Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا
: صرف
الصَّدَقٰتُ
: زکوۃ
لِلْفُقَرَآءِ
: مفلس (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنِ
: مسکین (جمع) محتاج
وَالْعٰمِلِيْنَ
: اور کام کرنے والے
عَلَيْهَا
: اس پر
وَالْمُؤَلَّفَةِ
: اور الفت دی جائے
قُلُوْبُهُمْ
: ان کے دل
وَفِي
: اور میں
الرِّقَابِ
: گردنوں (کے چھڑانے)
وَالْغٰرِمِيْنَ
: اور تاوان بھرنے والے، قرضدار
وَفِيْ
: اور میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
وَابْنِ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
فَرِيْضَةً
: فریضہ (ٹھہرایا ہوا)
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلِيْمٌ
: علم والا
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
صدقات
65
تو دراصل فقیروں
66
مسکینوں اور ان کارندوں
67
کے لئے ہیں جو ان (کی وصولی) پر مقرر ہیں۔ نیز تالیف قلب
68
غلام آزاد کرانے
69
قرضداروں
70
کے قرض اتارنے، اللہ کی راہ
71
میں اور مسافروں
72
پر خرچ کرنے کے لئے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف
73
سے فریضہ ہے۔ اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے
65
یہاں صدقات سے مراد صرف فرضی صدقہ یا زکوٰۃ ہے جیسا کہ بعد کے الفاظ فریضۃ من اللہ سے واضح ہوتا ہے۔ صدقات کی تقسیم پر بھی منافقوں کو اعتراض ہوا تھا تو اس کی تقسیم کی مدات اللہ تعالیٰ نے خود ہی مقرر فرما دیں تاکہ ان کی تقسیم میں اعتراض کی گنجائش ہی نہ رہے یا کم سے کم رہ جائے۔ اور یہ کل آٹھ مدات ہیں جو درج ذیل ہیں۔
66
زکوٰۃ کے حقدار مسکین اور فقیر میں فرق :۔ فقیر اور مسکین کی تعریف اور ان میں فرق سے متعلق علماء کے کئی اقوال ہیں۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں جو ایک یا دو لقموں کے لیے لوگوں کے پاس چکر لگائے کہ اسے ایک یا دو کھجوریں دے کر لوٹا دیا جائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے بےنیاز کر دے۔ نہ اس کا حال کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے صدقہ دیا جائے، نہ وہ لوگوں سے کھڑا ہو کر سوال کرتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ (لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ
273
ۧ)
2
۔ البقرة :
273
) مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب المسکین الذی لایجد غنی ) گویا احتیاج کے لحاظ سے فقیر اور مسکین میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اصل فرق یہ ہے کہ فقیر وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرتا پھرے اور مسکین وہ ہے جو احتیاج کے باوجود قانع رہے اور سوال کرنے سے پرہیز کرے جسے ہمارے ہاں سفید پوش کہا جاتا ہے۔
67
محنت کرنے والے کو معاوضہ لے لینا چاہئے :۔ یعنی زکوٰۃ کو وصول کرنے والے، تقسیم کرنے والے اور ان کا حساب کتاب رکھنے والا سارا عملہ اموال زکوٰۃ سے معاوضہ یا تنخواہ لینے کا حقدار ہے۔ اس عملہ میں سے اگر کوئی شخص خود مالدار ہو تو بھی معاوضہ یا تنخواہ کا حقدار ہے اور اسے یہ معاوضہ لینا ہی چاہیے خواہ بعد میں صدقہ کر دے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا عبداللہ بن السعدی کہتے ہیں کہ دور فاروقی میں میں سیدنا عمر کے پاس آیا۔ انہوں نے مجھے کہا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگوں کے کام کرتے ہو اور جب تمہیں اس کی اجرت دی جائے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو ؟ میں نے کہا ہاں انہوں نے پوچھا پھر اس سے تمہارا کیا مطلب ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس گھوڑے ہیں غلام ہیں اور مال بھی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنی اجرت مسلمانوں پر صدقہ کر دوں۔ سیدنا عمر نے فرمایا ایسا نہ کرو، کیونکہ میں نے بھی یہی ارادہ کیا تھا جو تم نے کیا ہے۔ رسول اللہ مجھے کچھ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے۔ تو آپ نے فرمایا یہ لے لو، اس سے مالدار بنو، پھر صدقہ کرو، اگر تمہارے پاس مال اس طرح آئے کہ تم اس کے حریص نہ ہو اور نہ ہی اس کا سوال کرنے والے ہو تو اس کو لے لیا کرو اور اگر نہ ملے تو اس کی فکر نہ کیا کرو۔ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب رزق الحاکم والعاملین علیھا) (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اباحۃ الاخذ لمن اعطی من غیر مسئلۃ ) خ زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم حکومت کی ذمہ داری :۔ ضمناً اس جملہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم اسلامی حکومت کا فریضہ ہے اور انفرادی طور پر زکوٰۃ صرف اس صورت میں ادا کرنا چاہیے جب ایسا نظام زکوٰۃ قائم نہ ہو اور اگر کوئی خاندان، برادری، یا قوم اپنے اہتمام میں اجتماعی طور پر فراہمی زکوٰۃ اور اس کی تقسیم کا کام کرلے تو یہ انفرادی ادائیگی سے بہتر ہے۔
68
تالیف کے حقدار :۔ اس مدد سے ان کافروں کو بھی مال دیا جاسکتا ہے جو اسلام دشمنی میں پیش پیش ہوں اگر یہ توقع ہو کہ مال کے لالچ سے وہ اپنی حرکتیں چھوڑ کر اسلام کی طرف مائل ہوجائیں گے اور ان نو مسلموں کو بھی جو نئے مسلم معاشرہ میں ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوں اور انہیں اپنی معاشی حالت سنبھلنے تک مستقل وظیفہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ چناچہ سیدنا علی نے یمن سے آپ کو جو سونا بھیجا تھا وہ آپ نے ایسے ہی کافروں میں تقسیم کیا تھا۔ سیدنا عمر نے اپنے دور خلافت میں یہ کہہ کر اس مد کو حذف کردیا تھا کہ اب اسلام غالب آچکا ہے اور اب اس مد کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے لہذا عندالضرورت اس مد کو بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
69
اجتماعی غلامی کا حال :۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی غلام کو خرید کر آزاد کردیا جائے۔ دوسری کسی مکاتب غلام کی بقایا رقم ادا کر کے اسے آزاد کرایا جائے۔ آج کل انفرادی غلامی کا دور گزر چکا ہے اور اس کے بجائے اجتماعی غلامی رائج ہوگئی ہے۔ بعض مالدار ممالک نے تنگ دست ممالک کو معاشی طور پر اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ لہذا آج علماء کو یہ غور کرنا چاہیے کہ ایسے غلام ممالک کی رہائی کے لیے ممکنہ صورتیں کیا ہونی چاہئیں ؟ مثلاً آج کل پاکستان بیرونی ممالک اور بالخصوص امریکہ کے سودی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور مسلمان تاجر اتنے مالدار بھی ہیں کہ وہ حکومت سے تعاون کریں تو وہ یہ قرضہ اتار بھی سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں یہ یقین دہانی کرا دی جائے کہ ان کی زکوٰۃ کا یہ مصرف درست ہے اور حکومت اسلامی نظام کے نفاذ میں مخلص ہے۔
70
مقروض کے قرضہ کی ادائیگی :۔ یہاں قرض سے مراد خانگی ضروریات کے قرضے ہیں تجارتی اور کاروباری قرضے نہیں اور قرض دار سے مراد ایسا مقروض ہے کہ اگر اس کے مال سے سارا قرض ادا کردیا جائے تو اس کے پاس نقد نصاب سے کم مال رہتا ہو۔ یہ مقروض خواہ برسر روزگار ہو یا بےروزگار ہو اور خواہ وہ فقیر ہو یا غنی ہو۔ اس مد سے اس کا قرض ادا کیا جاسکتا ہے۔
71
یعنی ہر ایسا کام جس میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ اور یہ میدان بڑا وسیع ہے۔ اکثر ائمہ سلف کے اقوال کے مطابق اس کا بہترین مصرف جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے اور قتال فی سبیل اللہ اسی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ بالفاظ دیگر اس مد سے دینی مدارس کا قیام اور اس کے اخراجات پورے کیے جاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر وہ ادارہ بھی اس مصرف میں شامل ہے جو زبانی یا تحریری طور پر دینی خدمات سر انجام دے رہا ہے یا اسلام کا دفاع کر رہا ہو۔ بعض علماء کے نزدیک اس مد سے مساجد کی تعمیر و مرمت پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے۔
72
مسافر خواہ وہ فقیر ہو یا غنی ہو۔ اگر دوران سفر اسے ایسی ضرورت پیش آجائے تو اس کی بھی مدد کی جاسکتی ہے مثلاً فی الواقع کسی کی جیب کٹ جائے یا مال چوری ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔
73
محتاج زکوٰۃ کے زیادہ حقدار ہیں :۔ واضح رہے کہ زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم کے لحاظ سے معاشرہ کو تین طبقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک اغنیاء کا طبقہ جن سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی دوسرا فقراء و مساکین یا مقروضوں وغیرہ کا طبقہ۔ جسے زکوٰۃ دی جائے گی اور تیسرا متوسط طبقہ جس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی تاہم وہ زکوٰۃ کا مستحق بھی قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس کے آمدنی کے ذرائع اتنے ہوتے ہیں جس سے اس کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں۔ غنی کی عام تعریف یہ ہے کہ جس شخص کے پاس محل نصاب اشیاء میں سے کوئی چیز بقدر نصاب یا اس سے زائد موجود ہو وہ غنی ہے اور جس کے پاس کوئی چیز بھی بقدر نصاب موجود نہ ہو وہ فقیر یا مسکین ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ زکوٰۃ جس مقام کے اغنیاء سے وصول کی جائے گی اس کے سب سے زیادہ حقدار اسی مقام کے فقراء وغیرہ ہوتے ہیں۔ اگر کچھ رقم بچ جائے تو وہ مرکزی بیت المال میں جمع ہوگی۔ اس سلسلہ میں اب درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ سیدنا ابراہیم بن عطاء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمران ابن الحصین کو زکوٰۃ کی وصولی پر روانہ کیا گیا۔ وہ خالی ہاتھ واپس آگئے تو ان سے پوچھا گیا کہ زکوٰۃ کا مال کہاں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا مجھے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کے واسطے روانہ کیا گیا۔ میں نے جن لوگوں سے لینا چاہیے تھا لیا اور جہاں دینا چاہیے تھا دے دیا۔ (ابن ماجہ۔ ابو اب الصدقہ) آپ سے پوچھا گیا کہ غنی کی حد کیا ہے ؟ فرمایا پچاس درہم یا اس کے برابر مالیت کا سونا (یا نقدی) (نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب حد الغنیٰ ) اور درہم چاندی کا ساڑھے چار ماشہ کا سکہ تھا اور پچاس درھم کا عوض ڈھائی دینار ہے جبکہ دینار ساڑھے تین ماشے سونے کا سکہ تھا۔ یعنی جس کے پاس تقریباً
9
ماشہ سونا ہو وہ غنی ہے۔ اور ایسا شخص متوسط طبقہ میں شمار ہوگا۔ علاوہ ازیں درج ذیل قسم کے لوگ زکوٰۃ کے حقدار نہیں ہوتے :۔ الف۔ رسول اللہ کی ذات اور آپ کے رشتہ دار جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔
1
۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ حسن بن علی ؓ نے زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ آپ نے فرمایا چھی چھی تاکہ حسن اس کھجور کو منہ سے نکال پھینکیں۔ پھر فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الصدقۃ للنبی ) لیکن اگر صدقہ کی کوئی چیز کسی مستحق کے واسطہ سے ہدیہ آل نبی کو مل جائے تو وہ جائز ہوگی۔
2
۔ ام عطیہ کہتی ہیں کہ آپ نے سیدنا عائشہ ؓ کے ہاں جا کر پوچھا کچھ کھانے کو ہے ؟ انہوں نے کہا کچھ نہیں صرف بکری کا وہ گوشت ہے جو آپ نے نُسَیْبَہ کو خیرات دی تھی اور نُسَیْبَہ نے تحفہ کے طور پر ہمیں بھیجا ہے آپ نے فرمایا لاؤ۔ خیرات تو اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکی ہے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اذا تحولت الصدقۃ)
3
۔ سیدنا انس کہتے ہیں کہ آپ کے پاس وہ گوشت لایا گیا جو بریرہ کو خیرات میں ملا تھا۔ آپ نے فرمایا بریرہ پر یہ صدقہ تھا اور ہمارے لیے یہ تحفہ ہے۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً ) ب۔ جو شخص تندرست، طاقتور اور کمانے کے قابل ہو وہ زکوٰۃ کا حقدار نہیں ہوتا :۔
1
۔ ایک دفعہ آپ صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر صدقہ طلب کیا۔ آپ نے فرمایا صدقات کی تقسیم میں اللہ کسی نبی یا کسی دوسرے کی تقسیم پر راضی نہیں ہوا۔ اس نے خود فیصلہ کیا اور اسے آٹھ اجزاء میں تقسیم کردیا۔ اگر تو بھی ان کے ذیل میں آتا ہے تو میں تمہیں دے دیتا ہوں۔ (ابو داؤد۔ نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ باب مسئلۃ القوی المکتسب)
2
۔ حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ دو ہٹے کٹے آدمی آئے اور صدقہ کا سوال کیا۔ آپ نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ پھر نظر نیچے کرلی اور فرمایا اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن صدقہ میں غنی اور قوی کا کوئی حصہ نہیں۔ جو کما سکتا ہو۔ (ابو داؤد۔ نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب مسئلۃ القوی المکتسب ) ج۔ جو افراد کسی کے زیر کفالت ہوں۔ وہ انہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ مثلاً بیوی اور اولاد کو۔ اسی طرح اگر باپ بوڑھا ہوچکا ہو اور اس کی کفالت اس کے بیٹے کے ذمہ ہو تو بیٹا باپ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں صاحب مال ہوں اور میرا والد محتاج ہے۔ آپ نے فرمایا تو اور تیرا مال سب کچھ تیرے باپ کا ہے۔ اولاد ہی تمہاری پاکیزہ کمائی ہوتی ہے اور اپنی اولاد کی کمائی سے تم کھا سکتے ہو۔ (ابو داؤد۔ ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب النفقات وحق المملوک) اس لحاظ سے عورت اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے کیونکہ خاوند بیوی کے زیر کفالت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ سیدہ زینب (زوجہ عبداللہ بن مسعود ؓ آپ کے ہاں آئیں۔ وہاں ایک اور انصاری عورت کو آپ کے دروازے پر پایا۔ وہ بھی وہی مسئلہ پوچھنے آئی تھی جو میں پوچھنا چاہتی تھی۔ اتنے میں بلال ؓ نکلے۔ ہم نے ان سے کہا کہ رسول اللہ سے پوچھو کہ اگر میں اپنے خاوند اور چند یتیموں کو جو میری پرورش میں ہیں خیرات کر دوں تو کیا یہ درست ہوگا ؟ ہم نے بلال ؓ سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ بلال ؓ نے آپ سے عرض کیا کہ دو عورتیں یہ مسئلہ پوچھ رہی ہیں۔ آپ نے پوچھا کونسی عورتیں ؟ بلال ؓ نے کہا زینب نامی ہیں۔ آپ نے پوچھا کونسی زینب ؟ بلال ؓ نے کہا عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی آپ نے فرمایا ہاں یہ صدقہ درست ہے اور اس کے لیے دوہرا اجر ہے ایک قرابت کا دوسرے صدقہ کا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الزکوٰۃ علی الزوج والا یتام فی الحجر)
Top