وقت کم از کم چار مردوں تک سے نکاح کی اجازت ہونی چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنسی خواہش جیسے انسانوں میں ہوتی ہے ویسے ہی حیوانوں میں بھی ہوتی ہے۔ اور مرد کو تو چار بیویوں کی اجازت ہے جبکہ ہم گوالوں کے ہاں دیکھتے ہیں کہ اگر ایک گوالے نے بیس بھینسیں رکھی ہوئی ہیں تو بھینسا صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ کیا کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی گوالے نے بھین سے تو بیس رکھے ہوں اور بھینس صرف ایک ہی ہو خود ہی غور فرما لیجئے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور ایسا کیوں نہیں ہوتا ؟ بات دراصل یہ ہے کہ مرد تو اپنی جوانی کے ایام میں اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت مستعد ہوتا ہے مگر عورت کی ہرگز یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ ہر ماہ حیض کے ایام میں اسے اس فعل سے طبعاً نفرت ہوتی ہے۔ پھر مرد تو صحبت کے کام سے دو تین منٹ میں فارغ ہوجاتا ہے اور اس سے آگے اولاد کی پیدائش میں کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ جبکہ عورت کو حمل قرار پا جائے تو پورے ایام حمل میں، پھر اس کے بعد رضاعت کے ایام میں بھی وہ طبعاً اس فعل کی طرف راغب نہیں ہوتی۔ البتہ اپنے خاوند کی محبت اور اصرار کی وجہ سے اس کام پر آمادہ ہوجائے تو اور بات ہے اور بسا اوقات عورت انکار بھی کردیتی ہے۔ لیکن مرد اتنی مدت صبر نہیں کرسکتا۔ اب اس کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ یا تو اور نکاح کرے یا پھر فحاشی کی طرف مائل ہو۔ اور اسلام نے پہلی صورت کو ہی اختیار کیا ہے۔ پھر مرد اگر چار بیویاں بھی رکھ لے تو اس سے نہ نسب میں اختلاط پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی میراث کے مسائل میں کوئی الجھن پیش آتی ہے۔ جبکہ عورت اگر دو مردوں سے بھی اختلاط رکھے تو اس سے نسب بھی مشکوک ہوجاتا ہے۔ کیونکہ نسب کا تعلق مرد سے ہے، عورت سے نہیں۔ اور میراث کے مسائل میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اب ان باتوں کو درخور اعتناء نہ سمجھئے اور صرف اس بات پر غور فرمائیے کہ اگر عورت کو چار شوہروں کی اجازت دی جائے تو وہ رہے گی کس کے گھر میں ؟ اور کون اس کے نان و نفقہ اور اس کی اولاد کے اخراجات کا ذمہ دار بنے گا ؟ پھر کیا ایک شوہر یہ برداشت کرلے گا کہ اس کی بیوی علیٰ الاعلان دوسروں کے پاس بھی جاتی رہے۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ آپ شریعت کو بالائے طاق رکھئے اور چار شوہروں والی بات کا تجربہ کر کے دیکھئے کہ اس سے کس طرح ایک معاشرہ چند ہی سالوں میں تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ کوئی اسلام سے انکار کرتا ہے تو کرے مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شرعی احکام انسانی مصالح پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔ اب اس مسئلہ پر ایک اور پہلو سے غور فرمائیے۔ اس حقیقت سے تو سب لوگ آشنا ہیں کہ جوانی کے ایام میں ہر شخص میں شہوانی جذبات اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اور پھر نوجوان اور تندرست مرد اس قابل ہوتا ہے کہ کم از کم ایک دن میں ایک بار جماع کرے تب بھی اس کی صحت خراب نہ ہو۔ اور اگر اس جذبہ شہوانی کو طویل مدت تک دبائے رکھا جائے تو اس سے انسان کے بیمار پڑجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ان حالات میں انسان کے سامنے تین ہی راستے ہوتے ہیں : خ رہبانیت کے نتائج :۔ پہلا یہ کہ اس جذبہ کو مختلف تدبیروں سے دبا دیا جائے۔ خواہ یہ خصی ہونے سے ہو یا انتہائی قلیل خوری سے۔ جیسا کہ جوگی، سادھو یا رہبان قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ اس طریق کے غیر فطری ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور اس کا سب سے بڑا نقصان نسل انسانی کا انقطاع ہے اور اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ فحاشی چور دروازے تلاش کرنے لگتی ہے۔ اس قسم کے لوگ تقدس کے پردوں میں زنا کاری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عیسائی مذہب میں اس کا رواج عام تھا۔ ایسے درویش قسم کے مرد اور عورتیں جو ساری عمر جنسی جھمیلوں سے آزاد رہ کر کلیسا کی خدمت کے لیے مامور ہوتے تھے ان میں خفیہ طور پر حرام کاری کا وسیع سلسلہ پایا جاتا تھا اور حرامی بچوں کو مختلف طریقوں سے ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا اور ایسے بیشمار واقعات تاریخ کے صفحات پر آج بھی ثبت ہیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ شہوانی خواہشات کو بلاجھجک کھلے بندوں پورا کیا جائے۔ اہل مغرب کے ادیب قسم کے لوگوں نے نکاح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک صدی سے زیادہ عرصہ اس مہم پر صرف کیا اور بالآخر وہ ایسی فحاشی کو عام کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان لوگوں کا طرز استدلال یہ تھا کہ انسان کی تین ضرورتیں لابدی ہیں : بھوک، نیند اور جنسی ملاپ۔ ان کو اگر پورا نہ کیا جائے تو انسان کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نیند تو بہرحال اپنا حق وصول کر ہی لیتی ہے۔ بھوک کا معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ بھوک کے وقت گھر پر نہیں تو بازار سے، ہوٹل سے، عزیز و اقارب سے، جہاں بھی وہ ہو اپنی یہ ضرورت پوری کر ہی لیتا ہے اور اس کے لیے وہ محض اپنے گھر کا محتاج نہیں ہوتا۔ تو جیسی ضرورت غذائی بھوک کی ہے ویسی ہی جنسی بھوک کی بھی ہے لہذا صرف اپنی بیوی سے ہی ملاپ کا تصور غیر فطری ہے۔ نیز اگر کسی کو بیوی بھی میسر نہ آسکے تو وہ کیا کرے ؟ خ کیا جنسی آوارگی ایک لابدی ضرورت ہے :۔ اس استدلال میں غذائی بھوک اور جنسی بھوک کو ایک ہی سطح پر رکھ کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ یہ بات اصولی طور پر غلط ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں :
1
۔ غذائی بھوک کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ پیٹ کا تنور غذا سے پر کیا جائے لیکن جنسی بھوک کا علاج فطرت نے از خود کردیا ہے۔ جب انسان میں مادہ منویہ زیادہ ہوجائے تو بذریعہ احتلام یہ مادہ خارج ہوجاتا ہے اور یہ جنسی بھوک از خود کم ہوتی رہتی ہے۔
2
۔ جنسی بھوک کو کم خوری اور روزہ رکھنے سے بھی کم کیا جاسکتا ہے لیکن غذائی بھوک کا شکم پروری کے سوا کوئی علاج نہیں ہوتا۔
3
۔ غذائی بھوک از خود پیدا ہوتی ہے جبکہ جنسی بھوک کو بہت حد تک خود پیدا کیا جاتا ہے۔ آپ خود کو شہوانی خیالات اور ماحول سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اگر آپ شہوانی جذبات کے ماحول میں مستغرق رہنے کے بجائے دوسرے مفید کاموں میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں گے تو یہ جنسی بھوک بیدار ہی نہ ہوگی۔ اور اگر شہوانی خیالات اور ماحول میں مستغرق رہیں گے، فحش قسم کا لٹریچر اور ناول پڑھیں گے، سنیما اور ٹیلی ویژن پر رقص و سرود کے پروگرام دیکھیں گے، زہد شکن قسم کے گانے سنیں گے اور جنسی جذبات کو ہیجان میں رکھنے والے ماحول میں رہیں گے تو یہ جنسی بھوک اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔ گویا اس جنسی بھوک کو پیدا کرنا نہ کرنا، اعتدال پر رکھنا اور پروان چڑھانا بہت حد تک انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے جبکہ غذائی بھوک پر کنٹرول انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔ ہمارے اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے کیا یہ بات کافی نہیں کہ آج کے معاشرہ میں بھی آپ کو ایسے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اور عفیف بچے کافی تعداد میں مل سکتے ہیں جن کی بیس پچیس برس کی عمر تک شادی نہیں ہوتی اور ان کی زندگی بےداغ ہوتی ہے۔ حالانکہ جنسی جذبات دس گیارہ سال کی عمر کے بعد بیدار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ خ اعتدال کا راستہ :۔ اور تیسرا راستہ دونوں کے درمیان اعتدال کا ہے جو اسلام نے اختیار کیا ہے کہ شہوانی جذبہ چونکہ فطری جذبہ ہے لہذا اسے روکنا غیر فطری بات ہے۔ تاہم اسے ایسا بےلگام بھی نہیں چھوڑا گیا جس سے معاشرتی بنیادوں کے انجر پنجر ہی ہل جائیں بلکہ اسے نکاح کی شرائط سے پابند بنادیا گیا ہے۔ اور یہ بات تو ہم پہلے واضح کرچکے ہیں کہ شہوانی ہیجان مرد میں اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات ایک بیوی اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ لہذا فحاشی اور بےحیائی سے اجتناب کے لیے تعدد ازواج ضروری تھا اور یہی راستہ فطری اور اسلامی ہے اور اسی راستہ کو اکثر انبیائے کرام نے اختیار کیا ہے جو مختلف ادوار میں انسانی معاشرہ کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ اور اس سے ان لوگوں کے نظریہ کی تردید بھی ہوجاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں اصل حکم صرف ایک عورت سے نکاح کا ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ معاشرہ کا ایک نہایت اہم اور بنیادی مسئلہ ہے لہذا اگر اسلام یک زوجگی کا قائل ہوتا تو اس کے متعلق نہایت واضح اور صریح حکم کا آنا لابدی تھا اس لیے کہ عرب میں تعدد ازواج کا رواج اس قدر زیادہ تھا کہ اسلام کو اس میں تحدید کرنا پڑی۔
6
۔
1
کنیزوں سے تمتع کی شرائط کے لیے اسی سورة کا حاشیہ نمبر
40
ملاحظہ فرمائیے۔
Top