Taiseer-ul-Quran - Al-Maaida : 115
قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّیْۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ اِنِّىْ : بیشک میں مُنَزِّلُهَا : وہ اتاروں گا عَلَيْكُمْ : تم پر فَمَنْ : پھر جو يَّكْفُرْ : ناشکری کریگا بَعْدُ : بعد مِنْكُمْ : تم سے فَاِنِّىْٓ : تو میں اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا : اسے عذاب دوں گا ایسا عذاب لَّآ : نہ اُعَذِّبُهٗٓ : عذاب دوں گا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں تم پر یہ خوان تو اتارتا ہوں مگر دیکھو ! اس کے بعد تم 165 میں سے جس نے کفر کیا تو میں اسے ایسی سزا دوں گا جیسی اہل عالم میں سے کسی کو نہ دی ہو
165 مطالبہ کے معجزہ کے بعد نافرمانی پر عذاب لازم آتا ہے :۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نبی سے کسی خاص قسم کے معجزہ کا مطالبہ کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس کا مطلوبہ معجزہ دکھا دے۔ لیکن یہ قوم پھر بھی ایمان نہ لائے تو پھر اس پر اسی دنیا میں کوئی انتہائی سخت عذاب نازل ہوتا ہے۔ یہی حقیقت اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ اس کی واضح مثال تو قوم ثمود کا اپنے نبی صالح (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ تھا کہ اس پہاڑ سے حاملہ اونٹنی نکلے جو ہمارے سامنے بچہ جنے تب ہم ایمان لائیں گے۔ اللہ نے یہ معجزہ دکھادیا۔ لیکن ثمود نے ایمان لانے کی بجائے پھر سرکشی کی روش اختیار کی اور اس اونٹنی کو بھی ہلاک کر ڈالا تو ان پر سخت قسم کا زلزلہ آیا اور ساتھ ہی بڑی شدید اور کرخت آواز پیدا ہوئی جس سے سب کے سب تباہ ہوگئے تھے اور دوسری مثال یہی مطالبہ ہے۔ اس کے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔ خ خوان نعمت کا مطالبہ کرنے والوں کا انجام :۔ عمار بن یاسر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو دسترخوان آسمان سے اتارا گیا تھا اس میں روٹی اور گوشت تھا اور انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ اس میں نہ خیانت کریں گے اور نہ کل کے لیے ذخیرہ کریں گے۔ پھر ان لوگوں نے خیانت بھی کی اور کل کے لیے بھی اٹھا رکھا۔ لہذا انہیں بندر اور سور بنادیا گیا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا دسترخوان صرف ایک دن نہیں بلکہ کچھ عرصہ تک نازل ہوتا رہا مطالبہ کرنے والوں نے کہا تھا کہ اس دسترخوان سے غریب، نادار، معذور اور بےکس لوگ کھایا کریں گے مگر بعد میں کھاتے پیتے لوگ بھی اس دسترخوان میں شریک ہونے لگے۔ یہ ان کی خیانت تھی۔ علاوہ ازیں کل کے لیے سٹور بھی کرنا شروع کردیا اور ان کے بےجا طمع اور اللہ پر عدم توکل کی دلیل تھا اور اس سے انہیں روکا بھی گیا تھا۔ دیگر بھی کئی نافرمانیاں کیں جن کی پاداش میں ان میں اسی کے قریب آدمیوں کی صورتیں مسخ کر کے بندر اور سور کی سی بنادی گئیں۔ امام ترمذی کی تصریح کے مطابق یہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے اسی لیے بعض علماء نے اس واقعہ سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا قول یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا معجزہ طلب کرنے سے ڈرایا تو وہ فی الواقع ڈر گئے اور اپنے مطالبہ سے باز آگئے۔ لہذا دسترخوان اترا ہی نہیں تھا لیکن ایسے اقوال کے علی الرغم ہم موقوف حدیث کو ہی ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ قرآن میں اسی انداز سے مذکور ہے۔
Top