Taiseer-ul-Quran - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے لَا تَسْئَلُوْا : نہ پوچھو عَنْ : سے۔ متعلق اَشْيَآءَ : چیزیں اِنْ تُبْدَ : جو ظاہر کی جائیں لَكُمْ : تمہارے لیے تَسُؤْكُمْ : تمہیں بری لگیں وَاِنْ : اور اگر تَسْئَلُوْا : تم پوچھوگے عَنْهَا : ان کے متعلق حِيْنَ : جب يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ : نازل کیا جارہا ہے قرآن تُبْدَ لَكُمْ : ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے درگزر کی عَنْهَا : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
اے ایمان والو ! ایسی باتوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار 149 ہوں اور اگر تم کوئی بات اس وقت پوچھتے ہو جبکہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو وہ تم پر ظاہر کردی جائے گی۔ اب تک جو ہوچکا اس سے اللہ نے درگزر کردیا ہے۔ وہ درگزر کرنے والا اور بردبار ہے
149 یعنی ایسے سوال رسول اللہ سے نہ کیا کرو جن میں نہ تمہارا کوئی دینی فائدہ ہو اور نہ دنیوی کیونکہ خواہ مخواہ سوال پوچھنے سے انسان کو نقصان ہی ہوتا ہے یا اس پر کوئی پابندی عائد ہوجاتی ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ 1۔ کثرت سوال کی ممانعت :۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ ایک دفعہ لوگوں نے آپ سے ایسی باتیں پوچھیں کہ آپ کو برا معلوم ہوا۔ جب بہت سوال جواب ہوئے تو آپ کو غصہ آگیا۔ آپ نے فرمایا اب جو چاہو پوچھتے جاؤ۔ ایک شخص (عبداللہ بن حذافہ، جسے لوگ متہم کرتے تھے) نے کہا : میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا شخص (سعد بن سالم) کہنے لگا : یا رسول اللہ ! میرا باپ کون ہے ؟ فرمایا تیرا باپ سالم ہے شیبہ کا غلام۔ جب سیدنا عمر نے آپ کے چہرہ مبارک کے غصہ کو دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ ! ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذا رای مایکرہ) 2۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا : میرا باپ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا دوزخ میں (بخاری۔ کتاب الاعتصام۔ باب مایکرہ من کثرۃ السوال ) 3۔ سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بڑا قصور وار وہ مسلمان ہے جو ایک بات پوچھے جو حرام نہ ہو لیکن اس کے پوچھنے کی وجہ سے حرام ہوجائے (حوالہ ایضاً ) 4۔ آپ نے منع فرمایا : بےفائدہ بک بک کرنے، زیادہ سوال کرنے، مال و دولت ضائع کرنے، ماؤں کو ستانے، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے، دوسروں کا حق دبانے سے۔ (بحوالہ ایضاً ) 5۔ ایک شخص (اقرع بن حابس) نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا حج ہر سال فرض ہے ؟ آپ چپ رہے۔ سائل نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا نہیں۔ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج واجب ہوجاتا (اور تم نباہ نہ سکتے) اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) 6۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی نے فرمایا کہ جو میں چھوڑوں یعنی اس کا ذکر نہ کروں تم بھی اس کا ذکر نہ کرو۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی بنا پر تباہ ہوگئے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب توقیرہ و ترک اکثار سوالہ ممالا ضرورۃ الیہ۔۔ الخ) 7۔ سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس کام سے میں تمہیں منع کروں اس سے باز رہو اور جس کام کا حکم دوں اسے جہاں تک ہو سکے بجا لاؤ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے پیغمبروں سے اختلاف کرنے کی وجہ سے تباہ ہوگئے (مسلم حوالہ ایضاً ) آپ نے فرمایا اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں، انہیں ضائع نہ کرو (ٹھیک طرح سے بجا لاؤ) اور کچھ چیزیں حرام کی ہیں ان کے پاس نہ پھٹکو، کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے اس کو بھول لاحق ہو لہذا انکی کرید نہ کرو۔ (بیہقی بحوالہ الموافقات للشاطبی اردو ترجمہ ج 1 ص 291)
Top