Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 77
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَیْدِیَكُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَةً١ۚ وَ قَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ١ۚ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍ١ؕ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ١ۚ وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى١۫ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلَى
: طرف
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
قِيْلَ
: کہا گیا
لَھُمْ
: ان کو
كُفُّوْٓا
: روک لو
اَيْدِيَكُمْ
: اپنے ہاتھ
وَاَقِيْمُوا
: اور قائم کرو
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاٰتُوا
: اور ادا کرو
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
فَلَمَّا
: پھر جب
كُتِبَ عَلَيْهِمُ
: ان پر فرض ہوا
الْقِتَالُ
: لڑنا (جہاد)
اِذَا
: ناگہاں (تو)
فَرِيْقٌ
: ایک فریق
مِّنْھُمْ
: ان میں سے
يَخْشَوْنَ
: ڈرتے ہیں
النَّاسَ
: لوگ
كَخَشْيَةِ
: جیسے ڈر
اللّٰهِ
: اللہ
اَوْ
: یا
اَشَدَّ
: زیادہ
خَشْيَةً
: ڈر
وَقَالُوْا
: اور وہ کہتے ہیں
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
لِمَ كَتَبْتَ
: تونے کیوں لکھا
عَلَيْنَا
: ہم پر
الْقِتَالَ
: لڑنا (جہاد)
لَوْ
: کیوں
لَآ اَخَّرْتَنَآ
: نہ ہمیں ڈھیل دی
اِلٰٓى
: تک
اَجَلٍ
: مدت
قَرِيْبٍ
: تھوڑی
قُلْ
: کہ دیں
مَتَاعُ
: فائدہ
الدُّنْيَا
: دنیا
قَلِيْلٌ
: تھوڑا
وَالْاٰخِرَةُ
: اور آخرت
خَيْرٌ
: بہتر
لِّمَنِ اتَّقٰى
: پرہیزگار کے لیے
وَ
: اور
لَا تُظْلَمُوْنَ
: نہ تم پر ظلم ہوگا
فَتِيْلًا
: دھاگے برابر
کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر غور نہیں کیا جنہیں کہا گیا تھا کہ (ابھی جنگ سے) ہاتھ روکے رکھو اور (ابھی صرف) نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔
106
پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے کچھ لوگ، لوگوں سے یوں ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرنا چاہئے۔ یا اس سے بھی زیادہ۔ اور کہنے لگے : اے ہمارے رب ! تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی، ہمیں مزید کچھ عرصہ کے لیے کیوں مہلت
107
نہ دی ؟ آپ ان سے کہئے کہ : دنیا کا آرام تو چند روزہ ہے اور ایک پرہیزگار کے لیے آخرت ہی بہتر ہے اور ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا
106
مکہ میں جہاد پر بندش :۔ مکہ میں مسلمانوں پر قریش مکہ نے جو ظلم و ستم ڈھائے تھے ان کا نشانہ صرف غلام مسلمان ہی نہ تھے، بلکہ آزاد اور معزز قسم کے مسلمانوں کا بھی ان لوگوں نے طرح طرح سے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ حتیٰ کہ خود رسول اللہ ﷺ کو ان لوگوں کے ہاتھوں متعدد بار ایذائیں پہنچیں۔ اس وقت بعض جرأت مند مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ سے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی اجازت چاہی، تو آپ نے فرمایا کہ ابھی مجھے جنگ کی اجازت نہیں دی گئی۔ لہذا تم بھی ان مصائب کو صبر سے برداشت کیے جاؤ اور اپنی تمام تر توجہ نماز کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر صرف کرو۔ چناچہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ جو السابقون الاولون میں سے تھے انہی لوگوں میں سے تھے جو جنگ کی اجازت چاہ رہے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے : سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ اور ان کے ساتھی مکہ میں نبی اکرم کے پاس آئے اور کہا اللہ کے رسول ! ہم عزت والے تھے جبکہ ہم مشرک تھے پھر جب ایمان لائے تو ذلیل ہوگئے آپ نے فرمایا ( ابھی) مجھے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہذا جنگ نہ کرو۔ پھر جب اللہ نے ہمیں مدینہ منتقل کردیا تو ہمیں جنگ کا حکم دیا گیا اور بعض لوگ جنگ سے رک گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (نسائی۔ کتاب الجہاد، باب وجوب الجہاد) یہاں چند امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ سورة نساء مدنی دور میں غزوہ احد اور غزوہ احزاب کے درمیانی عرصہ میں نازل ہوئی تھی اور اس آیت کے الفاظ (قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ
77
)
4
۔ النسآء :
77
) سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مکی دور میں مسلمانوں کو ہاتھ اٹھانے سے روک دیا گیا تھا۔ حالانکہ قرآن کی مکی سورتوں میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ اب دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی خفی کوئی ایسا حکم ملا ہو جس کی بعد میں مدنی دور میں اس آیت کے ذریعہ توثیق کردی گئی۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ یہ آپ کا ذاتی اجتہاد ہو کہ اس انقلابی تحریک کے آغاز میں مسلمانوں کو قطعاً ہاتھ نہ اٹھانا چاہئے۔ آپ کے اس اجتہاد پر چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نکیر وارد نہیں ہوئی لہذا یہ اجتہاد وحی تقریری کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ وحی تمام تر قرآن میں محصور ہے اور وحی خفی یا وحی تقریری کی کچھ حیثیت نہیں سمجھتے۔ اور دوسرے یہ بھی کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشادات بھی ویسے ہی واجب الاتباع ہیں جیسے قرآن کے احکام۔ مکی دور میں ہاتھ نہ اٹھانے یا عدم تشدد کے فوائد :۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس تیرہ سالہ طویل دور میں، جبکہ مسلمانوں پر کفار انتہائی شدید قسم کے مظالم ڈھا رہے تھے مسلمانوں کو ہاتھ اٹھانے یا مدافعت کرنے سے کیوں روک دیا گیا تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام ایک انقلابی تحریک ہے۔ عرب کے تمام تر معاشرتی، سیاسی اور تمدنی نظام کی بنیاد بت پرستی پر قائم تھی۔ اور اسلام نے اسی بت پرستی کے خلاف ہی سب سے پہلے آواز بلند کی۔ تو اس باطل نظام میں جو لوگ معاشی، تمدنی یا سیاسی فائدے اٹھا رہے تھے وہ سب اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بن گئے۔ اور ان پر سختیاں شروع کردیں۔ اس مرحلہ پر مسلمانوں کو تاکیدی حکم یہ دیا گیا کہ اپنی مدافعت میں ہاتھ تک نہ اٹھائیں بلکہ جیسے بھی ظلم و ستم ان پر ہو رہے ہیں وہ برداشت کرتے جائیں۔ اس عدم تشدد کے حکم یا پالیسی سے تین قسم کے فوائد حاصل ہوئے۔ پہلا یہ کہ اگر مسلمان اس مرحلہ پر مقابلہ شروع کردیتے تو مشرکین کو جو قوت، قدرت میں مسلمانوں سے بدرجہا بڑھ کر تھے اس تحریک کو شدت کے ساتھ کچل دینے کا اخلاقی جواز ہاتھ آجاتا۔ اس عدم تشدد کی پالیسی کی وجہ سے تبلیغ کا کام جاری رہا اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو مصائب برداشت کرنے اور قائد تحریک نبی اکرم کا ہر حال میں حکم ماننے کی تربیت دی جارہی تھی۔ اور تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ غیر جانبدار قسم کے لوگوں کی خاموش اکثریت کی ہمدردیاں مسلمانوں سے وابستہ ہوگئیں۔ کیونکہ ہر انسان ناروا ظلم سے طبعاً نفرت کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھبرائے ہوئے گھر آئے تو سیدہ خدیجہ آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے ہاں لے گئیں جنہوں نے تمام ماجرا سن کر کہا : کاش ! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی ورقہ کی یہ بات سن کر آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جو قوم آج تک مجھے اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتی ہے وہ کل کو مجھے مکہ سے نکال دے گی ؟ چناچہ آپ نے نہایت تعجب سے ورقہ سے یہی سوال کیا تو اس نے کہا کہ جو نبی بھی ایسی دعوت لے کر آیا، اس کی قوم نے اس سے ایسا ہی سلوک کیا، (بخاری۔ کتاب الوحی) ورقہ کی اس اطلاع کا آپ پر یہ اثر ہوا کہ آپ نے اپنی دعوت کو ناکامی سے بچانے کی خاطر اپنی دعوت کا آغاز نہایت خفیہ طریق سے اور اپنے گھر سے کیا اور گھر کے درج ذیل افراد فوراً آپ پر ایمان لے آئے : (
1
) آغازوحی کے وقت اسلام لانے والے :۔ آپ کی جان نثار بیوی سیدہ خدیجۃ جن کی عمر اس وقت
55
سال تھی۔ (
2
) آپ کے غلام زید بن حارثہ جو فی الحقیقت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کے غلام تھے۔ لیکن انہوں نے اسے آپ کو دے دیا تھا۔ (
3
) سیدنا علی ؓ بن ابی طالب جو آپ کے چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔ آپ کے زیر کفالت اور آپ ہی کے گھر میں رہتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر ایک روایت کے مطابق
8
سال اور دوسری کے مطابق
10
سال تھی۔ بہرحال اس وقت وہ ایسا شعور ضرور رکھتے تھے۔ آپ کی اولاد میں سے ایسا کوئی بھی نہ تھا جو اس وقت آپ پر ایمان لاتا۔ آپ کی پہلونٹی کی بیٹی سیدہ زینب ؓ تھیں جن کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوچکا تھا۔ سیدہ زینب تو بعد میں جلد ہی ایمان لے آئیں مگر ابو العاص فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تاہم ابو العاص کے سیدہ زینب اور رسول اللہ ﷺ سے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے اور اپنے داماد سے خوش رہے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب ذکر اصہار النبی) دوسرے نمبر پر آپ کے بیٹے سیدنا قاسم تھے۔ اسی نام کی بنا پر آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ یہ بعثت سے پہلے وفات پاچکے تھے۔ تیسرے نمبر پر آپ کی بیٹی رقیہ تھیں۔ بعثت نبوی کے وقت ان کی عمر صرف چھ سات برس تھی۔ بعد میں ان کا نکاح سیدنا عثمان ؓ سے ہوا اور جس دن مسلمانوں کو مدینہ میں فتح بدر کی خوشخبری ملی اسی دن آپ نے وفات پائی۔ چوتھے نمبر پر ام کلثوم تھیں۔ سیدہ رقیہ کی وفات کے بعد ان کا سیدنا عثمان ؓ سے نکاح ہوا۔ پانچویں نمبر پر آپ کے بیٹے عبداللہ تھے جنہیں طیب اور طاہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سن بلوغ کو پہنچنے سے قبل ہی فوت ہوگئے۔ چھٹے نمبر پر آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی سیدہ فاطمہ تھیں جن کی عمر اس وقت صرف ایک سال تھی۔ پندرہ برس کی عمر میں آپ کا سیدنا علی ؓ سے نکاح ہوا اور رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت آپ کی اولاد میں سے صرف یہی زندہ تھیں۔ چھ ماہ بعد یہ بھی فوت ہوگئیں۔ گھر کے باہر کے لوگوں میں سے سب سے پہلے سیدنا ابوبکر ؓ ایمان لائے۔ آپ ماہر انساب، صاحب الرائے، دولت مند اور فیاض انسان تھے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے دلی دوست، آپ کے اخلاق سے متاثر اور بعثت نبوی سے پہلے ہی شرکیہ اعمال و عقائد سے متنفر تھے۔ مکہ میں آپ کا خاصا اثر و رسوخ تھا۔ آپ ہی کی درپردہ کوششوں سے سیدنا عثمان بن عفان ؓ عبدالرحمن بن عوف ؓ ، سعد بن ابی وقاص ؓ زبیر بن العوام ؓ اور طلحہ ؓ ایمان لائے۔ پھر ان سب حضرات کی مشترکہ کوششوں اور رازدارانہ تبلیغ سے درج ذیل حضرات ایمان لائے : سیدنا عمار بن یاسر ؓ ۔ پھر ان کی تبلیغ سے ان کے والد یاسر ؓ اور والدہ سمیہ ؓ بھی اسلام لے آئے یہ لوگ ابو جہل کے قبیلہ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ سیدنا بلال بن رباح ؓ جو امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ جنہیں رسول اللہ ﷺ کی سفارش پر سیدنا ابوبکر ؓ نے خرید کر آزاد کردیا۔ سیدنا خباب ؓ بن ارت، سیدنا ارقم، سیدنا سعید ؓ بن زید (سیدنا عمر ؓ کے بہنوئی) عبداللہ بن مسعود ؓ ، عثمان بن مظعون ؓ ، ابو عبیدہ بن جراح ؓ ، صہیب رومی ؓ ہیں۔ خفیہ تبلیغ کے تین سال :۔ ابتدائی تین سال تبلیغ یونہی سینہ بہ سینہ ہوتی رہی حتیٰ کہ مسلمانوں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ یہ اصحاب عبادت بھی چھپ چھپا کر کرتے تھے اور دارارقم کو مرکز بنا لیا گیا تھا۔ اسی دور میں قائد تحریک حضور اکرم کو کفار نے اپنی طنز، تشنیع اور تضحیک کا نشانہ بنایا تھا۔ کبھی وہ آپ کو کاہن کہتے، کبھی شاعر، کبھی دیوانہ، کبھی اللہ کی آیات کا تمسخر اڑاتے اور کبھی آنکھوں ہی آنکھوں میں آپ کو مرعوب بنا کر آپ کے عزم اور ہمت کو شکست دینا چاہتے تھے۔ اس دور میں مشرکین مکہ کا مسلمانوں پر دباؤ کتنا تھا اور کسی کا اسلام لانا کس قدر کٹھن اور جان جوکھوں کا کام تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جسے سیدنا ابو ذرغفاری ؓ نے اپنے اسلام لانے سے متعلق خود بیان کیا ہے اور جسے ہم نے صحیح بخاری سے سورة انفال کے حاشیہ نمبر
26
میں درج کیا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ سیدنا عمرو بن عبسہ ؓ نے بھی انہی ایام میں اسلام قبول کیا تھا۔ عمرو ایام جاہلیت میں ہی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تمام لوگ مشرک اور گمراہ ہیں۔ جب انہوں نے سنا کہ مکہ میں ایک شخص آسمانی خبریں بیان کرتا ہے تو فوراً سوار ہو کر آپ کی خدمت میں پہنچے اور فوراً اسلام لے آئے۔ آپ نے انہیں ضروری احکام کی تعلیم دی اور مشورہ دیا کہ فی الحال اپنے وطن واپس چلے جاؤ اور جب تم سنو کہ اسلام کو غلبہ ہوگیا ہے تو پھر تم میرے پاس چلے آنا۔ (مسلم۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب الاسلام عمرو بن عبسہ) اور یہ وہی مشورہ تھا جو اس سے پہلے آپ نے سیدنا ابوذر غفاری ؓ کو بھی دیا تھا اور یہ مشورہ آپ ان نو مسلموں سے ہمدردی کی خاطر دیتے تھے مکہ میں تو یہ حال تھا کہ جس شخص کے متعلق پتہ چل جاتا کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، اس کی شامت آجاتی تھی۔ پھر ان سب مسلمانوں کو جتنا دکھ پہنچتا تھا، اکیلے رسول اللہ ﷺ کو بھی اتنا دکھ پہنچ جاتا تھا۔ کیونکہ آپ رحمۃ للعالمین تھے اور دردمند دل رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں معاشی مسئلہ بھی پیدا ہوجاتا تھا جس کے حل کرنے پر اس وقت مسلمان کچھ قدرت نہ رکھتے تھے۔ نبوت کے پہلے تین سال تبلیغ کا یہی انداز رہا پھر جب ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ
214
ۙ )
26
۔ الشعراء :
214
) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ کا فرمان باری نازل ہوا تو آپ نے یکے بعد دیگرے تین بار اپنے قبیلہ والوں کو اکٹھا کیا اور ان پر اسلام پیش کیا۔ مگر ہر بار ابو لہب ہی آڑے آتا اور مخالفت میں پیش پیش رہتا تھا جس کا تفصیلی ذکر اسی مندرجہ آیت کے تحت اور سورة لہب میں آئے گا اس کے بعد اب پہلا سا خفیہ طریقہ تبلیغ نہ رہا اور مشرکین کو کسی نہ کسی حد تک یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ کون کون شخص اسلام لا چکا ہے۔ لہذا انہوں نے اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو سختی سے کچل ڈالنے کے مشن کو پہلے سے تیز تر کردیا۔ جو منصوبے پیغمبر اسلام کو ختم کرنے کے لئے بنائے گئے اور سازشیں کی گئیں ان کا ذکر تو (وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
67
)
5
۔ المآئدہ :
67
) کے تحت سورة مائدہ کے حاشیہ نمبر
113
میں آئے گا۔ یہاں ہم صرف ان مظالم کا اجمالاً ذکر کریں گے جو اس دور میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے۔ عرب معاشرہ میں غلاموں کا طبقہ بھی معاشرہ کا ایک معتدبہ حصہ تھا۔ جنہیں انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ مالک اپنے غلام پر جتنا بھی ظلم روا رکھے، حتیٰ کہ جان سے بھی مار ڈالے تو اسے کوئی پوچھنے والا نہ تھا بلکہ آزاد معاشرہ کو اسی کی تائید و حمایت حاصل تھی اور غلاموں میں اپنے مالک کے سامنے نہ چوں و چرا کرنے کی ہمت تھی اور نہ بھاگ جانے کی۔ لہذا زیادہ تشدد کا یہی طبقہ شکار ہوا۔ ابو جہل کے آل یاسر پر مظالم :۔ ابو جہل کا مسلمانوں پر جبر و ستم ڈھانے کا طریقہ کار یہ تھا کہ اگر اسلام لانے والا کوئی آزاد، معزز اور طاقتور آدمی ہوتا تو اسے برا بھلا کہنے، ذلیل و رسوا کرنے اور اس کے مال و جاہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا اور عرب کے قبائلی نظام میں وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہ سکتا تھا۔ اور اگر اسلام لانے والا کوئی غلام یا کمزور آدمی ہوتا تو اسے خود بھی مارتا اور دوسروں کو بھی ایذا رسانی پر اکساتا رہتا۔ اور اس معاملہ میں نہایت سنگدل واقع ہوا تھا۔ آل یاسر یعنی سیدنا عمار ؓ ، ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ اسلام لاچکے تھے۔ یہ قبیلہ بنومخزوم (یعنی ابو جہل کے اپنے قبیلے کے) غلام تھے۔ ان پر ابو جہل نے خوب مشق ظلم و ستم کی اور اس قدر مظالم ڈھائے کہ یاسر ان کی تاب نہ لا کر راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کی بیوی سمیہ کو اس بدبخت نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر ہلاک کردیا۔ اسلام میں یہ پہلی شہیدہ ہیں جو اس بیدردی اور بےرحمی سے شہید کی گئیں۔ رہے عمار ؓ خود تو انہیں کبھی کڑکتی دوپہر میں پتھریلی زمین پر ننگا لٹا کر اوپر سرخ اور وزنی پتھر رکھ دیا جاتا اور کبھی پانی میں غوطے دیئے جاتے۔ ایک دفعہ آپ کو ننگے بدن دوپہر کو پتھریلی زمین پر لٹا کر اذیتیں دی جارہی تھیں کہ ادھر سے رسول اللہ ﷺ کا گزر ہوا۔ وہ ہستی جو سارے جہان کے لئے رحمت بن کر مبعوث ہوئی تھی، یہ نظارہ دیکھ کر آپ کے دل پر جو بیتی ہوگی وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ صبر و استقامت کے عظیم پیکر بھی تھے۔ پھر بھی آپ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور انہیں دلاسا دیتے ہوئے فرمایا : (اصبروا ال یاسر فان موعد کم الجنۃ) آل یاسر ! صبر پر قائم رہنا، تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے امیہ بن خلف کے سیدنا بلال ؓ پر مظالم : سیدنا بلال بن رباح ؓ (حبشی) امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ امیہ سیدنا بلال ؓ کے گلے میں رسی ڈال کر انہیں گلی محلے کے اوباش لڑکوں کے حوالے کردیتا اور وہ انہیں مکہ کے پہاڑوں کی وادیوں میں گھسیٹتے پھرتے جس سے بدن زخمی ہوجاتا اور گلے میں رسی کا نشان پڑجاتا۔ خود امیہ انہیں رسی سے باندھ کر ڈنڈے مارا کرتا۔ کبھی چلچلاتی دھوپ میں بٹھائے رکھتا اور کھانے پینے کو کچھ نہ دیتا اور سینہ پر بھاری پتھر رکھ دیتا۔ پھر کہتا : اللہ کی قسم ! تو اسی طرح پڑا رہے گا تاآنکہ تو مرجائے یا پھر محمد ﷺ کے ساتھ کفر کرے۔ لیکن ایمان کا مزا بھی کچھ عجیب ہی قسم کا ہوتا ہے۔ آپ ؓ یہ سب تکلیفیں برداشت کرتے مگر زبان سے احد احد ہی پکارتے تھے۔ (سیرۃ النبی ج
1
ص
232
) ایک دن آپ ؓ کو ایسی ہی اذیتیں دی جارہی تھیں کہ ادھر سے رسول اللہ ﷺ کا گزر ہوا۔ آپ سیدنا بلال ؓ پر یہ ظلم برداشت نہ کرسکے۔ لہذا سیدنا ابوبکر ؓ سے کہا کہ وہ بلال ؓ کو اس مصیبت سے نجات دلائیں۔ چناچہ سیدنا ابوبکر ؓ نے امیہ بن خلف کو سیدنا بلال ؓ کی منہ مانگی قیمت ادا کرکے خریدا، پھر آزاد کردیا۔ ایک روایت کے مطابق یہ قیمت ایک کلو سے زائد چاندی تھی۔ (ابن ہشام
9
:
317
-
318
رحمۃ للعالمین
1
:
57
) سیدنا بلال ؓ کے ذریعہ امیہ بن خلف کی دردناک موت :۔ اب حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ جنگ بدر میں میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ جاہلیت کے دور میں امیہ بن خلف اور عبدالرحمن بن عوف ؓ میں دوستی تھی۔ جب مسلمان کافروں کو گرفتار کر رہے اور مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے اس وقت سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ چند زرہیں سنبھالے جارہے تھے۔ امیہ نے انہیں دیکھ لیا اور پکار کر کہا : تمہیں میری ضرورت ہے ؟ میں تمہاری ان زر ہوں سے بہتر ہوں۔ امیہ کا مطلب یہ تھا کہ اگر عبدالرحمن بن عوف مجھے قیدی بنا کر اپنی پناہ میں لے لیں تو میں کم از کم جان سے تو بچ جاؤں گا اور اگر زندہ رہا تو انہیں اس کام کا اتنا معاوضہ دوں گا جو ان زر ہوں سے کہیں بہتر ہوگا۔ عبدالرحمن بن عوف ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے علی دونوں کو گرفتار کرکے آگے بڑھا ہی تھا کہ اتفاق سے سیدنا بلال ؓ کی نظر امیہ بن خلف پر پڑگئی۔ امیہ کو دیکھتے ہی انہیں وہ زمانہ یاد آگیا جب امیہ ان پر مشق ستم کیا کرتا تھا۔ وہ فوراً پکار اٹھے اوہ ! کفر کا سر ! امیہ بن خلف ! آج یا میں زندہ رہوں گا یا یہ زندہ رہے گا میں نے سیدنا بلال ؓ کو بہتیرا سمجھایا کہ یہ میرا قیدی ہے مگر وہ کسی صورت نہ مانے اور انصار کو بلا کر وہی بات کہی کہ آج یا میں زندہ رہوں گا یا یہ کفر کا سر چناچہ ان لوگوں نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ میں ان کا بچاؤ کر رہا تھا بلکہ اپنے آپ کو امیہ پر ڈال رہا تھا۔ مگر ہجوم کے سامنے میری کچھ پیش نہ گئی۔ ان لوگوں نے امیہ کو میرے نیچے سے نکال کر باپ اور بیٹے دونوں کو بیدردی سے قتل کردیا۔ مرنے سے پہلے امیہ نے ایسی دردناک چیخ ماری جیسی میں نے پہلے کبھی نہ سنی تھی۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ بلال ؓ پر رحم فرمائے۔ جنگ بدر کے دن میری زرہیں بھی گئیں اور میرے قیدی کے بارے میں مجھے تڑپا بھی دیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد باب دعاء النبی علی المشرکین) ابو فکیہہ پر امیہ کے مظالم :۔ سیدنا ابو فکیہہص، صفوان بن امیہ کے غلام تھے۔ سیدنا بلال ؓ کے ساتھ اسلام لائے۔ امیہ کو جب یہ معلوم ہوا تو ان کے پاؤں میں رسی باندھی اور لوگوں سے کہا : اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں اور تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیں۔ ایک گبریلا راہ میں جارہا تھا۔ امیہ نے ان سے کہا۔ کیا یہی تو تیرا خدا نہیں ؟ ابو فکیہہ نے جواب دیا : میرا اور تمہارا دونوں کا خدا اللہ تعالیٰ ہے اس پر امیہ نے اس زور سے ان کا گلا گھونٹا کہ لوگ سمجھے کہ دم نکل گیا۔ ایک دفعہ ان کے سینے پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیا کہ زبان باہر نکل آئی۔ (سیرۃ النبی، ج
1
ص
234
) خباب بن ارت پر مظالم :۔ سیدنا خباب صبن ارت نہایت شریف الطبع انسان تھے اور قبیلہ بنو خزاعہ کی ایک عورت ام انمار کے غلام تھے۔ مشرکین ان کے سر کے بال نوچتے۔ سختی سے گردن مروڑتے۔ ایک دفعہ دہکتے کوئلوں پر آپ ؓ کو چت لٹا دیا گیا اور ایک شخص چھاتی پر پاؤں رکھے کھڑا رہا۔ تاکہ کروٹ نہ بدل سکیں۔ یہاں تک کہ پشت کے نیچے کے کوئلے ٹھنڈے پڑگئے۔ خباب ؓ نے مدتوں بعد یہ واقعہ سیدنا عمر ؓ کے سامنے بیان کیا اور پیٹھ کھول کر دکھائی جو برص کے داغ کی طرح سفید ہوگئی تھی۔ (سیرۃ النبی، ج
1
ص
232
) کنیزوں پر مظالم :۔ عورتیں بھی ایسے مظالم سے بچ نہ سکیں۔ سیدہ لبینہ ایک کنیز تھیں۔ سیدنا عمر ؓ اسے مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ میں نے تمہیں رحم کھا کر نہیں بلکہ اس لئے چھوڑا ہے کہ میں تھک گیا ہوں اور ذرا دم لے لوں وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں کہ اگر تم اسلام نہ لاؤ گے تو اللہ اس کا انتقام لے گا۔ (حوالہ ایضاً ) سیدہ زنیرہ سیدنا عمر ؓ کے گھرانے کی کنیز تھیں۔ اس وجہ سے وہ اسے بہت تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ ابو جہل نے انہیں اس قدر مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔ اسی طرح نہدیہ اور ام عبیس دونوں کنیزیں تھیں اور اسلام لانے کے جرم میں سخت مصیبتیں جھیلتی رہیں۔ (سیرۃ النبی، ج
1
ص
232
) سیدنا ابوبکر صدیق ؓ پر مظالم :۔ اگرچہ مسلمانوں پر مشرکین کے مظالم و شدائد کا اصل ہدف لونڈی غلام قسم کے لوگ تھے تاہم آزاد اور معزز مسلمانوں پر مظالم کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔ سب سے زیادہ مظالم تو انبیاء پر ہی ڈھائے جاتے ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ پر مظالم کا قصہ دوسرے کئی مقامات پر مذکور ہے۔ یہاں ہم صحابہ پر مظالم کے چند واقعات مختصراً ذکر کریں گے۔ ان میں سرفہرست تو سیدنا ابوبکر ؓ کو لیجئے۔ آپ کا جس قدر مکہ میں اثر و رسوخ تھا اس کا کچھ ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ آپ نے کئی مسلمان غلاموں اور لونڈیوں کو خرید کر انہیں مشرکین کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ سیدنا بلال ؓ، عامر بن فہیرہ ؓ (جو ہجرت نبوی کے موقعہ پر آپ کے ساتھ تھے) لبینہ، زنیرہ، نہدیہ اور ام عبیس کو آپ نے مالکوں کی منہ مانگی قیمت دے کر آزاد کردیا تھا۔ اور ان ایام میں آپ کے آزاد کردہ لونڈی، غلاموں کی تعداد سترہ تک پہنچ گئی تھی لیکن ان کا اپنا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ قریش نے آپ کو بری طرح مارا۔ عتبہ بن ربیعہ نے آپ کو دو پیوند لگے جوتوں سے اس قدر مارا کہ چہرہ اور ناک کا پتا نہیں چلتا تھا۔ ان کے قبیلے بنوتمیم کے لوگ انہیں کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے گئے ان کا یہی خیال تھا کہ اب زندہ نہ بچیں گے۔ کچھ دیر بعد انہیں ہوش آیا تو پہلی بات جو آپ نے زبان سے نکالی یہ تھی کہ اللہ کے رسول کس حال میں ہیں ؟ اور جب تک انہیں ان کی خیریت معلوم نہ ہوئی انہوں نے کھانے پینے سے بھی انکار کردیا اور اپنی ماں کو اس بات پر مجبور کردیا کہ جیسے بھی بن پڑے وہ آپ کو رسول اللہ ﷺ کے ہاں لے چلے۔ چناچہ ان کی ماں انہیں آپ کے پاس لے گئیں اور جب ان کو معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول بخیرو عافیت ہیں، تب جاکر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ (البدایہ والنہایہ،
3
:
30
) قریش مکہ کی ایسی ہی سختیوں سے تنگ آکر آپ بھی حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور برک غماد تک جا بھی پہنچے تھے کہ قبیلہ قارہ کا سردار ابن دغنہ انہیں اپنی پناہ میں لے کر واپس مکہ لے آیا۔ (بخاری۔ کتاب احادیث الانبیاء۔ باب ہجرۃ النبی ) سیدنا عمر کا گھر میں محصور ہونا :۔ سیدنا عمر ؓ جیسے بہادر شخص کا یہ حال تھا کہ جب مشرکوں میں ان کے ایمان کی خبر پھیل گئی تو انہوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور آپ کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا اور آپ اپنے ہی گھر میں محصور ہوگئے۔ آخر عاص بن وائل سہمی نے، جو آپ کے قبیلہ کا حلیف تھا، سیدنا عمر ؓ کو اپنی پناہ میں لے کر ہجوم کو منتشر کردیا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب اسلام عمر بن الخطاب) سیدنا عثمان غنی بن عفان ؓ صاحب عزوجاہ تھے مگر جب اسلام لائے تو ان کے چچا نے انہیں باندھ کر مارا تھا۔ (طبقات ترجمہ عثمان بن عفان) سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سیدنا عمر ؓ کے چچازاد بھائی بھی تھے اور بہنوئی بھی۔ بہن اور بہنوئی دونوں اسلام لے آئے تو سیدنا عمر ؓ جو ان کے بہت بعد اسلام لائے، ان دونوں کو رسیوں سے باندھ کر مارا کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سعید بن زیدص) دوسرے آزاد مسلمانوں پر اکفر کے مظالم :۔ سیدنا ابو ذرغفاری ؓ نے اسلام لانے کے بعد کعبہ میں کلمہ شہادت پکارا تو اس جرم میں ان کی دو بار پٹائی ہوئی۔ سیدنا عباس انہیں مشرکوں سے چھڑاتے رہے ان کا قصہ تفصیل سے سورة انفال کے حاشیہ نمبر
26
میں مذکور ہے۔ سیدنا زبیر بن عوام کا مسلمان ہونے والوں میں پانچواں نمبر تھا۔ جب اسلام لائے تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھواں دیتے تھے۔ (سیرۃ النبی، ج
1
ص
235
) سیدنا مصعب بن عمیر ؓ اسلام لائے تو انکی ماں نے ان کا دانہ پانی بند کردیا اور گھر سے باہر نکال دیا۔ (رحمۃ للعالمین
1
:
58
) سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ اسلام لائے تو آپ نے ارادہ کیا کہ کعبہ میں جاکر قرآن کریم بلند آواز سے پڑھیں۔ لوگوں نے منع کیا۔ لیکن آپ ؓ باز نہ آئے اور مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر بلند آواز سے سورة الرحمن کی تلاوت شروع کردی۔ قریش رحمان کے لفظ سے ہی چڑ گئے۔ ہر طرف سے آپ پر پل پڑے اور آپ کے منہ پر طمانچے مارنا شروع کردئے۔ آپ مار کھاتے رہے لیکن جہاں تک پڑھنا چاہتے تھے پڑھ کر دم لیا۔ (طبری، ج
3
ص
1188
) حبشہ کی طرف ہجرت :۔ غرض کوئی بھی مسلمان خواہ وہ کیسے عزوجاہ کا مالک تھا، مشرکین مکہ کے جورو ستم سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اس طرح جب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو آپ نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ چناچہ پہلی دفعہ سیدنا عثمان ؓ کی سر کردگی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے ہجرت کی۔ عورتوں میں سیدنا عثمان ؓ کی بیوی یعنی رسول اللہ ﷺ کی بیٹی رقیہ بھی موجود تھیں۔ اس موقعہ پر آپ نے فرمایا : سیدنا ابراہیم کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں ہجرت کے لئے نکلا۔ (رحمۃ للعالمین، ج
2
باب بنات النبی) ہجرت حبشہ کا ذکر سورة مائدہ کے حاشیہ نمبر
139
میں تفصیل سے مذکور ہے۔ ہجرت حبشہ کے بعد بھی کفار کے تشدد کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ بلکہ کفار کی طرف سے تشدد اور مسلمانوں کی طرف سے صبر و برداشت اور ہاتھ نہ اٹھانے کا یہ مرحلہ پورے مکی دور میں یعنی تیرہ سال پر محیط ہے۔ جس میں مسلمانوں کو نماز اور زکوٰۃ کے ذریعہ اپنے نفوس کا تزکیہ کرنے، مصائب پر صبر کرنے، اپنے قائد رسول اللہ ﷺ کی مکمل طور پر اطاعت کرنے کی تربیت دی جارہی تھی۔ کئی مسلمانوں نے جان کا نذرانہ پیش کردیا مگر نہ زبان سے کسی کو برا بھلا کہا اور نہ ہاتھ اٹھائے۔ حالانکہ موت کے وقت تو آقائی اور غلامی کے سب امتیازات اٹھ جاتے ہیں اور مرنے والا یہ چاہتا ہے کہ اسے مرنا ہی ہے تو دو چار کو مار کر مرے۔ بلکہ بلی بھی جب عاجز ہوتی ہے تو شیر پر حملہ کردیتی ہے۔ یہ بس رسول اللہ ﷺ کی تربیت اور مسلمانوں کی طرف سے مکمل اطاعت کا ہی اثر تھا کہ اسلام کی انقلابی تحریک ناکام ہونے سے محفوظ رہی اور ترقی کے مراحل طے کرتی گئی۔ پھر جب مسلمانوں کو مدینہ میں آزاد فضا میسر ہوگئی تو ہاتھ اٹھانے کی اجازت بھی مل گئی۔
107
اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بات کہنے والے معاذ اللہ منافق تھے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہر قسم کے معاشرہ میں تمام لوگ ایک ہی جیسے جرأت والے نہیں ہوتے، کچھ ناتواں اور کم ہمت ہوتے ہیں اور پورے مومن ہونے کے باوجود ہر ایک کی استعداد الگ ہوتی ہے۔ کوئی کسی کام کے لیے زیادہ موزوں ہوتا ہے اور کوئی دوسرا کسی اور کام کے لیے۔ لہذا جن کمزور دل لوگوں نے یہ بات کہی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو بھی پامردی دکھانا چاہیے کیونکہ یہ دنیا کی زندگی اور اس کے مفادات تو چند روزہ ہیں لہذا انہیں آخرت پر نظر رکھنی چاہیے جو ہر لحاظ سے بہتر ہے اور اگر ان کا عمل تھوڑا بھی ہوا تب بھی انہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
Top