Taiseer-ul-Quran - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
اے ایمان والو ! ان کافروں 140 سے جنگ کرو جن کا علاقہ تمہارے ساتھ ملتا ہے۔ اور ان کے ساتھ تمہیں سختی 141 سے پیش آنا چاہئے اور یہ جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں 142 کے ساتھ ہے
140 پہلے متصل علاقہ کے کافروں سے جہاد پھر آگے بالترتیب :۔ یعنی اگر یہ جنگ اسلام کے راستہ کی رکاوٹوں کو دور کرنے یا بالفاظ دیگر فتنہ کو دور کرنے کی خاطر ہو تو سب سے پہلے اپنی ریاست سے متصل علاقے کے کافروں سے جنگ کی جائے پھر اس کے بعد ان سے جو اس کے ساتھ ملتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ اگر متصل علاقے کو چھوڑ کر اگلے علاقہ سے جنگ شروع کی جائے تو درمیانی علاقہ والے کافر مسلمانوں کو آگے اور پیچھے دونوں اطراف سے حملہ کر کے خطرات سے دو چار کرسکتے ہیں۔ اور اگر جنگ دفاعی قسم کی ہو جیسے مثلا روس نے افغانستان پر حملہ کردیا تھا۔ تو سب سے پہلے جہاد میں حصہ لینا افغانستان پر فرض ہوگا پھر ان علاقوں یا ملکوں پر جو افغانستان کی سرحد کے ساتھ ملتے ہیں یعنی پاکستان اور ایران وغیرہ پر۔ 141 یعنی ان سے جان توڑ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور ان سے نرمی کا برتاؤ ہرگز نہ ہونا چاہیے بلکہ ایسی سختی سے پیش آنا چاہیے کہ انہیں دوبارہ سر اٹھانے کی جرأت نہ ہو سکے۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مومنوں کی شان ہی یہ ہے کہ وہ آپس میں تو بڑے رحم دل اور مہربان ہوتے ہیں لیکن کفار کے لیے بڑے سخت دل ہوتے ہیں۔ 142 جنگ کے ضابطوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :۔ سختی کا یہ مطلب نہیں کہ تم ان تمام ضابطوں اور احکام کو بھول جاؤ جو اللہ اور رسول نے تمہیں دوران جنگ کے لیے دے رکھے ہیں مثلاً کافروں کی عورتوں، بچوں، راہب قسم کے لوگوں یا میدان جنگ میں عملاً شریک نہ ہونے والے لوگوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ کسی کی لاش کا مثلہ نہ کیا جائے گا۔ معاہدہ کی خلاف ورزی کسی قیمت پر نہ کی جائے گی۔ دشمن کے درختوں اور کھیتوں اور چوپایوں کو بر باد نہیں کیا جائے گا الا یہ کہ درخت وغیرہ جنگ کی راہ میں حائل ہو رہے ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایسے تمام امور میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور اللہ ایسے ڈرنے والوں ہی کا ساتھ دیتا اور ان کی مدد فرماتا ہے۔
Top