Taiseer-ul-Quran - Al-A'raaf : 164
وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا١ۙ اِ۟للّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا١ؕ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا اُمَّةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے لِمَ تَعِظُوْنَ : کیوں نصیحت کرتے ہو قَوْمَ : ایسی قوم االلّٰهُ : اللہ مُهْلِكُهُمْ : انہیں ہلاک کرنیوالا اَوْ : یا مُعَذِّبُهُمْ : انہیں عذاب دینے والا عَذَابًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت قَالُوْا : وہ بولے مَعْذِرَةً : معذرت اِلٰى : طرف رَبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَعَلَّهُمْ : اور شاید کہ وہ يَتَّقُوْنَ : ڈریں
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ان میں سے کچھ لوگوں نے دوسروں سے کہا : تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت 168 کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : اس لیے کہ ہم تمہارے پروردگار کے ہاں معذرت کرسکیں اور اس لئے بھی کہ شاید وہ نافرمانی سے پرہیز کریں
168 یہ وہ لوگ تھے جو خود تو مچھلیاں پکڑنے کے جرم کے مرتکب نہیں تھے مگر پکڑنے والوں کو منع بھی نہیں کرتے تھے۔ جب اللہ کا عذاب آیا تو صرف وہ لوگ بچائے گئے جو خود بھی مچھلیاں نہیں پکڑتے تھے اور پکڑنے والوں کو منع بھی کرتے رہے اور اس درمیانی گروہ کو محض اس لیے سزا ملی کہ وہ اس گناہ کے کام سے منع کیوں نہ کرتے تھے۔ گویا جیسے کوئی برائی کرنا جرم ہے ویسے ہی برائی سے نہ روکنا بھی جرم ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔ نہی عن المنکر کے متعلق احادیث نبوی :۔ 1۔ نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کرنے والوں اور خلاف ورزی دیکھ کر خاموش رہنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ان لوگوں کی جنہوں نے کسی جہاز میں بیٹھنے کے لیے قرعہ اندازی کی۔ کچھ لوگوں کے حصے میں نچلی منزل آئی اور دوسروں کے حصہ میں اوپر کی منزل۔ اب نچلی منزل والے جب پانی لے کر بالائی منزل والوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں اس سے تکلیف پہنچتی۔ یہ دیکھ کر نچلی منزل والوں میں سے ایک نے کلہاڑی لی اور جہاز کے پیندے میں سوراخ کرنے لگا۔ بالائی منزل والے اس کے پاس آئے اور کہا تمہیں یہ کیا ہوگیا ہے۔ اس نے جواب دیا تمہیں ہماری وجہ سے تکلیف پہنچی اور ہمارا پانی کے بغیر گزارا نہیں۔ اب اگر اوپر والوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تو اسے بھی بچا لیا اور خود بھی بچ گئے اور اگر اسے چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کیا اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کیا۔ (بخاری۔۔ کتاب الشرکۃ ہل یقرع فی القسمۃ۔ نیز کتاب الشہادات۔ باب القرعۃ فی المشکلات۔ ) 2۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے روکے یہ بھی نہ کرسکے تو دل میں ہی برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان) 3۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے) دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان پر عام عذاب نازل ہو۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ زیر آیت سورة مائدہ آیت نمبر 101) اصحاب السّبت پر عذاب کی نوعیت :۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ قرآن میں ان تینوں گروہوں میں سے ایک کے متعلق فرمایا کہ ہم نے برائی سے منع کرنے والوں کو بچا لیا اور جو نافرمانی کرنے والے تھے انہیں عذاب میں پکڑ لیا۔ رہا درمیان میں تیسرا گروہ جو خود نافرمانی نہیں کرتا تھا اور منع بھی نہ کرتا تھا اس کے لئے قرآن نے سکوت اختیار کیا ہے تو ہمیں بھی سکوت اختیار کرنا چاہیے۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ عذاب دو طرح کے آئے تھے۔ ایک بڑا عذاب جس کا ذکر آیت نمبر 165 میں ہے اس میں دونوں گروہ ماخوذ ہوئے نافرمانی کرنے والے بھی اور برائی سے منع نہ کرنے والے بھی اور دوسرا عذاب بندر بنا دینے کا تھا اور وہ حد سے گزرنے والوں کے لیے تھا اس عذاب میں صرف وہی لوگ ماخوذ ہوئے جو نافرمان تھے۔
Top