Taiseer-ul-Quran - At-Tawba : 108
لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًا١ؕ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ١ؕ فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ
لَا تَقُمْ : آپ نہ کھڑے ہونا فِيْهِ : اس میں اَبَدًا : کبھی لَمَسْجِدٌ : بیشک وہ مسجد اُسِّسَ : بنیاد رکھی گئی عَلَي : پر التَّقْوٰى : تقوی مِنْ : سے اَوَّلِ : پہلے يَوْمٍ : دن اَحَقُّ : زیادہ لائق اَنْ : کہ تَقُوْمَ : آپ کھڑے ہوں فِيْهِ : اس میں فِيْهِ : اس میں رِجَالٌ : ایسے لوگ يُّحِبُّوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَطَهَّرُوْا : وہ پاک رہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : محبوب رکھتا ہے الْمُطَّهِّرِيْنَ : پاک رہنے والے
(اے نبی ) ! آپ اس (مسجد ضرار) میں کبھی بھی (نماز کے لئے) کھڑے نہ ہونا۔ وہ مسجد جس کی پہلے دن سے تقویٰ پر بنیاد 121 رکھی گئی تھی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے
121 تقویٰ پر تعمیر شدہ مسجد کونسی ہے ؟ وہ مسجد کونسی تھی اور کیسے حالات میں تعمیر ہوئی ؟ اس کی وضاحت کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ 1۔ سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے اس بات میں جھگڑا کیا کہ وہ کونسی مسجد ہے جس کی پہلے دن سے تقویٰ پر بنیاد رکھی گئی تھی۔ ایک نے کہا وہ مسجد قبا ہے اور دوسرے نے کہا وہ رسول اللہ کی مسجد ہے۔ تب آپ نے فرمایا کہ وہ یہی میری مسجد ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) 2۔ مسجد نبوی کی تعمیر اور بعد میں وسعت :۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے بلند حصہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں اترے آپ چوبیس (اور ایک روایت کے مطابق چودہ) راتیں وہاں رہے۔ پھر بنی نجار کو بلا بھیجا جو تلواریں لٹکائے حاضر ہوئے آپ اونٹنی پر سوار ہوئے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ آپ کی خواصی میں اور بنی نجار کے سردار آپ کے اردگرد تھے۔ یہاں سے چل کر آپ ابو ایوب کے گھر میں اترے۔ آپ کو یہ بات پسند تھی کہ جہاں نماز کا وقت آئے وہیں نماز پڑھ لیں اور آپ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ نے تعمیر مسجد کا حکم دیا۔ اور بنی نجار کے سرداروں کو بلا بھیجا اور فرمایا تم اپنے اس باغ کی قیمت مجھ سے طے کرلو۔ وہ کہنے لگے۔ نہیں اللہ کی قسم ہم تو اس کی قیمت اللہ تعالیٰ سے ہی لیں گے۔ اس باغ میں کچھ تو مشرکوں کی قبریں تھیں، کچھ کھنڈر اور کچھ کھجور کے درخت۔ پھر آپ نے حکم دیا تو مشرکوں کی قبریں کھود ڈالی گئیں، کھنڈر برابر کیے گئے اور کھجور کے درخت کاٹ کر ان کی لکڑیاں قبلے کی طرف جما دی گئیں۔ اس کے دونوں طرف پتھروں کا پشتہ لگایا۔ صحابہ شعر پڑھ پڑھ کر پتھر ڈھو رہے تھے اور آپ بھی ان کے ساتھ شعر پڑھتے اور فرماتے :؎ اَللّٰھُمَّ لَاخَیْرَ اِلَّا خَیْرَالْاٰ خِرَۃَ ۔۔ فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُھَاجِرَۃَ (اے اللہ ! بھلائی تو وہی ہے جو آخرت کی ہو اے اللہ انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔ ) (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ھل ینبش قبور مشرکی الجاھلیہ) 3۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ (مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت) ہم ایک ایک اینٹ اٹھا رہے تھے اور عمار ؓ دو دو اینٹیں۔ آپ نے عمار ؓ کو دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا افسوس عمار ؓ کو باغی جماعت مار ڈالے گی۔ یہ تو انہیں بہشت کی طرف بلائے گا اور وہ اسے دوزخ کی طرف بلائیں گے۔ چناچہ عمار ؓ کہا کرتے : میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب التعاون فی بناء المسجد ) 4۔ عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں مسجد نبوی کچی اینٹ سے بنی ہوئی تھی، چھت پر کھجور کی ڈالیاں اور ستون کھجور کی لکڑی کے تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے (اپنے دور خلافت میں) کچھ نہیں بڑھایا اور سیدنا عمر نے مسجد کو بڑھایا لیکن عمارت ویسی ہی رکھی جیسی آپ کے زمانہ میں تھی یعنی اینٹوں اور کھجور کی ڈالیوں کی۔ البتہ کھجور کی لکڑی کے ستون دوبارہ لگائے گئے پھر سیدنا عثمان ؓ نے اسے بدل ڈالا اور بہت بڑھایا اور اس کی دیواریں نقشی پتھر اور گچ سے بنوائیں اور اس کے ستون بھی نقشی پتھر کے تھے اور اس کی چھت ساگوان سے بنوائی۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب بنیان المسجد)
Top