Taiseer-ul-Quran - Al-Maaida : 90
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِنَّمَا الْخَمْرُ : اس کے سوا نہیں کہ شراب وَالْمَيْسِرُ : اور جوا وَالْاَنْصَابُ : اور بت وَالْاَزْلَامُ : اور پانسے رِجْسٌ : ناپاک مِّنْ : سے عَمَلِ : کام الشَّيْطٰنِ : شیطان فَاجْتَنِبُوْهُ : سو ان سے بچو لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! یہ شراب اور یہ جوا یہ آستانے اور پانسے سب گندے شیطانی کام ہیں لہذا ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاسکو۔
133 شراب اور اس کی حرمت کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : 1۔ حرمت شراب میں تدریج :۔ سیدنا عمر ص فرماتے ہیں کہ میں نے دعا کی یا اللہ ! شراب کے بارے میں ہمارے لیے شافی بیان واضح فرما۔ تو سورة بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ) چناچہ سیدنا عمر ص کو بلا کر ان پر یہ آیت پڑھی گئی۔ پھر سیدنا عمر ص نے دعا کی : یا اللہ ! شراب کے بارے میں ہمارے لیے شافی بیان نازل فرما تو سورة نساء کی یہ آیت نازل ہوئی (یٰایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَقْرَبُوْا الصَّلٰوٰۃَ ) چناچہ سیدنا عمر ص کو بلا کر ان پر یہ آیت پڑھی گئی۔ آپ نے پھر دعا کی۔ یا اللہ ہمارے لیے شراب کے بارے میں شافی بیان واضح فرما۔ تو سورة مائدہ کی یہ آیت نازل ہوئی۔ (اِنَّمَا یُرِِیْدُ الشَّیْطٰنُ ۔۔ مُنْتَھُوْنَ ) تک، چناچہ سیدنا عمر کو بلا کر ان پر یہ آیت پڑھی گئی تو انہوں نے کہا ہم باز آئے۔ ہم باز آئے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ بخاری کتاب الاشربۃ باب نزول تحریم الخمر) 2۔ سیدنا ؓ کہتے ہیں کہ احد کے دن صبح کچھ لوگوں نے شراب پی تھی۔ اسی حال میں وہ شہید ہوئے۔ اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی (بخاری۔ کتاب التفسیر) 3۔ سیدنا عمر ص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ منبر پر کھڑے ہو کر فرما رہے تھے لوگو ! شراب حرام ہوئی شراب پانچ چیزوں سے بنا کرتی ہے۔ انگور، کھجور، شہد، گیہوں اور جو سے اور جس مشروب سے عقل میں فتور آئے وہ خمر (شراب) ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) 4۔ حرمت شراب کے وقت کا منظر :۔ سیدنا انس ص فرماتے ہیں کہ میں ابو طلحہ کے گھر لوگوں کا ساقی بنا ہوا تھا اور ان دنوں شراب فضیخ (گندی کھجوروں کی) ہی تھی۔ میں ابو طلحہ، ابو عبیدہ، ابی بن کعب، ابو ایوب، ابو دجانہ، سہیل بن بیضاء اور اپنے چچاؤں اور کسی دوسرے صحابہ کرام کو کھڑا ہوا شراب پلا رہا تھا اور میں ان سب سے چھوٹا تھا۔ رسول اللہ نے ایک منادی کو حکم دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ شراب حرام ہوگئی۔ ابو طلحہ نے مجھے کہا جاؤ ! باہر جا کر سنو۔ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک منادی اعلان کر رہا ہے۔ سن لو ! شراب حرام ہوگئی۔ اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے پوچھا کیا تمہیں کوئی خبر پہنچی ہے ؟ وہ کہنے لگے کیسی خبر ؟ اس نے کہا شراب حرام ہوگئی ہے۔ ابو طلحہ نے مجھے کہا باہر جا کر مٹکا توڑ دو اور شراب بہا دو میں باہر نکلا اور سل کے ایک بٹے کو اٹھا کر مٹکے کے پیندے میں مارا۔ مٹکا ٹوٹ گیا اور شراب بہہ گئی۔ (اس دن) مدینہ کے گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی تھی۔ اس شخص سے یہ خبر سننے کے بعد لوگوں نے نہ اس کی تصدیق کی اور نہ ہی پھر کبھی شراب پی۔ (بخاری کتاب الاشربہ۔ باب۔ نزول تحریم الخمر و کتاب المظالم باب صب الخمر فی الطریق۔ مسلم کتاب الاشربہ باب تحریم الخمر) 5۔ حرمت شراب سے متعلقہ مسائل :۔ سیدنا عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص انگور اترنے کے زمانے میں انگور سٹاک کر رکھے تاکہ اسے شراب بنانے والوں کے ہاتھ فروخت کرے اس نے دیدہ دانستہ آگ میں جانے کی کوشش کی (رواہ الطبرانی فی الاوسط، اسنادہ حسن) 6۔ آپ سے پوچھا گیا کیا شراب بطور دوا استعمال ہوسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا شراب تو خود بیماری ہے یہ شفا کیا دے گی۔ (ترمذی۔ ابو اب الطب۔ باب ماجاء فی التداویٰ بالمسکر) 7۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے (مسلم۔ کتاب الاشربہ۔ باب۔ بیان ان کل مسکر خمر) 8۔ آپ نے فرمایا جس چیز کی کثیر مقدار حرام ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہوتی ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب الاشربہ باب ما اسکر کثیرۃ فقلیلہ حرام ) 9۔ آپ سے پوچھا گیا کہ کیا ہم شراب کا سرکہ بنا کر اسے استعمال کرسکتے ہیں ؟ فرمایا نہیں (مسلم۔ کتاب الاشربہ باب۔ تحریم تخلیل الخمر ) 10۔ ابن عباس ؓ ص فرماتے ہیں کہ قبیلہ ربیعہ کا ایک وفد مدینہ آیا تو آپ نے ان لوگوں کو حکم دیا کہ فلاں فلاں برتن (آپ نے ایسے برتنوں کا نام لیا جن میں اس زمانہ میں شراب بنائی جاتی تھی) کسی دوسرے استعمال میں نہ لائے جائیں (انہیں بھی توڑ دیا جائے) اور ان میں نبیذ بھی نہ بنائی جائے۔ (ترمذی۔ ابو اب الاشربۃ۔ فی کراھیہ ان ینبذ فی الدباء والنقیر والحنتم ) 11۔ آپ نے فرمایا میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور آلات موسیقی کے کوئی دوسرے نام رکھ کر انہیں جائز قرار دے لیں گے۔ (بخاری۔ کتاب الاشربہ۔ باب ماجاء فی من یستحل الخمر ویسمیہ بغیر اسمہ ) 12۔ سیدہ انس ص فرماتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپ نے دو ٹہنیوں سے اسے چالیس مرتبہ مارا۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالخمر) 13۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا پینا حرام ٹھہرایا ہے اس کی خریدو فروخت بھی حرام کردی (مسلم۔ کتاب البیوع۔ باب۔ تحریم بیع الخمر) 14۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب سود سے متعلق سورة بقرہ کی آیات نازل ہوئیں تو آپ مسجد میں آئے ان آیتوں کو پڑھ کر سنایا پھر فرمایا کہ شراب کی خریدو فروخت حرام ہے۔ (بخاری۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب تحریم تجارۃ الخمر فی المسجد) 15۔ سیدنا انس ص فرماتے ہیں کہ آپ نے شراب کے سلسلہ میں دس لوگوں پر لعنت فرمائی (1) شراب نچوڑنے والا (2) نچڑوانے والا (3) لینے والا (4) اٹھانے والا (5) جس کے لئے لے جائی جائے (6) پلانے والا۔ (7) بیچنے والا (8) اس کی قیمت کھانے والا (9) خریدنے والا (10) جس کے لیے خریدی گئی۔ (ترمذی ابو اب البیوع۔ باب ماجاء فی بیع الخمر و نہی عن ذالک) شراب اور جوئے سے متعلق اگرچہ اس آیت میں تحریم یا حرام ہونے کا لفظ صراحت سے مذکور نہیں ہوا تاہم انداز بیان سے سب صحابہ کو معلوم ہوگیا کہ یہ چیزیں حرام ہوگئی ہیں۔ اس انداز بیان میں انما حصر کا لفظ لا کر شراب، جوئے کو الانصاب اور ازلام کے ساتھ ملایا گیا ہے جن کی حرمت کی کئی مقامات پر وضاحت ہے (2) ان چیزوں کو ناپاک کہا گیا (3) انہیں شیطانی عمل قرار دیا گیا (4) ان سے اجتناب کا حکم دیا گیا (5) انہیں باہمی عداوت کا پیش خیمہ قرار دیا گیا (6) اور اللہ کی یاد سے غافل کرنے والی چیزیں قرار دیا گیا اور آخر میں (7) طنزیہ اور سوالیہ انداز میں پوچھا گیا کہ آیا ان تمام تر قباحتوں کے باوجود بھی تم باز آتے ہو یا نہیں ؟ جس کے جواب میں سیدنا عمر ص نے فرمایا تھا کہ ہم باز آئے۔ شراب کی حد کے بارے میں بعض لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ شراب کی سزا حد ہے یا تعزیر۔ اور اس شبہ کی وجہ یہ ہے کہ دور نبوی میں سزا دینے والی چیز صرف کوڑے ہی نہیں تھے بلکہ بعض دفعہ ہاتھوں سے، جوتوں سے، چھڑی سے، کپڑے سے اور ٹہنی سے مار کر سزا دی جاتی تھی اور بعض احادیث میں چالیس کی تعداد کا بھی ذکر نہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث میں سے حدیث نمبر 3 سے معلوم ہوتا ہے۔ نیز امام بخاری نے ایک باب کے عنوان میں حد کا نام ہی نہیں لیا باب کا عنوان ہے ماجاء فی ضرب شارب الخمر شراب کی سزا کا بیان نیز حدیث نمبر 7 میں سیدنا علی ص کی حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں ذلک ان رسول اللہ ﷺ لم یسنہ یعنی رسول اللہ نے اس کا کوئی متعین طریقہ بیان نہیں فرمایا یا مقرر نہیں کیا۔ اور جو لوگ اسے تعزیر نہیں بلکہ حد سمجھتے ہیں اور اکثریت کا یہی مذہب ہے ان کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ کی حدوں کے سوا کسی کو بھی دس کوڑوں سے زیادہ سزا نہ دی جائے۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب قدر اسواط التعزیر) اور چونکہ دور نبوی میں بھی شرابی کی سزا چالیس کوڑے مارنا ثابت ہے لہٰذا یہ حد ہے تعزیر نہیں۔ اب ہم ایسی احادیث درج کرتے ہیں جو شرابی کی سزا کے بارے میں بخاری اور مسلم میں وارد ہیں۔ 1۔ عتبہ بن حارث کہتے ہیں کہ نعیمان کا بیٹا رسول اللہ کے ہاں لایا گیا۔ اس نے شراب پی تھی۔ جو لوگ اس گھر میں موجود تھے آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے ماریں۔ چناچہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اسے چھڑیوں اور جوتوں سے مارا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب ماجاء فی ضرب شارب الخمر) 2۔ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ رسول اللہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر کی شروع خلافت میں شراب پینے والا جب لایا جاتا تو ہم اٹھ کر اسے ہاتھوں سے، جوتوں سے اور چادروں سے مارتے۔ یہاں تک کہ سیدنا عمر کی خلافت کا آخری دور آگیا تو انہوں نے شرابی کو چالیس کوڑے لگائے مگر جب لوگوں نے سرکشی اور نافرمانی کی راہ اختیار کی تو انہوں نے اسی کوڑے لگائے (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب ماجاء فی ضرب شارب الخمر) 3۔ سیدنا عمر ص کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے زمانہ میں ایک شخص کو لوگ عبداللہ حمار کہا کرتے تھے۔ وہ رسول اللہ کو ہنسایا کرتا تھا۔ آپ نے اس کو شراب کی حد بھی لگائی تھی۔ ایک دفعہ ( غزوہ خیبر کے دوران) اس نے شراب پی اور لوگ اسے پکڑ لائے۔ آپ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم دیا جو اسے لگائے گئے۔ اتنے میں ایک شخص (خود سیدنا عمر) بول اٹھے، یا اللہ اس پر لعنت کر کمبخت کتنی مرتبہ شراب کی وجہ سے لایا جا چکا ہے۔ آپ نے فرمایا اس پر لعنت نہ کرو۔ اللہ کی قسم ! میں تو یہی جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اپنے بھائی کے مقابلہ میں شیطان کی مدد نہ کرو۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب ماجاء فی ضرب شارب الخمر) 4۔ سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ آپ کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپ نے اسے دو چھڑیوں سے چالیس بار مارا۔ اور سیدنا ابوبکر ص نے اپنے دور خلافت میں) بھی ایسا ہی کیا۔ پھر جب سیدنا عمر ص کا دور خلافت آیا تو آپ نے اس بارے میں صحابہ سے مشورہ کیا۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ سب حدوں میں سے ہلکی حد اسی کوڑے ہیں (یعنی حد قذف جو قرآن میں مذکور ہے) تو سیدنا عمر ص نے شرابی کے لیے اسی کوڑوں کی حد کا حکم دیا۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حد الخمر) 5۔ سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ شراب میں جوتوں اور ٹہنیوں سے چالیس ضربیں مارتے تھے۔ (مسلم۔ کتاب الحدود باب حد الخمر) 6۔ حسین بن منذر سے روایت ہے کہ میری موجودگی میں لوگ ولید بن عقبہ کو سیدنا عثمان ؓ کے پاس لائے۔ ولید نے شراب پی تھی اور اس پر دو آدمیوں نے گواہی بھی دی۔ سیدنا عثمان ؓ نے (ازراہ توقیر و تکریم) سیدنا علی ؓ سے فرمایا کہ اٹھو اور اسے کوڑے لگاؤ۔ اور سیدنا علی ؓ نے سیدنا حسن ؓ (اپنے بیٹے کو) کوڑے لگانے کے لیے کہہ دیا۔ سیدنا حسن ؓ نے جواب دیا جس نے خلافت کا مزہ چکھا ہے اسے ہی اس کا گرم بھی چکھنے دیجئے۔ (یعنی سیدنا عثمان ؓ کو ہی کوڑے لگانے دیجئے۔ ) اس بات پر سیدنا علی ؓ سیدنا حسن ؓ پر خفا ہوئے اور عبداللہ بن جعفر ؓ سے کہا کہ اٹھ اور ولید کو کوڑے لگا۔ عبداللہ اٹھے اور ولید کو کوڑے لگانا شروع کیے اور سیدنا علی گنتے جاتے تھے۔ جب چالیس کوڑے لگ چکے تو کہنے لگے۔ ذرا ٹھہر جاؤ پھر فرمایا کہ رسول اللہ نے چالیس کوڑے لگائے اور سیدنا ابوبکر ص نے بھی چالیس لگائے اور سیدنا عمر ص نے اسی کوڑے لگائے اور یہ سب سنت ہیں۔ اور میرے نزدیک چالیس لگانا بہتر ہے۔ 7۔ سیدنا علی ص نے فرمایا میں اگر کسی پر حد قائم کروں اور وہ مرجائے تو مجھے اس کی کچھ پروا نہیں۔ البتہ اگر شراب کی حد میں کوئی مرجائے تو اس کی دیت دلاؤں گا کیونکہ رسول اللہ نے اسے بیان نہیں فرمایا۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حد الخمر۔ بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب ماجاء فی ضرب شارب الخمر) 134 جوئے کی اقسام :۔ میسر بمعنی وہ کثیر مال و دولت جو مفت میں یا آسانی سے ہاتھ لگ جائے۔ اسے ہی جوا اور قمار بازی بھی کہتے ہیں وئے کی معروف قسم تو شرعاً اور قانوناً حرام ہے اور جواری کو کسی معاشرہ میں بھی معاشرہ کا معزز فرد نہیں سمجھا جاتا مگر موجودہ دور میں جوئے کی کئی نئی اقسام بھی وجود میں آچکی ہیں جن میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی اور بعض کو حکومتوں کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے حالانکہ ایسی سب نئی شکلیں بھی حرام ہیں مثلاً لاٹری، معمہ بازی، ریفل ٹکٹ، انعامی بانڈ، ریس کو رس اور بیمہ کی بعض شکلیں۔ نیز چوسر اور شطرنج وغیرہ بھی قمار ہی کی قسمیں ہیں۔ 135 بت اور آستانے :۔ ایسے مقامات جنہیں کسی موجود یا غیر موجود بت یا کسی دوسرے شرکیہ عقیدہ کی بنا پر عوام میں تقدس کا درجہ حاصل ہو اور وہاں نذریں نیازیں بھی چڑھائی جاتی ہوں۔ ان میں مرکزی کردار چونکہ کسی بت پیر فقیر یا اس کی روح کا ہوتا ہے لہٰذا بت گری، بت پرستی اور بت فروشی سب چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اور اس کے علاوہ مجسمے اور جاندار اشیاء کی تصویر کشی بھی حرام قرار دی گئی بالخصوص ایسے انسانوں کی جنہیں دینی یا دنیوی لحاظ سے معاشرہ میں کوئی ممتاز مقام حاصل ہو یا رہ چکا ہو۔ 136 ازلام کے لیے دیکھئے سورة مائدہ کی آیت نمبر 3 حاشیہ نمبر 16
Top