Taiseer-ul-Quran - Az-Zukhruf : 45
وَ سْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً یُّعْبَدُوْنَ۠   ۧ
وَسْئَلْ : اور پوچھ لیجئے مَنْ اَرْسَلْنَا : جس کو بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل مِنْ رُّسُلِنَآ : اپنے رسولوں میں سے اَجَعَلْنَا : کیا بنائے ہم نے مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے سوا اٰلِهَةً : کچھ الہ يُّعْبَدُوْنَ : ان کی بندگی کی جائے
اور ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھیجے تھے ان سے پوچھ 44 لیجئے کہ : آیا ہم نے رحمن کے سوا کوئی اور الٰہ بنائے ہیں جن کی عبادت کی جائے ؟
44 بعد از موت انبیاء کی زندگی کے قائلین اور ان کا رد :۔ اس آیت میں واسْئَلْ کا مطلب اکثر مفسرین نے دو طرح سے بیان کیا ہے ایک یہ کہ ان انبیاء کے وارث علماء یا علمائے بنی اسرائیل سے پوچھ لیجئے۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ ان رسولوں کی کتابوں میں تلاش کرکے دیکھو کہ ان میں کہیں یہ لکھا ہے کہ ہم نے اپنے علاوہ کچھ اور بھی الٰہ بنا دیئے ہیں جن کی عبادت کی جایا کرے۔ لیکن کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو انبیاء و اولیائے کرام کی عرصہ برزخ میں مکمل زندگی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی وہ لوگوں کی پکار سنتے بھی ہیں اور ان کا جواب بھی دیتے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی آگے ان کے تصرف کا یہ حال ہے۔ وہ پکارنے والے کی مشکل کشائی اور حاجت روائی بھی کرتے ہیں۔ چناچہ ایسے ہی ایک صاحب اس آیت کا ترجمہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اگر انبیاء کرام میں حیات نہ ہوتی۔ وہ خطاب و ندا کو نہ سمجھتے ہوتے اور جواب دینے کی قدرت ان میں نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کو انبیاء و رسل سے دریافت کرنے کا حکم نہ فرماتا ایسے حضرات چونکہ عموماً بریلوی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا ہم یہاں ترجمہ احمد رضا خان بریلوی (کنزالایمان) پر حاشیہ نمبر 45 از نعیم الدین مراد آبادی درج کرتے ہیں : رسولوں سے سوال کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان کے ادیان و ملل کی تلاش کرو۔ کہیں بھی کسی نبی کی امت میں بت پرستی روا رکھی گئی ہے ؟ اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ مومنین اہل کتاب سے دریافت کرو۔ کیا کسی نبی نے غیر اللہ کی عبادت کی اجازت دی ؟ تاکہ مشرکین پر ثابت ہوجائے کہ مخلوق پرستی نہ کسی رسول نے بتائی نہ کسی کتاب میں آئی۔ یہ بھی ایک روایت ہے کہ شب معراج سید عالم نے بیت المقدس میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے جبرئیل نے عرض کیا کہ اے سرور اکرم ! اپنے سے پہلے انبیاء سے دریافت فرما لیجئے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی اور کی عبادت کی اجازت دی ؟ حضور نے فرمایا کہ اس سوال کی کچھ حاجت نہیں یعنی اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ تمام انبیاء توحید کی دعوت دیتے آئے۔ سب نے مخلوق پرستی کی ممانعت فرمائی ( سورة زخرف کا حاشیہ نمبر 45 از نعیم الدین مراد آبادی) اب دیکھئے اس حاشیہ میں جس روایت کا ذکر ہے وہ غلط معلوم ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سورة زخرف کی یہ آیت واقعہ معراج سے کافی عرصہ بعد نازل ہوئی ہے۔ سورة بنی اسرائیل جس میں واقعہ اسراء کا ذکر ہے، کا ترتیب نزول کے حساب سے نمبر 50 ہے۔ جبکہ سورة زخرف کا ترتیب نزول کے حساب سے نمبر 63 ہے۔ معراج کا واقعہ ہجرت سے ڈیڑھ دو سال پہلے کا ہے۔ جبکہ سورة ہذا اس وقت نازل ہوئی جبکہ کفار آپ کی جان کے درپے تھے۔ جیسا کہ اس سورة کی آیت نمبر 79۔ 80 سے واضح ہے۔ لہذا قبل از نزول آیت مذکورہ جبرئیل کا حضور سے یہ کہنا کہ ان رسولوں سے پوچھ لیجئے اور پھر پوری آیت پڑھ جانا کیسے ممکن ہے ؟
Top