Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 59
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠ ۧ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْٓا
: ایمان لائے (ایمان والے)
اَطِيْعُوا
: اطاعت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَاَطِيْعُوا
: اور اطاعت کرو
الرَّسُوْلَ
: رسول
وَاُولِي الْاَمْرِ
: صاحب حکومت
مِنْكُمْ
: تم میں سے
فَاِنْ
: پھر اگر
تَنَازَعْتُمْ
: تم جھگڑ پڑو
فِيْ شَيْءٍ
: کسی بات میں
فَرُدُّوْهُ
: تو اس کو رجوع کرو
اِلَى اللّٰهِ
: اللہ کی طرف
وَالرَّسُوْلِ
: اور رسول
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ
: تم ایمان رکھتے ہو
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ
: اور روز
الْاٰخِرِ
: آخرت
ذٰلِكَ
: یہ
خَيْرٌ
: بہتر
وَّاَحْسَنُ
: اور بہت اچھا
تَاْوِيْلًا
: انجام
اے ایمان والو ! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہوجائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو ۔
91
یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے
91
اسلامی حکومت کے چار اصول :۔ اس آیت میں ایک اسلامی حکومت کی چار مستقل بنیادوں کا ذکر کیا گیا ہے :
1
۔ اسلامی نظام میں اصل مطاع صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی کائنات کا خالق ومالک ہے لہذا ہر طرح کے قانونی اور سیاسی اختیارات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ آج کی زبان میں یوں کہیے کہ قانونی اور سیاسی مقتدر اعلیٰ صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ قانون سازی اور حلت و حرمت اور اوامرو نواہی کے اختیارات اسی کے لیے ہیں۔ اس وقت دنیا میں جس قدر نظام ہائے سیاست رائج ہیں ان سب میں مقتدر اعلیٰ یا کوئی انسان ہوتا ہے یا ادارہ۔ جبکہ اسلامی نظام خلافت میں مقتدر اعلیٰ کوئی انسان یا ادارہ نہیں ہوسکتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور یہی اصل اس نظام سیاست کو دوسرے تمام نظام ہائے سیاست سے ممتاز کرتی ہے۔ خ جمہوریت خلافت کی ضد ہے :۔ آج کل بیشتر ممالک میں خواہ وہ مسلم ملک ہوں یا غیر مسلم۔ جمہوری نظام سیاست ہی رائج ہے۔ جمہوری نظام سیاست میں سیاسی مقتدر اعلیٰ تو عوام ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں اور قانونی مقتدر اعلیٰ پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کے جملہ اور وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں جنہیں چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور عدالتوں کا کام محض یہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کریں۔ اس لحاظ سے یہ نظام مردود اور نظام خلافت کی عین ضد ہے۔
2
۔ رسول کی اطاعت اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس اللہ کے احکام کی اس کی منشاء کے مطابق بجاآوری کا رسول کی اطاعت کے بغیر کوئی ذریعہ نہیں۔ لہذا رسول کی اطاعت بھی حقیقتاً اللہ ہی کی اطاعت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اللہ کی اور رسول کی اطاعت ایک ہی اطاعت قرار پاتی ہے۔ علاوہ ازیں رسول کی اطاعت کی ایک مستقل حیثیت بھی ہوتی ہے۔ وہ یوں کہ جہاں کتاب اللہ خاموش ہو اور رسول ہمیں کوئی حکم دے۔ خواہ یہ حکم قانون سے تعلق رکھتا ہو یعنی حلت و حرمت سے متعلق ہو یا اوامرو نواہی سے تو ایسا حکم ماننا بھی ہم پر ایسے ہی فرض ہے جیسے اللہ کی اطاعت اور چونکہ ایسی اطاعت کا بھی اللہ نے خود ہمیں حکم دیا ہے تو اس لحاظ سے یہ بھی اللہ کی اطاعت کے تحت آجاتی ہے۔
3
۔ تیسری اطاعت ان حکام کی ہے جو مسلمان ہوں۔ حکام (اولی الامر) سے مراد وہ ہر قسم کے حکام ہیں جو کسی ذمہ دارانہ منصب پر فائز ہوں۔ یہ انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہوں یا عدلیہ سے یا علماء مجتہدین سے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تو غیر مشروط ہوتی ہے لیکن اولی الامر کی اطاعت صرف اس صورت میں ہوگی جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے خلاف نہ ہو۔ اگر خلاف ہو تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔
4
۔ اور چوتھی بنیاد یہ ہے کہ اگر کسی حاکم کے اور رعایا کے درمیان کسی معاملہ میں نزاع پیدا ہوجائے، تو ایسا معاملہ (آپ کی زندگی میں) آپ کی طرف اور (آپ کی زندگی کے بعد) کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اور حَکَم کی حیثیت کتاب و سنت کی ہوگی۔ اور آخر میں یہ بتادیا گیا کہ اگر تم نے ان چار اصولوں میں سے کسی بھی اصول میں کوتاہی کی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہارا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ اور اگر تمہارا اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعویٰ سچا ہے تو تمہیں بہرحال ان چار اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا اور جب تک تم نے ان چاروں امور کا خیال رکھا اس وقت تک تمہارے اخلاق و کردار درست اور تمہاری حکومت مستحکم رہے گی۔ امیر یا حاکم کی اطاعت کس قدر ضروری ہے اور کن حالات میں ضروری ہے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :
1
۔ اطاعت امیر کی اہمیت اور حدود :۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء۔۔ بخاری، کتاب الاحکام۔ باب قولہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول۔۔ )
2
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ہر شخص پر امیر کا حکم سننا اور اسے ماننا فرض ہے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند، جب تک کہ اسے گناہ کا حکم نہ دیا جائے اور اگر اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر نہ ایسے حکم کو سننا لازم ہے اور نہ اس کی اطاعت (بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ)
3
۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص امیر کی اطاعت اور جماعت سے الگ ہوا، پھر اسی حال میں مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جو شخص کسی اندھے (جھنڈے) کے تحت لڑائی کرے اور تعصب کے لیے جوش دلائے یا تعصب کی طرف بلائے اور تعصب کے لیے مدد کرے پھر مارا جائے تو وہ بھی جاہلیت کی موت مرا۔ (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب ملازمۃ المسلمین)
4
۔ سیدنا حارث ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے۔ (امیر کا حکم) سننا اور اطاعت کرنا، جہاد کرنا، ہجرت کرنا اور جماعت (سے چمٹے رہنا) کیونکہ جو شخص بالشت بھر بھی جماعت سے الگ ہوا اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے اتار پھینکا۔ الا یہ کہ وہ واپس لوٹ آئے۔ (ترمذی ابو اب الامثال)
5
۔ امیر سے تنازعہ :۔ سیدنا علی ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے ایک لشکر روا نہ کیا اور اس کا امیر ایک انصاری (عبداللہ بن حذافہ) کو مقرر کیا اور لشکر کو ان کی اطاعت کا حکم دیا۔ وہ امیر ان سے کسی بات پر خفا ہوگیا اور ان سے پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ؟ امیر نے کہا اچھا تو ایندھن جمع کرو اور آگ جلاؤ اور اس میں داخل ہوجاؤ۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی اور جب داخل ہونے کا ارادہ کیا تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ کسی نے کہا ہم نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہی اس لیے کی ہے کہ آگ سے بچ جائیں، تو کیا ہم آگ میں داخل ہوں ؟ اتنے میں آگ بجھ گئی اور امیر کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا۔ اس بات کا ذکر آپ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا اگر تم آگ میں داخل ہوجاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے۔ اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے۔ اور مسلم کی روایت کے مطابق آپ نے فرمایا اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہے۔ (بخاری، کتاب الاحکام۔ باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ۔۔ مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ)
6
۔ آپ نے فرمایا عنقریب فتنے فساد ہوں گے تو جو اس امت کے معاملہ میں تفرقہ ڈالے جبکہ وہ متحدہ ہو۔۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جماعت کا کسی ایک شخص پر اتحاد و اتفاق ہو اور وہ شخص تمہاری جمعیت میں پھوٹ ڈالنا چاہے تو اس کی گردن اڑا دو ۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب من فرق امر المومنین و ہو مجتمع) یہ تو اطاعت امیر سے متعلقہ احکام تھے۔ اب امیر سے تنازعہ کا مسئلہ یوں ہے کہ سیدنا عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ کیا تو سیدنا ابی بن کعب ؓ کا مکان اس میں رکاوٹ تھی۔ سیدنا عمر ؓ نے ابی بن کعب ؓ سے کہا بلکہ انہیں مجبور کیا کہ وہ جائز قیمت لے کر مکان دے دیں لیکن ابی بن کعب ؓ مکان کو فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ تنازعہ بڑھ گیا تو فریقین نے جن میں مدعی حکومت وقت یا امیر المومنین سیدنا عمر ؓ تھے اور مدعا علیہ سیدنا ابی بن کعبص، سیدنا زید بن ثابت ؓ کو اپنا ثالث (یا عدالت) بنانا منظور کرلیا۔ تنقیح طلب معاملہ یہ تھا کہ اسلام انفرادی ملکیت کو کس قدر تحفظ دیتا ہے اور آیا اجتماعی مفاد کی خاطر انفرادی مفادات کو قربان کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ چناچہ کتاب و سنت کی رو سے سیدنا زید بن ثابت ؓ نے اس مقدمہ کا فیصلہ سیدنا عمر ؓ کے خلاف دے دیا۔ جب سیدنا ابی بن کعب ؓ نے مقدمہ جیت لیا تو انہوں نے یہ مکان بلاقیمت ہی مسجد کی توسیع کے لیے دے دیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تنازعہ دراصل مکان کی فروخت کا نہیں بلکہ ضد بازی اور امیر اور اس کی رعیت کے درمیان اپنے اپنے حقوق کی تحقیق سے تعلق رکھتا تھا۔ جب سیدنا عمر ؓ نے ابی بن کعب ؓ کو مکان فروخت کردینے پر مجبور کیا تو سیدنا ابی بن کعب ؓ جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ کسی چیز کا مالک اسے بیچنے یا نہ بیچنے کے مکمل اختیارات رکھتا ہے، تو وہ بھی احقاق حق کے لیے ڈٹ گئے اور ثالث نے فیصلہ بھی انہی کے حق میں دیا۔ سیاسی تنازعات اور ان کا حل :۔ تنازعات کی دوسری قسم وہ ہے جو دو گروہوں یا دو قوموں یا دو ملکوں کے درمیان ہوتے ہیں، جسے ہم سیاسی تنازعات کہہ سکتے ہیں اور ایسے تنازعات نے امت مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ آپ نے جو امت تشکیل فرمائی تھی اس میں حبشی، رومی، فارسی، عربی، گورے اور کالے مہاجر اور انصار سب بنیادی طور پر ہم مرتبہ تھے۔ اگر کسی کو تفوق اور فضیلت تھی تو محض تقویٰ کی بنا پر تھی اور یہی قرآن کی تعلیم تھی۔ لیکن آج اس وحدت پر سب سے زیادہ کاری ضرب قوم و وطن کے موجودہ نظریہ نے لگائی ہے۔ آپ نے اپنے معروف خطبہ حجتۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا کہ لوگو ! بیشک تمہارا پروردگار ایک ہے۔ تمہارا باپ ایک ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں۔ برتری صرف تقویٰ کی بنا پر ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ وطن اور علاقہ یا زبان کے اختلاف کی بنیاد پر قوموں کی جداگانہ تشکیل یورپ کی پیدا کردہ لعنت ہے۔ وطن پرستی، علاقہ پرستی۔ زبان پرستی اور رنگ پرستی ہی آج کے سب سے بڑے معبود ہیں جن کی خاطر لوگ آپس میں الجھتے اور کٹتے مرتے ہیں۔ انہی باتوں نے امت مسلمہ کو بیسیوں ممالک میں اور پھر ذیلی تقسیم میں تقسیم در تقسیم کے ذریعہ ذلیل و خوار کیا اور تباہی اور بربادی کے جہنم میں دھکیل دیا ہے اور اس جہنم سے نجات صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ کتاب و سنت کو حکم تسلیم کیا جائے اور اپنے آپ کو کتاب و سنت کی تعلیم کے سانچہ میں ڈھالا جائے۔ خ مذہبی تنازعات اور ان کا حل :۔ تنازعات اور اختلافات کی تیسری بڑی نوع فقہی اور مذہبی اختلافات ہیں۔ اور ہمارے علماء اور فقہاء بھی اولی الامرمنکم کے زمرہ میں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل چار فق ہیں یا چار مذاہب رائج ہیں جو اپنی اپنی فقہ کو سینہ سے چمٹائے ہوئے ہیں اور ان میں اس قدر تعصب پیدا ہوچکا ہے کہ ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر اور دوسروں کو غلط سمجھتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سب کا ایک ہے اور سنت بھی ایک ہے لیکن فقہ چار ہیں اور اگر شیعہ حضرات کی فقہ جعفریہ کو بھی شامل کرلیں تو پانچ ہیں۔ خ فقہ یا قیاس دین کی بنیاد نہیں ہے :۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی فقہ دین کی بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایک مخصوص فقہ پر اصرار کرنا واجب ہے نیز اس سے دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر پہلے سے پانچ فقہ موجود ہیں تو موجودہ زمانہ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اجتہاد کر کے اگر چھٹی فقہ بھی مرتب کرلی جائے تو اس میں کچھ ہرج نہیں ہے مگر برا ہو تعصب اور اندھی عقیدت کا جس نے تقلید شخصی جیسی قابل مذمت روایت کو جنم دیا۔ پھر صرف جنم ہی نہیں دیا بلکہ اسے واجب قرار دے دیا اور آئندہ کے لیے اجتہاد کے دروازہ کو بند کردیا گیا ایسے تنازعات کو ختم کرنے کا بھی واحد حل یہی ہے کہ ہر فقہ کے مسئلہ کو کتاب و سنت پر پیش کیا جائے اور تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جو اجتہادی مسئلہ کتاب و سنت کے مطابق یا زیادہ اقرب ہو اسے قبول کرلیا جائے باقی کو چھوڑ دیا جائے۔ خ ہر قسم کے نظاموں اور فرقوں کی بنیاد کوئی بدعی عقیدہ یا عمل ہوتا ہے :۔ واضح رہے کہ جتنے بھی مذہبی فرقے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی بدعی عقیدہ ضرور شامل ہوتا ہے اور جب تک کوئی بدعی عقیدہ شامل نہ ہو یا شامل نہ کیا جائے کوئی نیا فرقہ وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔ مثلاً چار مذاہب میں بدعی عقیدہ صرف اپنے اپنے امام کی تقلید، تقلید شخصی کا وجوب اور آئندہ کے لیے اجتہاد کے دروازہ کو تاقیامت بند رکھنا ہے۔ شیعہ حضرات کا سب سے بڑا بدعی عقیدہ بارہ اماموں کی تعیین اور انہیں معصوم عن الخطاء سمجھنا صرف انہی کے اقوال کو قبول کرنا ہے۔ نیچریوں کا بدعی عقیدہ خوارق عادات امور اور معجزات سے انکار ہے وغیرہ وغیرہ، یہی حال سیاسی نظاموں کا ہے۔ جمہوریت کا بدعی عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بجائے عوام کی بالادستی سمجھنا اور انہیں ہی طاقت کا سرچشمہ قرار دینا ہے۔ اشتراکیت کا بدعی عقیدہ انفرادی ملکیتوں کا غصب اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے انکار ہے۔ غرضیکہ جتنے بھی فرقے ہیں، خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی، ان کا کوئی نہ کوئی عقیدہ یا عمل ضرور کتاب و سنت کے خلاف ہوگا۔ خ عام تنازعات :۔ تنازعات کی چوتھی قسم ذاتی اور انفرادی معاملات کے جھگڑے ہیں اور ان کے علاوہ اور بھی تنازعات کی کئی اقسام ہوسکتی ہیں۔ خواہ ان کا تعلق اولی الامر سے ہو یا نہ ہو، جیسے بھی تنازعات ہوں ان سب کا واحد حل یہی ہے کہ انہیں کتاب و سنت پر پیش کیا جائے اور اپنے اعتقادات اور تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں بسر و چشم قبول کر کے ان کی تعمیل کی جائے۔
Top