Taiseer-ul-Quran - At-Tawba : 25
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ
لَقَدْ : البتہ نَصَرَكُمُ : تمہاری مدد کی اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَوَاطِنَ : میدان (جمع) كَثِيْرَةٍ : بہت سے وَّ : اور يَوْمَ حُنَيْنٍ : حنین کے دن اِذْ : جب اَعْجَبَتْكُمْ : تم خوش ہوئے (اترا گئے كَثْرَتُكُمْ : اپنی کثرت فَلَمْ تُغْنِ : تو نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں شَيْئًا : کچھ وَّضَاقَتْ : اور تنگ ہوگئی عَلَيْكُمُ : تم پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : فراخی کے باوجود ثُمَّ : پھر وَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے مُّدْبِرِيْنَ : پیٹھ دے کر
اللہ (اس سے پہلے) بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کرچکا ہے اور حنین 23 کے دن (بھی تمہاری مدد کی تھی) جبکہ تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا مگر وہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور زمین اپنی فراخی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ دیکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے
23 غزوہ حنین اور اس کے اسباب :۔ حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے جہاں فتح مکہ کے بعد شوال 8 ھ میں حق و باطل کا ایک بہت بڑا معرکہ پیش آیا تھا۔ عرب کے اکثر بدوی قبائل اس انتظار میں تھے کہ اگر محمد ﷺ قریش پر غالب آگئے اور مکہ فتح ہوگیا تو بلاشبہ وہ پیغمبر ہیں اور ان کی دعوت کو قبول کرلینا چاہیے۔ چناچہ مکہ کی فتح کے بعد بہت سے قبائل خودبخود آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آئے لیکن ہوازن اور ثقیف کا معاملہ دوسرے قبائل کے بالکل برعکس تھا۔ یہ قبائل نہایت جنگجو اور فنون حرب و ضرب کے خوب ماہر تھے اور جوں جوں اسلام کو غلبہ حاصل ہوتا تھا یہ قبائل اس غلبہ کو اپنی ریاست و اقتدار کے لیے خطرہ سمجھ کر اور بھی زیادہ سیخ پا ہوجاتے تھے۔ مکہ کی فتح کے بعد ان دونوں قبائل نے باہمی اتفاق سے یہ پروگرام بنایا کہ اس وقت مسلمان مکہ میں جمع ہیں۔ اسی مقام پر ان پر ایک بھرپور حملہ کر کے ان کا زور توڑ دیا جائے۔ ان لوگوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی عورتیں اور بچے بھی ساتھ لے آئے تھے تاکہ کسی کو پسپائی کا خیال ہی پیدا نہ ہو۔ ایک تیس سالہ نوجوان مالک بن عوف ان کا سپہ سالار تھا۔ مسلمانوں کی پسپائی :۔ رسول اللہ مکہ میں ہی مقیم تھے کہ آپ کو ان حالات کا علم ہوا۔ فتح مکہ سے تو کچھ مال غنیمت وصول ہی نہ ہوا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ اس نئی جنگ کے لیے اخراجات کہاں سے آئیں ؟ آخر آپ نے عبداللہ بن ربیعہ سے تیس ہزار درہم قرض لیے اور اسلحہ جنگ کے طور پر سو زر ہیں اور اس کے لوازمات صفوان بن امیہ سے مستعار لیے اور ان قبائل سے مقابلہ کے لیے مکہ سے نکل کر ان کی طرف بڑھے اور حنین کے مقام پر دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے۔ اس وقت اسلامی لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی جن میں نو مسلم بھی شامل تھے اور دشمن کی تعداد صرف چار ہزار تھی۔ مقابلہ ہوا تو ہوازن کے تیر اندازوں نے کمین گاہوں سے اس طرح تیروں کی بوچھاڑ کی اور اس قدر بےجگری سے لڑے کہ اسلامی لشکر کے جو آج اپنی کثرت تعداد پر نازاں ہونے کی وجہ سے کچھ بےخوف اور لاپروا سے ہو رہے تھے، چھکے چھوٹ گئے اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور راہ فرار اختیار کی۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا جب آپ اکیلے دشمن کے سامنے کھڑے رہ گئے۔ اس وقت آپ نے جس قدر جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اس کا اندازہ درج ذیل احادیث سے ہوتا ہے۔ نیز جنگ کے حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ آپ کی مثالی جرأت :۔ 1۔ سیدنا براء بن عازب کہتے ہیں کہ ہم مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور دشمن نے ہم پر تیر برسانے شروع کردیئے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب و یوم حنین۔ مسلم کتاب الجہاد۔ باب فی غزوۃ حنین ) 2۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ حنین کے دن آپ کے ساتھ دس ہزار مجاہدین کے علاوہ طلقاء (جنہیں فتح مکہ کے بعد معافی دی گئی تھی) بھی تھے۔ وہ سب آپ کو چھوڑ گئے تھے اور آپ اکیلے رہ گئے تھے۔ غزوہ طائف۔ بخاری کتاب المغازی۔ مسلم کتاب الجہاد والسیر باب اعطاء المؤلفۃ قلوبھم ) 3۔ اصحاب شجرہ کا پکارنے پر آپ کے پاس پہنچنا :۔ سیدنا عباس فرماتے ہیں کہ حنین کی جنگ میں میں رسول اللہ کے ساتھ تھا۔ میں اور ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب دونوں رسول اللہ کے ساتھ رہے۔ ہم نے آپ کو نہیں چھوڑا۔ آپ اپنے سفید خچر پر سوار تھے جو آپ کو فروہ بن نغاثہ جذامی نے ہدیہ کیا تھا۔ جب کفار اور مسلمانوں کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ مگر رسول اللہ اپنے خچر پر کفار کی طرف جانے کے لیے ایڑ لگانے لگے۔ میں رسول اللہ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا کہ کہیں وہ تیزی سے دشمن کی طرف نہ چلا جائے اور ابو سفیان رسول اللہ کے ساتھ ساتھ تھے۔ آپ نے مجھے فرمایا عباس ! اصحاب شجرہ کو آواز دو (کیونکہ میں بلند بانگ تھا) میں نے بلند آواز سے پکارا : اصحاب شجرۃ کہاں ہیں ؟ آواز سنتے ہی وہ اس طرح لوٹ آئے جیسے گائے اپنے بچوں کے پاس آتی ہے۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم حاضر ہیں۔ ہم حاضر ہیں۔ انصار کو یوں بلایا گیا۔ یا معشر الانصار ! یا معشر الانصار ! پھر بنو الحارث بن خزرج پر بلانا ختم ہوا۔ انہیں یوں بلا گیا۔ اے بنو الحارث بن خزرج۔ اے بنو الحارث بن خزرج ! رسول اللہ اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور اونچے ہو ہو کر لڑائی دیکھ رہے تھے (مسلم۔ کتاب الجہادوالسیر۔ باب فی غزوۃ حنین) 4۔ آپ کا اشعار پڑھنا :۔ سیدنا براء بن عازب فرماتے ہیں کہ جب لوگوں کو ندا دی گئی اس وقت آپ یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ انا النبی لاکذب۔۔ انا ابن عبدالمطلب اور فرما رہے تھے اے اللہ اپنی نصرت نازل فرما۔ اللہ کی قسم ! جب جنگ شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے یعنی آپ کے پیچھے ہوجاتے تھے اور ہم میں بہادر وہ تھا جو آپ کے برابر کھڑا ہوتا۔ (مسلم۔ کتاب الجہادوالسیہ۔ باب غزوہ حنین) پھر جب آپ کی پکار پر مہاجرین و انصار آپ کے گرد جمع ہوگئے تو اس وقت تک اپنی کثرت پر نازاں ہونے کی بو دماغوں سے نکل چکی تھی۔ پھر جم کر لڑے۔ اللہ کی مدد شامل حال ہوئی تو اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو بہت سا مال غنیمت بھی حاصل ہوا اور بہت سے لونڈی غلام بھی بنائے گئے کیونکہ یہ لوگ اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔ گویا جس چیز کو وہ حوصلہ افزائی کے لیے لائے تھے وہی چیز اللہ نے ان کے لیے وبال جان بنادی۔
Top