Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 59
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے (ایمان والے) اَطِيْعُوا : اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو الرَّسُوْلَ : رسول وَاُولِي الْاَمْرِ : صاحب حکومت مِنْكُمْ : تم میں سے فَاِنْ : پھر اگر تَنَازَعْتُمْ : تم جھگڑ پڑو فِيْ شَيْءٍ : کسی بات میں فَرُدُّوْهُ : تو اس کو رجوع کرو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَالرَّسُوْلِ : اور رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور روز الْاٰخِرِ : آخرت ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر وَّاَحْسَنُ : اور بہت اچھا تَاْوِيْلًا : انجام
اے ایمان والو ! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہوجائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو ۔ 91 یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے
91 اسلامی حکومت کے چار اصول :۔ اس آیت میں ایک اسلامی حکومت کی چار مستقل بنیادوں کا ذکر کیا گیا ہے : 1۔ اسلامی نظام میں اصل مطاع صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی کائنات کا خالق ومالک ہے لہذا ہر طرح کے قانونی اور سیاسی اختیارات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ آج کی زبان میں یوں کہیے کہ قانونی اور سیاسی مقتدر اعلیٰ صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ قانون سازی اور حلت و حرمت اور اوامرو نواہی کے اختیارات اسی کے لیے ہیں۔ اس وقت دنیا میں جس قدر نظام ہائے سیاست رائج ہیں ان سب میں مقتدر اعلیٰ یا کوئی انسان ہوتا ہے یا ادارہ۔ جبکہ اسلامی نظام خلافت میں مقتدر اعلیٰ کوئی انسان یا ادارہ نہیں ہوسکتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور یہی اصل اس نظام سیاست کو دوسرے تمام نظام ہائے سیاست سے ممتاز کرتی ہے۔ خ جمہوریت خلافت کی ضد ہے :۔ آج کل بیشتر ممالک میں خواہ وہ مسلم ملک ہوں یا غیر مسلم۔ جمہوری نظام سیاست ہی رائج ہے۔ جمہوری نظام سیاست میں سیاسی مقتدر اعلیٰ تو عوام ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں اور قانونی مقتدر اعلیٰ پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کے جملہ اور وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں جنہیں چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور عدالتوں کا کام محض یہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کریں۔ اس لحاظ سے یہ نظام مردود اور نظام خلافت کی عین ضد ہے۔ 2۔ رسول کی اطاعت اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس اللہ کے احکام کی اس کی منشاء کے مطابق بجاآوری کا رسول کی اطاعت کے بغیر کوئی ذریعہ نہیں۔ لہذا رسول کی اطاعت بھی حقیقتاً اللہ ہی کی اطاعت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اللہ کی اور رسول کی اطاعت ایک ہی اطاعت قرار پاتی ہے۔ علاوہ ازیں رسول کی اطاعت کی ایک مستقل حیثیت بھی ہوتی ہے۔ وہ یوں کہ جہاں کتاب اللہ خاموش ہو اور رسول ہمیں کوئی حکم دے۔ خواہ یہ حکم قانون سے تعلق رکھتا ہو یعنی حلت و حرمت سے متعلق ہو یا اوامرو نواہی سے تو ایسا حکم ماننا بھی ہم پر ایسے ہی فرض ہے جیسے اللہ کی اطاعت اور چونکہ ایسی اطاعت کا بھی اللہ نے خود ہمیں حکم دیا ہے تو اس لحاظ سے یہ بھی اللہ کی اطاعت کے تحت آجاتی ہے۔ 3۔ تیسری اطاعت ان حکام کی ہے جو مسلمان ہوں۔ حکام (اولی الامر) سے مراد وہ ہر قسم کے حکام ہیں جو کسی ذمہ دارانہ منصب پر فائز ہوں۔ یہ انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہوں یا عدلیہ سے یا علماء مجتہدین سے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تو غیر مشروط ہوتی ہے لیکن اولی الامر کی اطاعت صرف اس صورت میں ہوگی جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے خلاف نہ ہو۔ اگر خلاف ہو تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ 4۔ اور چوتھی بنیاد یہ ہے کہ اگر کسی حاکم کے اور رعایا کے درمیان کسی معاملہ میں نزاع پیدا ہوجائے، تو ایسا معاملہ (آپ کی زندگی میں) آپ کی طرف اور (آپ کی زندگی کے بعد) کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اور حَکَم کی حیثیت کتاب و سنت کی ہوگی۔ اور آخر میں یہ بتادیا گیا کہ اگر تم نے ان چار اصولوں میں سے کسی بھی اصول میں کوتاہی کی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہارا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ اور اگر تمہارا اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعویٰ سچا ہے تو تمہیں بہرحال ان چار اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا اور جب تک تم نے ان چاروں امور کا خیال رکھا اس وقت تک تمہارے اخلاق و کردار درست اور تمہاری حکومت مستحکم رہے گی۔ امیر یا حاکم کی اطاعت کس قدر ضروری ہے اور کن حالات میں ضروری ہے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : 1۔ اطاعت امیر کی اہمیت اور حدود :۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء۔۔ بخاری، کتاب الاحکام۔ باب قولہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول۔۔ ) 2۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ہر شخص پر امیر کا حکم سننا اور اسے ماننا فرض ہے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند، جب تک کہ اسے گناہ کا حکم نہ دیا جائے اور اگر اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر نہ ایسے حکم کو سننا لازم ہے اور نہ اس کی اطاعت (بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ) 3۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص امیر کی اطاعت اور جماعت سے الگ ہوا، پھر اسی حال میں مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جو شخص کسی اندھے (جھنڈے) کے تحت لڑائی کرے اور تعصب کے لیے جوش دلائے یا تعصب کی طرف بلائے اور تعصب کے لیے مدد کرے پھر مارا جائے تو وہ بھی جاہلیت کی موت مرا۔ (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب ملازمۃ المسلمین) 4۔ سیدنا حارث ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے۔ (امیر کا حکم) سننا اور اطاعت کرنا، جہاد کرنا، ہجرت کرنا اور جماعت (سے چمٹے رہنا) کیونکہ جو شخص بالشت بھر بھی جماعت سے الگ ہوا اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے اتار پھینکا۔ الا یہ کہ وہ واپس لوٹ آئے۔ (ترمذی ابو اب الامثال) 5۔ امیر سے تنازعہ :۔ سیدنا علی ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے ایک لشکر روا نہ کیا اور اس کا امیر ایک انصاری (عبداللہ بن حذافہ) کو مقرر کیا اور لشکر کو ان کی اطاعت کا حکم دیا۔ وہ امیر ان سے کسی بات پر خفا ہوگیا اور ان سے پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ؟ امیر نے کہا اچھا تو ایندھن جمع کرو اور آگ جلاؤ اور اس میں داخل ہوجاؤ۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی اور جب داخل ہونے کا ارادہ کیا تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ کسی نے کہا ہم نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہی اس لیے کی ہے کہ آگ سے بچ جائیں، تو کیا ہم آگ میں داخل ہوں ؟ اتنے میں آگ بجھ گئی اور امیر کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا۔ اس بات کا ذکر آپ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا اگر تم آگ میں داخل ہوجاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے۔ اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے۔ اور مسلم کی روایت کے مطابق آپ نے فرمایا اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہے۔ (بخاری، کتاب الاحکام۔ باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ۔۔ مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ) 6۔ آپ نے فرمایا عنقریب فتنے فساد ہوں گے تو جو اس امت کے معاملہ میں تفرقہ ڈالے جبکہ وہ متحدہ ہو۔۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جماعت کا کسی ایک شخص پر اتحاد و اتفاق ہو اور وہ شخص تمہاری جمعیت میں پھوٹ ڈالنا چاہے تو اس کی گردن اڑا دو ۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب من فرق امر المومنین و ہو مجتمع) یہ تو اطاعت امیر سے متعلقہ احکام تھے۔ اب امیر سے تنازعہ کا مسئلہ یوں ہے کہ سیدنا عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ کیا تو سیدنا ابی بن کعب ؓ کا مکان اس میں رکاوٹ تھی۔ سیدنا عمر ؓ نے ابی بن کعب ؓ سے کہا بلکہ انہیں مجبور کیا کہ وہ جائز قیمت لے کر مکان دے دیں لیکن ابی بن کعب ؓ مکان کو فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ تنازعہ بڑھ گیا تو فریقین نے جن میں مدعی حکومت وقت یا امیر المومنین سیدنا عمر ؓ تھے اور مدعا علیہ سیدنا ابی بن کعبص، سیدنا زید بن ثابت ؓ کو اپنا ثالث (یا عدالت) بنانا منظور کرلیا۔ تنقیح طلب معاملہ یہ تھا کہ اسلام انفرادی ملکیت کو کس قدر تحفظ دیتا ہے اور آیا اجتماعی مفاد کی خاطر انفرادی مفادات کو قربان کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ چناچہ کتاب و سنت کی رو سے سیدنا زید بن ثابت ؓ نے اس مقدمہ کا فیصلہ سیدنا عمر ؓ کے خلاف دے دیا۔ جب سیدنا ابی بن کعب ؓ نے مقدمہ جیت لیا تو انہوں نے یہ مکان بلاقیمت ہی مسجد کی توسیع کے لیے دے دیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تنازعہ دراصل مکان کی فروخت کا نہیں بلکہ ضد بازی اور امیر اور اس کی رعیت کے درمیان اپنے اپنے حقوق کی تحقیق سے تعلق رکھتا تھا۔ جب سیدنا عمر ؓ نے ابی بن کعب ؓ کو مکان فروخت کردینے پر مجبور کیا تو سیدنا ابی بن کعب ؓ جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ کسی چیز کا مالک اسے بیچنے یا نہ بیچنے کے مکمل اختیارات رکھتا ہے، تو وہ بھی احقاق حق کے لیے ڈٹ گئے اور ثالث نے فیصلہ بھی انہی کے حق میں دیا۔ سیاسی تنازعات اور ان کا حل :۔ تنازعات کی دوسری قسم وہ ہے جو دو گروہوں یا دو قوموں یا دو ملکوں کے درمیان ہوتے ہیں، جسے ہم سیاسی تنازعات کہہ سکتے ہیں اور ایسے تنازعات نے امت مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ آپ نے جو امت تشکیل فرمائی تھی اس میں حبشی، رومی، فارسی، عربی، گورے اور کالے مہاجر اور انصار سب بنیادی طور پر ہم مرتبہ تھے۔ اگر کسی کو تفوق اور فضیلت تھی تو محض تقویٰ کی بنا پر تھی اور یہی قرآن کی تعلیم تھی۔ لیکن آج اس وحدت پر سب سے زیادہ کاری ضرب قوم و وطن کے موجودہ نظریہ نے لگائی ہے۔ آپ نے اپنے معروف خطبہ حجتۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا کہ لوگو ! بیشک تمہارا پروردگار ایک ہے۔ تمہارا باپ ایک ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں۔ برتری صرف تقویٰ کی بنا پر ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ وطن اور علاقہ یا زبان کے اختلاف کی بنیاد پر قوموں کی جداگانہ تشکیل یورپ کی پیدا کردہ لعنت ہے۔ وطن پرستی، علاقہ پرستی۔ زبان پرستی اور رنگ پرستی ہی آج کے سب سے بڑے معبود ہیں جن کی خاطر لوگ آپس میں الجھتے اور کٹتے مرتے ہیں۔ انہی باتوں نے امت مسلمہ کو بیسیوں ممالک میں اور پھر ذیلی تقسیم میں تقسیم در تقسیم کے ذریعہ ذلیل و خوار کیا اور تباہی اور بربادی کے جہنم میں دھکیل دیا ہے اور اس جہنم سے نجات صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ کتاب و سنت کو حکم تسلیم کیا جائے اور اپنے آپ کو کتاب و سنت کی تعلیم کے سانچہ میں ڈھالا جائے۔ خ مذہبی تنازعات اور ان کا حل :۔ تنازعات اور اختلافات کی تیسری بڑی نوع فقہی اور مذہبی اختلافات ہیں۔ اور ہمارے علماء اور فقہاء بھی اولی الامرمنکم کے زمرہ میں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل چار فق ہیں یا چار مذاہب رائج ہیں جو اپنی اپنی فقہ کو سینہ سے چمٹائے ہوئے ہیں اور ان میں اس قدر تعصب پیدا ہوچکا ہے کہ ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر اور دوسروں کو غلط سمجھتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سب کا ایک ہے اور سنت بھی ایک ہے لیکن فقہ چار ہیں اور اگر شیعہ حضرات کی فقہ جعفریہ کو بھی شامل کرلیں تو پانچ ہیں۔ خ فقہ یا قیاس دین کی بنیاد نہیں ہے :۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی فقہ دین کی بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایک مخصوص فقہ پر اصرار کرنا واجب ہے نیز اس سے دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر پہلے سے پانچ فقہ موجود ہیں تو موجودہ زمانہ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اجتہاد کر کے اگر چھٹی فقہ بھی مرتب کرلی جائے تو اس میں کچھ ہرج نہیں ہے مگر برا ہو تعصب اور اندھی عقیدت کا جس نے تقلید شخصی جیسی قابل مذمت روایت کو جنم دیا۔ پھر صرف جنم ہی نہیں دیا بلکہ اسے واجب قرار دے دیا اور آئندہ کے لیے اجتہاد کے دروازہ کو بند کردیا گیا ایسے تنازعات کو ختم کرنے کا بھی واحد حل یہی ہے کہ ہر فقہ کے مسئلہ کو کتاب و سنت پر پیش کیا جائے اور تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جو اجتہادی مسئلہ کتاب و سنت کے مطابق یا زیادہ اقرب ہو اسے قبول کرلیا جائے باقی کو چھوڑ دیا جائے۔ خ ہر قسم کے نظاموں اور فرقوں کی بنیاد کوئی بدعی عقیدہ یا عمل ہوتا ہے :۔ واضح رہے کہ جتنے بھی مذہبی فرقے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی بدعی عقیدہ ضرور شامل ہوتا ہے اور جب تک کوئی بدعی عقیدہ شامل نہ ہو یا شامل نہ کیا جائے کوئی نیا فرقہ وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔ مثلاً چار مذاہب میں بدعی عقیدہ صرف اپنے اپنے امام کی تقلید، تقلید شخصی کا وجوب اور آئندہ کے لیے اجتہاد کے دروازہ کو تاقیامت بند رکھنا ہے۔ شیعہ حضرات کا سب سے بڑا بدعی عقیدہ بارہ اماموں کی تعیین اور انہیں معصوم عن الخطاء سمجھنا صرف انہی کے اقوال کو قبول کرنا ہے۔ نیچریوں کا بدعی عقیدہ خوارق عادات امور اور معجزات سے انکار ہے وغیرہ وغیرہ، یہی حال سیاسی نظاموں کا ہے۔ جمہوریت کا بدعی عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بجائے عوام کی بالادستی سمجھنا اور انہیں ہی طاقت کا سرچشمہ قرار دینا ہے۔ اشتراکیت کا بدعی عقیدہ انفرادی ملکیتوں کا غصب اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے انکار ہے۔ غرضیکہ جتنے بھی فرقے ہیں، خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی، ان کا کوئی نہ کوئی عقیدہ یا عمل ضرور کتاب و سنت کے خلاف ہوگا۔ خ عام تنازعات :۔ تنازعات کی چوتھی قسم ذاتی اور انفرادی معاملات کے جھگڑے ہیں اور ان کے علاوہ اور بھی تنازعات کی کئی اقسام ہوسکتی ہیں۔ خواہ ان کا تعلق اولی الامر سے ہو یا نہ ہو، جیسے بھی تنازعات ہوں ان سب کا واحد حل یہی ہے کہ انہیں کتاب و سنت پر پیش کیا جائے اور اپنے اعتقادات اور تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں بسر و چشم قبول کر کے ان کی تعمیل کی جائے۔
Top