Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - Al-An'aam : 86
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًا١ؕ وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
وَاِسْمٰعِيْلَ
: اور اسمعیل
وَالْيَسَعَ
: اور الیسع
وَيُوْنُسَ
: اور یونس
وَلُوْطًا
: اور لوط
وَكُلًّا
: اور سب
فَضَّلْنَا
: ہم نے فضیلت دی
عَلَي
: پر
الْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہان والے
اور اسمعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو بھی۔ ان میں سے ہر ایک کو
87
۔
1
ہم نے اقوام عالم پر فضیلت دی تھی
87
۔ ا اس آیت میں فرمایا کہ یہ سب انبیاء (یعنی
18
۔ انبیاء کا ان آیات میں ذکر آیا ہے) سب صالح لوگ تھے اور اس اگلی آیت میں فرمایا کہ ان میں ہر ایک کو ہم نے تمام اقوام عالم پر فضیلت دی تھی۔ قرآن کریم کی ان تصریحات سے انبیاء کی کمال عصمت ثابت ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ تمام انبیاء معصوم عن الخطاء تھے جبکہ بائیبل ان انبیاء میں سے کئی انبیاء کی سیرت کو داغدار کر کے پیش کرتی ہے (تفصیل کے لیے دیکھئے سورة کی آیت نمبر
48
کا حاشیہ نمبر
54
) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاء و رسل کا یک جا ذکر فرمایا اور قرآن میں کل ستائیس انبیاء و رسل کا ذکر آیا ہے ان میں سے سیدنا لقمان کی نبوت اختلافی ہے اور جن انبیاء کا یہاں ذکر نہیں آیا وہ یہ ہیں۔ سیدنا آدم، ادریس، ہود، صالح، شعیب، ذوالکفل، عزیر اور محمد رسول اللہ اور جن اٹھارہ انبیاء کا ذکر آیا ہے مناسب ہے کہ یہاں ترتیب زمانی کے لحاظ سے ان انبیاء کے مختصر حالات زندگی درج کردیئے جائیں۔ (
1
) سیدنا نوح (علیہ السلام) : آپ کی عمر ایک ہزار سال تھی۔ آپ کی بعثت تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار سال قبل مسیح ہوئی تھی۔ عراق میں دریائے دجلہ اور فرات کا درمیانی علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ آپ کی قوم بت پرست تھی اور پانچ بتوں ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کی پوجا کرتی تھی۔ اور اس معاملہ میں بہت ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئی تھی کہ آپ کی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے نتیجہ میں صرف چالیس آدمی ایمان لائے آخر آپ نے دل برداشتہ ہو کر ان کے حق میں بددعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بڑی کشتی تیار کرنے کا حکم دیا اور اس کو بنانے کے لیے ہدایات بھی دیں۔ جب کشتی تیار ہوگئی تو آپ نے سب ایمانداروں کو اس میں بیٹھنے کا حکم دیا۔ علاوہ ازیں سب جانوروں کا ایک ایک جوڑا بھی اس کشتی میں رکھ لیا گیا، اس کے بعد زمین سے پانی کے چشمے ابلنے شروع ہوگئے اور آسمان سے مسلسل اور موسلادھار بارش، زمین پر اتنا پانی جمع ہوگیا جس نے پہاڑوں کو بھی اپنے اندر چھپالیا۔ آپ کا نافرمان بیٹا یام بھی آپ کے دیکھتے دیکھتے اس طوفان کی نذر ہوگیا۔ چھ ماہ پانی چڑھتا رہا۔ پھر اترنا شروع ہوا۔ بارش بند ہوگئی۔ زمین نے پانی کو جذب کرنا اور سورج اور ہواؤں نے خشک کرنا شروع کردیا کشتی جودی پہاڑ پر ٹک گئی۔ چالیس دن بعد جب زمین خشک ہوگئی تو سب لوگ بسلامت اس کشتی سے اتر کر زمین پر آگئے۔ طوفان کے بعد آپ
350
سال زندہ رہے اور تبلیغ کرتے رہے۔ (
2
) سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) : آپ کی عمر
175
سال تھی۔ آپ کی بعثت کا زمانہ دو ہزار اور اکیس سو قبل مسیح کے درمیان ہے آپ کی قوم بت پرست اور نجوم پرست تھی۔ آپ کا باپ آزر نمرود شاہ عراق کی طرف سے شاہی بت خانہ کا مہنت اور منتظم تھا وہ بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ آپ نے سب سے پہلے اپنے باپ ہی کو نہایت نرم الفاظ میں تبلیغ کرنا شروع کی۔ اس نے نمرود سے سیدنا ابراہیم کا ذکر کیا تو اس نے آپ کو دربار میں طلب کرلیا۔ سیدنا ابراہیم نے نمرود پر حجت قائم کر کے اسے مناظرہ میں لاجواب کردیا تو باپ اور بھی زیادہ مخالف ہوگیا۔ کیونکہ سیدنا ابراہیم کی بات ماننے سے اس کا عہدہ بھی جاتا تھا اور ذریعہ معاش بھی تباہ ہوتا تھا لہذا اس نے سیدنا ابراہیم کو یہاں تک کہہ دیا کہ میرے گھر سے نکل جاؤ ورنہ رجم کر دوں گا۔ باپ کے بعد آپ نے قوم کو بت پرستی سے منع کرنا شروع کردیا اور ایک دفعہ موقع پا کر ان کے بت توڑ دیئے۔ اس بات پر قوم نے سیخ پا ہو کر آپ کو آگ کے ایک بڑے الاؤ میں پھینک دیا۔ مگر اللہ نے آپ کو بال بال بچا لیا۔ آخر آپ ہجرت کر کے سیدنا لوط کے ہمراہ فلسطین کی طرف چلے گئے پھر وہاں سے مصر کی طرف ہجرت کی تو شاہی کارندے آپ کی بیوی سارہ کو پکڑ کرلے گئے جس سے بادشاہ کو کافی تکلیف پہنچی۔ بالآخر اس نے ہاجرہ کو سیدہ سارہ کی خادمہ بنا کر ہمراہ کردیا۔ اسی ہاجرہ سے سیدنا اسماعیل پیدا ہوئے۔ آپ نے ان ماں بیٹے کو اللہ کے حکم سے کعبہ شریف کے قریب لا بسایا۔ جب سیدنا اسماعیل جوان ہوئے تو ان کی قربانی کا معاملہ پیش آیا۔ اس امتحان میں دونوں باپ بیٹا پورے اترے۔ پھر ان دونوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔ زندگی بھر آپ پر اللہ کی طرف سے کڑی سے کڑی آزمائشیں آئیں۔ ان سب میں آپ پورے اترے تو اللہ نے آپ کو اپنا خلیل قرار دیا اور رہتی دنیا کے لیے آپ کو سب کا امام اور پیشوا بنادیا۔ (
3
) سیدنا لوط (علیہ السلام) : سیدنا ابراہیم کے چچا زاد بھائی ہیں عراق سے ہجرت کے وقت آپ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ہمراہ تھے بعد میں آپ کو بھی نبوت عطا ہوئی تو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے آپ کو تبلیغ کے لیے شرق اردن کی طرف بھیج دیا۔ بحر میت یا بحر لوط کے اردگرد سدوم کا شہر اور اردگرد عمورہ کی بستیاں آپ کی تبلیغ کا علاقہ تھا آپ کی قوم شرک اور دوسری بد اخلاقیوں کے علاوہ لواطت میں گرفتار بلکہ اس بدفعلی کی موجد بھی تھی۔ لوط کے سمجھانے پر بھی یہ لوگ اپنی کرتوتوں سے باز نہ آئے بلکہ الٹا سیدنا لوط (علیہ السلام) اور معدودے چند مسلمانوں کو اپنے شہر سے نکل جانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ آخر فرشتے اس قوم پر قہر الٰہی ڈھانے کے لیے نازل ہوئے سیدنا جبریل نے ان کی بستیوں کو اکھاڑ کر اپنے پروں پر اٹھایا اور بلندی پر لے جا کر اور اٹھا کر نیچے پٹخ دیا۔ پھر اوپر سے پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ چناچہ یہ خطہ ئزمین سطح سمندر سے چار سو کلومیٹر نیچے چلا گیا اور اوپر پانی آگیا۔ اسی پانی کے ذخیرہ کو بحر مردار، بحر میت یا غرقاب لوطی کہا جاتا ہے۔ (
4
) سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) : سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کے بڑے صاحبزادے مصر میں اقامت کے دوران ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے ان دونوں ماں بیٹے کو مکہ کی بےآب وگیاہ زمین میں لابسایا۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں زمزم کا چشمہ جاری کردیا۔ آپ کی پرورش بنو جرہم نے کی۔ جب بالغ ہونے کو آئے تو ذبح عظیم کی آزمائش کا واقعہ پیش آیا۔ آپ اس میں کامیاب اترے تو ذبیح اللہ کا لقب پایا۔ بعد ازاں آپ نے اپنے باپ سیدنا ابراہیم کے تعاون سے خانہ کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا اور اس کی خدمت پر مامور ہوئے۔ بنو جرہم میں ہی آپ کی شادی ہوئی اور یہی علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز قرار پایا۔ آپ کی عمر
137
سال ہوئی۔ (
5
) سیدنا اسحاق (علیہ السلام) : سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کے دوسرے صاحبزادے جو فرشتوں کی بشارت کے مطابق سیدہ سارہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ اس وقت سیدہ سارہ کی عمر نوے سال کے قریب اور سیدنا ابراہیم کی عمر سو سال سے زائد تھی۔ فلسطین کا علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز اور بیت المقدس کی خدمت آپ کے سپرد تھی۔ نبی آخرالزماں کے سوائے باقی سب انبیاء بنی اسرائیل آپ کی اولاد سے ہوئے اور اسی علاقہ میں اپنے باپ سیدنا ابراہیم کے پہلو میں دفن ہوئے۔ آپ کی عمر
180
سال ہوئی۔ (
6
) سیدنا یعقوب (علیہ السلام) : سیدنا اسحاق کے صاحبزادے ہیں۔ علاقہ کنعان کی طرف مبعوث ہوئے۔ بعد میں ہجرت کر کے قدان آئے۔ آپ کا دوسرا نام اسرائیل ہے۔ آپ کو اپنے بیٹے یوسف سے بہت محبت تھی۔ اللہ نے اسی میں آپ کی آزمائش کی۔ چناچہ آپ نے سیدنا یوسف کی گمشدگی کا صدمہ نہایت صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ آخر عمر میں سیدنا یوسف کی دعوت پر مصر میں جا کر آباد ہوئے۔ لیکن آپ کی میت کو آپ کی وصیت کے مطابق قدس خلیل میں ہی لا کر سیدنا اسحاق اور سیدنا ابراہیم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آپ نے
147
سال کی عمر پائی۔ (
7
) سیدنا یوسف (علیہ السلام) : آپ سیدنا یعقوب کے ہاں کنعان میں پیدا ہوئے۔ آپ کی داستان حیات زبان زد خاص و عام ہے۔
17
سال کی عمر میں کنوئیں میں ڈالے گئے تقریباً سات سال عزیز مصر کے گھر میں رہے پھر
7
سال قید میں۔ پھر مصر کے منتظم اعلیٰ بنے اور آٹھ سال بعد آپ کے قحط گزرنے کے بعد خوشحالی کے ایام میں اور دور بادشاہت میں اپنے والدین اور سب گھر والوں کو اپنے ہاں بلا لیا۔ والد محترم سے فرقت کا زمانہ
23
سال ہے آپ نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ اسی مصر کی زمین میں
110
سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور وصیت کی کہ جب بھی بنو اسرائیل واپس اپنے وطن کنعان جائیں تو آپ کی نعش کو وہاں لے جا کر دوبارہ دفن کریں۔ چناچہ جب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) بنو اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو آپ کی قبر سے تابوت نکال کر ساتھ لے گئے اور مشہد خلیل میں آباء و اجداد کے ساتھ دفن کیا۔ (
8
) سیدنا ایوب (علیہ السلام) : آپ کی بعثت کا زمانہ ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح ہے۔ آپ کثرت اموال و اراضی میں مشہور تھے۔ ستر سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ پھر آپ پر اللہ کی طرف سے آزمائش کا دور جو آیا تو ہر چیز ہاتھ سے نکل گئی۔ اور ایسے بیمار پڑے کہ ایک بیوی کے سوا سب نے ساتھ چھوڑ دیا۔ آپ نے اس بیماری میں اور مال و دولت کے چھن جانے پر صبر و استقامت کا ایسا بےمثال مظاہرہ کیا جو ضرب المثل بن چکا ہے۔ صحیح روایات کے مطابق آپ کا دور ابتلاء
13
سال ہے۔ جب آپ اس امتحان میں کامیاب اترے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری بھی دور کردی اور مال و دولت بھی پہلے سے دو گنا عطا فرمایا اور صابر کا لقب بھی عطا فرمایا۔
140
سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ (
9
۔
10
) سیدنا موسیٰ اور ہارون علیھما السلام : سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پہلے رسول ہیں جنہیں کتاب دی گئی اور مستقل شریعت عطا ہوئی۔ بڑے صاحب جلال تھے۔ آپ کی تربیت نہایت معجزانہ طور پر فرعون کے گھر میں اور اس کے اخراجات پر ہوئی اور ان ایام میں ہوئی جب فرعون مصر بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کرا دیتا تھا۔ سیدنا یعقوب اور ان کی اولاد جو سیدنا یوسف کے عہد بادشاہی میں مصر میں آ کر آباد ہوئے تھے اب لاکھوں کی تعداد تک پہنچ چکے تھے اور محکومانہ اور مقہورانہ زندگی گزار رہے تھے۔ سیدنا یوسف اور سیدنا موسیٰ (علیہما السلام) کا درمیانی عرصہ تقریباً چار سو سال ہے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا مشن یہ تھا کہ انہیں فرعون کی غلامی سے آزاد کرا کر واپس اپنے وطن فلسطین میں لے جائیں اور اس علاقہ میں وہ حاکمانہ حیثیت سے آباد ہوں۔ مگر صدیوں کی غلامی نے بنی اسرائیل کو اتنا بزدل بنادیا تھا کہ وہ بسا اوقات سیدنا موسیٰ سے الجھ پڑتے۔ اس مشکل ذمہ داری کو نبھانے کے لیے سیدنا موسیٰ نے اللہ سے دعا کی تھی کہ ان کے بڑے بھائی سیدنا ہارون کو بھی نبوت عطا کر کے بطور مددگاران کے ہمراہ فرعون کی طرف بھیجا جائے اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ کی یہ درخواست منظور فرما لی تھی۔ فرعون کے مظالم کو برداشت کرنا بنو اسرائیل کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ اہل مصر گائے بیل کی پرستش کرتے تھے۔ ان کی یہ ادا بھی بنو اسرائیل میں رچ بس گئی تھی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل کو فرعون سے نجات دی۔ اور سب فرعونیوں کو سمندر میں غرق کردیا۔ اب اگلا مرحلہ جہاد کر کے شام و فلسطین کے علاقہ پر قبضہ کرنا تھا۔ لیکن اس قوم نے روایتی بزدلی کی بنا پر جہاد سے صاف انکار کردیا۔ جس کی پاداش میں
40
سال میدان تیہ میں بھٹکتے رہے۔ اسی ارض تیہ میں سیدنا ہارون اور سیدنا موسیٰ دونوں بھائیوں کی وفات ہوئی۔ سیدنا موسیٰ نے اپنی وفات سے پہلے یوشع بن نون کو اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ یہی یوشع سیدنا خضر سے ملاقات کے دوران سیدنا موسیٰ کے ہم سفر تھے۔ انہی کی قیادت میں اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل کو موعودہ علاقہ پر اقتدار عطا فرمایا اور انہوں نے سب سے پہلے اریحاء کا علاقہ فتح کیا۔
40
سال کے دوران بنو اسرائیل کی پرانی بزدل نسل تو مر کھپ گئی اور نئی نسل کی تربیت جنگل کی بامشقت زندگی میں ہوئی تھی لہذا نئی نسل جرأت مند پیدا ہوئی جس نے جہاد کر کے موعودہ علاقہ کو فتح کیا۔ (
11
) سیدنا الیاس (علیہ السلام) : الیاس اور الیاسین ایک ہی نام ہے جیسے طور سینا اور طُوْرِ سینِیْنَایک ہی نام ہے۔ آپ کی دعوت کا مرکز بعلبک تھا آپ کی قوم بعلنامی بت کی پوجا کرتی تھی۔ بعل کے لغوی معنیٰ مالک آقا، سردار اور خاوند ہے گویا یہ بت ان لوگوں کا خاص دیوتا یا مہا دیوتا تھا۔ بابل سے لے کر مصر تک پورے شرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی۔ مصر سے بنی اسرائیل واپس آئے تو وہ بھی اس بعل پرستی کے مرض میں مبتلاء ہوگئے۔ بعل کے نام کا ایک مذبح بھی بنا ہوا تھا جس پر قربانیاں کی جاتی تھیں۔ آپ نے ان لوگوں کو بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے شرکیہ کاموں سے باز نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ظالم حکمران ان پر مسلط کردیا اور سیدنا الیاس نے ہجرت کر کے بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ (
12
) الیسع (علیہ السلام) : آپ سیدنا الیاس کے نائب اور خلیفہ تھے۔ بعد میں نبوت بھی عطا ہوئی۔ آپ کا حلقہ تبلیغ شام کا علاقہ تھا۔ (
13
) سیدنا داؤد (علیہ السلام) : آپ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے پست قد تھے اور ماہر تیر انداز اور نشانہ باز تھے۔ طالوت کی فوج میں سپاہی کی حیثیت سے لڑے۔ اپنی فلاخن میں پتھر رکھ کر جالوت کو مارا جس سے وہ ہلاک ہوگیا اور حکومت بنو اسرائیل کے ہاتھ لگی۔ سیدنا داؤد کو ایک ممتاز عہدہ پر فائز کیا گیا اور طالوت کی بیٹی سے نکاح ہوا۔ طالوت کی وفات کے بعد خود مختار بادشاہ بنے اور نبوت بھی عطا ہوئی۔ آپ پر زبور نازل ہوئی۔ اتنے خوش الحان تھے کہ جب تسبیحات پڑھتے تو پوری فضا پر وجد طاری ہوجاتا۔ آپ کے ہاتھوں میں لوہا، تانبا موم کی طرح نرم ہوجاتا۔ بعض لوگ اسے معجزہ نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں کہ آپ لوہا اور تانبا کی ڈھلائی کے خوب ماہر تھے۔ اپنے ہاتھ سے زرہیں تیار کرنا آپ کا ذریعہ معاش تھا۔ اپنی زندگی میں بیت المقدس کی بنیاد رکھی جسے بعد میں سیدنا سلیمان نے پورا کیا۔ ستر سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کا زمانہ
1015
ق م تا
945
ق م ہے۔ (
14
) سیدنا سلیمان (علیہ السلام) : آپ سیدنا داؤد کے بیٹے تھے۔ آپ نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ بنی اسرائیل میں آپ کی شان کا کوئی بادشاہ نہیں ہوا۔ جن اور پرندوں پر بھی آپ کی حکومت تھی۔ جانوروں کی بولی سمجھتے ان کو حکم دیتے اور ان سے کام لیتے تھے۔ ہوا بھی آپ کی تابع فرمان تھی۔ آپ ایک ماہ کا سفر ہوائی سفر کے ذریعہ چند گھنٹوں میں طے کرلیتے تھے۔ ملکہ سبا آپ کی کوشش سے مسلمان ہوئی۔ بیت المقدس کو نہایت عالی شان طریقہ پر مکمل کیا۔ (
15
) سیدنا یونس (علیہ السلام) : آپ کا زمانہ بعثت نویں صدی قبل مسیح ہے اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے قوم نے آپ کی دعوت کا انکار کیا تو از خود ہی چالیس دن بعد عذاب آنے کی انہیں وعید سنا دی۔ جب یہ مدت گزرنے کے قریب پہنچی اور آپ نے عذاب کی کوئی نشانی نہ دیکھی تو فرار ہوئے اور ایک بڑی مچھلی کا لقمہ بنے۔ مچھلی کے پیٹ میں تسبیحات پڑھتے رہے آخر اللہ نے اس مشکل سے نجات دی اور مچھلی نے انہیں صحیح وسالم برلب ساحل اگل دیا۔ جب ذرا طاقت آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسی قوم یعنی اہل نینوا ہی کی طرف آپ کو دوبارہ بھیجا۔ اب دوسری طرف صورت حال یہ بنی کہ جب سیدنا یونس مفرور ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے قول کو پورا کردیا۔ اہل نینوا کو وقت پر عذاب کے آثار نظر آنے لگے تو یہ سب لوگ اپنے بال بچوں سمیت کھلے میدان میں نکل آئے اور اللہ کے حضور گڑگڑائے اور سچے دل سے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ عذاب ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ میں ایک ہی استثناء ہے کہ آیا ہوا عذاب ٹل گیا ہو۔ اب اس قوم کی طرف جب سیدنا یونس دوبارہ آئے تو وہ پہلے ہی نرم ہوچکی تھی لہذا آپ کی تبلیغ نہایت موثر ثابت ہوئی۔ (
16
) سیدنا زکریا (علیہ السلام) : آپ سیدہ مریم بنت عمران (والدہ عیسیٰ علیہ السلام) کے حقیقی خالو تھے۔ چناچہ سیدنا زکریا ہی سیدہ مریم کے مربی اور کفیل قرار پائے۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) چونکہ محض اللہ کی قدرت سے بن باپ پیدا ہوئے تھے لہذا یہودیوں نے زکریا پر ہی سیدہ مریم سے (نعوذ باللہ) زنا کی تہمت لگا دی اور انہیں قتل کرنا چاہا۔ آپ نے انہیں بہت سمجھایا مگر وہ اس سے باز نہ آئے۔ آخر چند شیطان سیرت آدمیوں نے آپ کو شہید کردیا۔ (
17
) سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) : آپ کفیل مریم سیدنا زکریا کے فرزند ہیں۔ سیدنا زکریا بوڑھے ہوچکے تھے مگر بےاولاد تھے۔ سیدہ مریم کے پاس بےموسم پھل دیکھ کر بےاختیار پکار اٹھے کہ یا اللہ اگر مجھے بھی بےموسم پھل یعنی لڑکا عطا فرما دے تو کیا عجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی، بچے کی بشارت بھی دی اور اس کا نام بھی یحییٰ خود ہی تجویز فرمایا۔ آپ کو بچپن ہی میں نبوت عطا ہوئی۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے خالہ زاد بھائی تھے۔ نہایت نرم دل اور ہر وقت اللہ کے ڈر سے اور اخروی محاسبہ سے روتے رہتے تھے۔ اس وقت کے ایک یہودی حاکم ذونو اس نے اپنی ایک رقاصہ کے مطالبہ اور دلجوئی کی خاطر آپ کا سر قلم کروا دیا۔ (
18
) سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) : آپ اللہ کے کلمہ سے بن باپ پیدا ہوئے۔ آپ کا لقب روح اللہ ہے۔ ماں کی طرف سے
26
ویں پشت پر جا کر سیدنا سلیمان (علیہ السلام) سے سلسلہ نسب جا ملتا ہے۔ بنی اسرائیل کے سب سے آخری اور صاحب شریعت نبی ہیں۔ آپ کو بچپن میں نبوت مل گئی تھی اور انجیل آپ پر نازل ہوئی۔ آپ کی پیدائش ناصرہ کے مقام پر ہوئی۔ گود ہی میں کلام کر کے والدہ کی برئیت پر حجت قائم کی مگر یہودی تہمت تراشیوں سے باز نہ آئے آپ بڑے فصیح البیان مقرر اور وجیہ تھے کسی کو آپ کے منہ پر الزام دینے یا تہمت تراشی کی جرأت نہ ہوئی۔ آپ کو چند محیر العقول معجزات بھی عطا ہوئے تھے۔ جوں جوں آپ کی عزت اور شہرت بڑھتی گئی یہودیوں میں حسد کی آگ بھڑکتی گئی اور شاہ وقت کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ انہیں گرفتار کر کے سولی پر لٹکا دیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے عین وقت پر عیسیٰ (علیہ السلام) کو بجسد عنصری آسمان پر اٹھایا (اس وقت آپ کی عمر
33
سال تھی) اور مخبری کرنے والے کی شکل و صورت سیدنا عیسیٰ کے مشابہ بنادی چناچہ وہی سولی دیا گیا اور اپنے کیے کی سزا پائی۔ آپ آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ شادی کریں گے اولاد ہوگی۔ بعد ازاں آپ کی طبعی وفات ہوگی۔ اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا ذکر کر کے آخر میں فرمایا کہ یہ سب ہی اچھے لوگ تھے۔ اس طرح انبیاء کی حسن سیرت کا دائمی سرٹیفکیٹ عطا کردیا۔ جبکہ بائیبل بڑے بڑے انبیاء کی سیرت کشی کرتی اور ان میں کئی طرح کے عیوب کی نشاندہی کرتی ہے مثلاً :
1
۔ یہود کے انبیاء پر اتہامات :۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) شراب پی کر بدمست اور بدحواس ہوئے کہ تمام ستر برہنہ ہوگیا اور ان کے بیٹوں نے ڈھانکا۔ (پیدائش باب
9
)
2
۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) نے شراب پی کر اپنی دونوں بیٹیوں سے زنا کیا اور یہ معاملہ دو بار وقوع میں آیا۔ (پیدائش باب
19
)
3
۔ سیدنا یعقوب (علیہ السلام) نے بکری کے بچوں کی کھال ہاتھوں پر لپیٹ کر جھوٹ بولا اور اپنے باپ اسحاق کو دھوکا دینے کے لیے اپنا نام عیص بتایا۔ (پیدائش باب
27
)
4
۔ حمور کے بیٹے سکم نے سیدنا یعقوب کی بیٹی دینہ سے زنا کیا اور یعقوب کے بیٹوں نے اس سے یہ مکر کیا کہ تو اور تیری تمام قوم اگر ختنہ کرے تو دینہ کی شادی تجھ سے کردیں چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ان نبی زادوں نے ایسا موقع پا کر اس کو اور اس کی تمام قوم بےگناہ کو نہایت بےرحمی سے تہ تیغ کیا اور مال و اسباب لوٹ لیا اور ان کی بیویوں اور بچوں کو غلام بنایا مگر سیدنا یعقوب نے منع کرنا تو درکنار اس نالائق حرکت پر اپنی ناراضگی بھی ظاہر نہ کی۔ (پیدائش باب
34
)
5
۔ بنی اسرائیل کے کہنے پر موسیٰ کی غیبت میں ہارون نے زیور کا ایک بت بنایا اور تمام بنی اسرائیل سے اس کو پجوایا اور اس کے لیے قربانیاں گزارنے کا حکم دیا۔ (کتاب خروج باب
32
)
6
۔ سیدنا داؤد (علیہ السلام) اپنے بام پر چڑھے۔ اتفاقاً اور یاہ کی جورو بت سبع کو نہاتے دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوگئے اور آدمی بھیج کر اس کو بلوایا اور اس سے زنا کیا جس سے وہ عورت حاملہ ہوئی پھر اس کے خاوند کو ایک مکر و تدبیر کر کے مروا ڈالا۔ جس پر ناتن نبی کی معرفت داؤد پر بڑی زجر و توبیخ ہوئی (سموئیل کی دوسری کتاب باب
11
)
7
۔ سیدنا سلیمان نے باوجود سخت ممانعت کے موآبی اور عمونی وغیرہ بت پرست عورتوں کو بیوی بنایا۔ اور خواہش نفسانی کو یہ طغیانی ہوئی کہ سات سو بیگمات اور تین سو حرموں تک نوبت پہنچی اور پھر ان پر عاشق اور مرید زن ہوئے کہ بتوں کی طرف اور تعمیر بت خانوں میں مصروف اور شامل ہوگئے اور آخر عمر میں ایمان کو بھی سلام کر گئے (کتاب اول سلاطین باب
11
)
8
۔ یہ بات قرآن سے ثابت ہے کہ یہود کتاب الٰہی کی درس و تدریس کے بجائے جادو منتر وغیرہ میں ہمہ تن مصروف ہوگئے تھے۔ پھر ستم کی بات یہ تھی کہ وہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو بہت بڑا جادو گر اور ان کی بادشاہی اور عروج کا ذریعہ جادو ہی کو سمجھتے تھے اور یہ تفصیل پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر
102
کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔
9
۔ سیدنا عیسیٰ اور سیدہ مریم صدیقہ کے متعلق یہود نے جس بد زبانی سے کام لیا تھا ان ناشائستہ کلمات کا ذکر کرنا بھی نامناسب ہے اور عیسائی خود بھی ان باتوں کا اقرار کرتے تھے نیز یہود یہ بھی کہتے تھے کہ بموجب بشارت عیسیٰ (علیہ السلام) اگر سچے نبی ہوتے تو قتل نہ کیے جاتے۔ حالانکہ وہ قتل کیے گئے۔
Top