Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - At-Tawba : 7
كَیْفَ یَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِیْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
كَيْفَ
: کیونکر
يَكُوْنُ
: ہو
لِلْمُشْرِكِيْنَ
: مشرکوں کے لیے
عَهْدٌ
: عہد
عِنْدَ اللّٰهِ
: اللہ کے پاس
وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖٓ
: اس کے رسول کے پاس
اِلَّا
: سوائے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
عٰهَدْتُّمْ
: تم نے عہد کیا
عِنْدَ
: پاس
الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
: مسجد حرام
فَمَا
: سو جب تک
اسْتَقَامُوْا
: وہ قائم رہیں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
فَاسْتَقِيْمُوْا
: تو تم قائم رہو
لَهُمْ
: ان کے لیے
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُتَّقِيْنَ
: پرہیزگار (جمع)
اللہ اور اس کے رسول کے ہاں مشرکوں کا عہد کیسے (معتبر) ہوسکتا ہے۔ بجز ان لوگوں کے جنہوں نے مسجد حرام کے پاس تم سے عہد کیا تھا۔ تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے
7
رہو۔ اللہ تعالیٰ یقینا پرہیزگاروں کو پسند کرتا ہے
7
صلح حدیبیہ اور حلیف قبائل :۔ ان سے مراد وہ تین مشرک قبائل ہیں بنو خزاعہ، بنو کنانہ اور بنو ضمرہ۔ جو صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں کے حلیف بنے تھے۔ اور جب اعلان برأت ہوا تو ان سے معاہدہ کی میعاد میں ابھی نو مہینے باقی تھے۔ اس سورة کی آیت نمبر
4
کے مطابق اس مدت میں ان سے تعرض نہیں کیا گیا۔ نیز اس آیت کی رو سے اس بات کی بھی اجازت دے دی گئی کہ کوئی مشرک جب تک اپنے معاہدہ پر قائم رہتا ہے اس وقت تو تمہیں بہرحال قائم رہنا چاہیے اور اگر وہ اپنا عہد توڑتا ہے تو اس وقت تمہیں بھی مخالفانہ کارروائی کرنے کی اجازت ہے۔ بالفاظ دیگر معاہدہ کی خلاف ورزی کی ابتداء تمہاری طرف سے بہرصورت نہیں ہونی چاہیے اور اس کی مثال معاہدہ یا صلح حدیبیہ ہے جس کی رو سے طے پایا تھا کہ آئندہ مسلمان اور قریش مکہ آپس میں دس سال تک جنگ نہیں کریں گے اور جو قبائل مسلمانوں کے حلیف ہیں قریش ان پر بھی کوئی زیادتی نہ کریں گے اور جو قریش کے حلیف ہیں ان پر مسلمان کوئی زیادتی نہ کریں گے۔ اسی معاہدہ کی رو سے بنو خزاعہ تو مسلمانوں کے حلیف بنے اور بنو بکر قریش کے۔ اور بنو خزاعہ اور بنو بکر کی آپس میں لگتی تھی۔ صلح حدیبیہ کو ابھی سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ بنو خزاعہ اور بنو بکر کی آپس میں لڑائی ہوگئی اور قریش نے معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو بکر کو ہتھیار بھی مہیا کیے اور کھل کر ان کا ساتھ بھی دیا۔ اور بنو خزاعہ کی خوب پٹائی کی۔ بنو خزاعہ کا ایک وفد عمر و بن سالم کی سر کردگی میں مدینہ گیا۔ آپ سے فریاد کی اور کہا کہ قریش نے عہد توڑ ڈالا۔ آپ نے فرمایا : اچھا میں اب تمہاری مدد کرنے میں حق بجانب ہوں گا۔ قریش کی عہد شکنی دراصل مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ تاہم آپ نے قریش کے سامنے تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک قبول کرلی جائے۔
1
۔ بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے۔
2
۔ قریش بنو بکر کی حمائت سے دستبردار ہوجائیں۔
3
۔ اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہوگیا۔ قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ فوراً بھڑک اٹھا اور ان میں سے ایک شخص فرط بن عامر نے قریش کی طرف سے اعلان کردیا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے۔ جب قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کے ہوش ٹھکانے آگئے اور ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے مدینہ بھیجا گیا۔ ابو سفیان نے مدینہ پہنچ کر تجدید معاہدہ کی درخواست کی جس کا آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر علی الترتیب سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سیدنا عمر حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ ؓ تک سفارش کے لیے التجا کی۔ لیکن جب سب نے جواب دے دیا تو مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر اس نے یک طرفہ ہی اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی۔ لیکن اس نے آپ کی پیش کردہ شرائط میں سے کسی کا جواب نہیں دیا تھا۔ لہذا اب اصلاح کی کوئی گنجائش نہ رہی تھی اور قریش کی یہی بدعہدی بالآخر مکہ پر چڑھائی کا سبب بن گئی۔ قریش اور بنو بکر کی بدعہدی مکہ پر مسلمانوں کی چڑھائی :۔ ایفائے عہد اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہے اور بدعہدی ایک کبیرہ گناہ ہے جسے احادیث میں منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ یہ عہد خواہ اللہ سے ہو یا کسی بندے سے، لین دین سے تعلق رکھتا ہو یا نکاح و طلاق سے یا صلح و جنگ سے۔ ایک شخص کا دوسرے سے ہو یا کسی قوم سے ہو یا کسی قوم کا دوسری قوم سے ہو بہرحال اسے پورا کرنا واجب ہے خواہ اس سے کتناہی نقصان پہنچ جانے کا خطرہ ہو۔ اس سورة میں چونکہ صلح و جنگ سے متعلق ہی قوانین بیان کیے جا رہے ہیں لہذا ہم یہی پہلو سامنے رکھتے ہیں۔ رسول اللہ سے دشمن زندگی بھر بدعہدی اور غداری کرتے رہے لیکن آپ نے جوابی کارروائی کے طور پر کبھی بھی نقض عہد کو برداشت نہیں کیا۔ یہود کی بدعہدی تو زبان زد ہے انہوں نے میثاق مدینہ کی ہر ہر بار خلاف ورزی کی اور ان کی غداریوں اور بدعہدیوں کا کئی مقام پر ذکر ہوچکا ہے۔ دوسرے قبائل نے بھی بدعہدی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد قریش مکہ نے بنو بکر کی حمایت کر کے معاہدہ حدیبیہ کی صریح خلاف ورزی کی۔ بنو ثعلبہ نے تبلیغ اسلام کی خاطر آپ سے دس آدمی طلب کیے تو آپ نے چوٹی کے دس عالمان دین ان کے ساتھ روانہ کردیئے اور انہوں نے غداری سے انہیں شہید کردیا۔ یہی کام بنو عکل و قارہ نے کیا انہوں نے تبلیغ اسلام کے نام پر دس عالمان دین کو غداری سے شہید کردیا اور بئر معونہ کا واقعہ تو بڑا ہی دردناک ہے جس میں ستر ممتاز قاری اور عالمان دین کے مقابلہ میں قبیلہ رعل و ذکوان کی جمعیت لا کر انہیں شہید کردیا۔ جس کا رسول اللہ کو انتہائی صدمہ ہوا۔ علاوہ ازیں اس واقعہ کے بعد دشمن قبائل کے مسلمانوں کے خلاف حوصلے اور بھی بڑھ گئے اور تھوڑی مدت تک اسلام دشمن قومیں اور قبائل جنگ احزاب کی شکل میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ اب ان کے مقابلہ میں آپ کے ایفائے عہد کے واقعات بھی سن لیجئے کہ کیسے نازک موقعوں پر آپ نے محض ایفائے عہد کی خاطر اپنے ہر طرح کے مفادات کو قربان کردیا :۔
1
۔ سیدنا حذیفہ بن یمان اور ان کے والد یمان، جن کی کنیت ابو حُسَیْل تھی۔ غزوہ بدر میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے مگر راستہ میں کفار قریش کے ہتھے چڑھ گئے انہوں نے ان کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ جنگ میں عدم شرکت کا وعدہ نہ لے لیا۔ پھر یہ دونوں غزوہ بدر میں رسول اللہ سے ملے اور یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ نے انہیں فرمایا کہ مدینے چلے جاؤ اور جنگ کی اجازت نہیں دی اور فرمایا ہم ہر حال میں وعدہ وفا کریں گے۔ ہم کو اللہ کی مدد درکار ہے۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ والسیر۔ باب الوفاء بالعھد) حالانکہ اس موقعہ پر آپ کو ایک ایک آدمی کی شدید ضرورت تھی۔
2
۔ بئرمعونہ کے حادثہ میں
70
میں سے ایک شخص عمرو بن امیہ بچ نکلے لیکن بعد میں گرفتار ہوگئے۔ عامر بن طفیل جس نے ان قاریوں کو شہید کروایا تھا۔ نے عمرو بن امیہ کو دیکھ کر کہا میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی لہذا میں یہ منت پوری کرنے کی خاطر عمر و بن امیہ کو آزاد کرتا ہوں۔ عمرو بن امیہ وہاں سے چلے تو راستہ میں اسی قاتل قبیلہ کے دو افراد مل گئے جنہیں آپ نے قتل کردیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ رسول اللہ ان دو آدمیوں کو امان دے چکے تھے جس کا عمرو بن امیہ کو علم نہ تھا۔ اب حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ بنو عامر کی غداری کی بنا پر ان سے جتنی بھی سختی برتی جاسکے برتی جائے مگر آپ نے اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کا خون بہا ادا کردیا (البدایہ والنہایہ ج
4
ص
73
)
3
۔ صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جا چکی تھیں مگر ابھی اس تحریری معاہدہ پر دستخط ہونا باقی تھے کہ قریش کے نمائندہ صلح سہیل بن عمرو کے بیٹے ابو جندل، جو اسلام لانے کی وجہ سے قید میں ڈال دیئے گئے تھے، قید سے فرار ہو کر پابہ زنجیر مسلمانوں کے پاس پہنچے اور اپنے زخم دکھا دکھا کر رسول اللہ سے التجا کر رہے تھے کہ اب مجھے واپس نہ کیجئے۔ سب صحابہ کرام ؓ کے دل بھر آئے۔ آپ خود بھی رحمتہ للعالمین تھے۔ لیکن آپ نے محض ایفائے عہد کی خاطر اسے واپس کردیا اور کہا : ابو جندل صبر کرو۔ اللہ تمہارے لیے کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اب صلح کی شرط ہوچکی اور ہم بد عہدی نہیں کرسکتے۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط علی الجھاد والمصالحۃ)
4
۔ ایسے ہی مظلوم مسلمانوں میں سے ایک عتبہ بن اسید (ابو بصیر) تھے جو قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مکہ سے فرار ہو کر مدینہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ شرائط صلح حدیبیہ کے مطابق قریش کے دو آدمی بھی ابو بصیر کو لینے مدینہ پہنچ گئے۔ آپ نے ایفائے عہد کی خاطر ابو بصیر کو کافروں کے حوالہ کردیا اسے بھی آپ نے صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا جلد ہی اللہ تعالیٰ کوئی راہ نکال دے گا (اس واقعہ کی تفصیل سورة فتح کے ابتدائی حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیے۔ )
5
۔ آپ کے ایفائے عہد کے واقعات اس کثرت سے ہیں کہ دشمن بھی آپ کی اس خوبی کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ جنگ احزاب کے موقعہ پر جب یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد اس کو عہد شکنی پر مجبور کیا تو کعب نے اسے کہا اِنِّیْ لَمْ اَرَمِنْ مُحَمَّدٍ اِلَّا صِدْقًا وَّ وَفَآئً (میں نے ہمیشہ محمد ﷺ کو سچا اور عہد کو پورا کرنے والا دیکھا ہے) (طبری ج
1
۔ غزوہ خندق) پھر یہ خوبی آپ کی ذات تک ہی محدود نہ تھی بلکہ آپ کے جانشینوں نے بھی عہد کی پوری پوری پابندی کر کے مثال قائم کردی۔
6
۔ دور فاروقی میں شام کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ سیدنا ابو عبیدہ نے دمشق کا محاصرہ کر رکھا تھا سیدنا خالد بن ولید نے چند جانبازوں کے ہمراہ فصیل پر کمند لگائی اور اوپر چڑھ کر قلعہ کے دروازے کھول دیئے۔ سیدنا خالد کی فوج فاتحانہ انداز میں قلعہ میں داخل ہوگئی۔ اہل دمشق نے دوسری جانب سیدنا ابو عبیدہ سے مصالحت کی درخواست کردی۔ جو انہوں نے نئی صورت حال سے لاعلمی کی بنا پر قبول کرلی۔ جب انہیں اصل صورت حال کا علم ہوا تو انہیں بہت محسوس ہوا مگر ایفائے عہد کی خاطر ابو عبیدہ نے مفتوحہ علاقہ اہل دمشق کو واپس دے دیا۔ (تاریخ اسلام حمید الدین ص
138
)
7
۔ شام کی فتوحات کے دوران عیسائیوں نے صلح کے لیے اپنے قاصد جارج کو سیدنا ابو عبیدہ کے پاس بھیجا۔ وہ شام کے وقت پہنچا اور نماز باجماعت کا پرکیف منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ بعد میں سیدنا عیسیٰ کے متعلق چند سوال کیے جن کا سیدنا ابو عبیدہ نے شافی جواب دیا نتیجتاً جارج مسلمان ہوگیا اور چاہا کہ اب وہ عیسائیوں کے پاس واپس نہ جائے۔ لیکن ابو عبیدہ نے محض اس خیال سے کہ رومیوں کو مسلمانوں کی طرف سے بد عہدی کا گمان پیدا نہ ہو۔ جارج کو مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے جو سفیر جائے گا ایک دفعہ ضرور اس کے ہمراہ وہاں جاؤ اور اصل صورت حال سے انہیں خود مطلع کرنے کے بعد واپس آجانا۔ (الفاروق ص
196
) اب ذرا موجودہ دور کی مہذب اور متمدن اقوام اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے معاہدات پر بھی نظر ڈال لیجئے۔ جو ظاہری معاہدات کے علاوہ زیر زمین خفیہ معاہدات کا بھی ایک جال بچھا رکھتے ہیں اور ایسی منافقت اور بدعہدی کا ایک خوبصورت نام ڈپلومیسی (DIPLOMACY) تجویز کر رکھا ہے اس منافقت کا جو منظر جنگ عظیم اول میں سامنے آیا وہ کچھ اس طرح ہے :۔ اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا اور ہنگری تھے جنہیں جارح یا ظالم کا لقب دیا گیا۔ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس اور اٹلی تھے جو اپنے آپ کو حق پرست، انسانی حقوق کے علمبردار اور مظلوموں کے مددگار کہتے تھے۔ ان حق پرستوں نے عربوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں یقین دلایا کہ وہ عربوں کو ترکی کے تسلط سے آزاد کرائیں گے اور جنگ کے بعد انہیں آزاد اور خود مختار حکومت بنانے کا موقعہ دیں گے تاکہ وہ اپنے شعائر اسلام آزادی سے بجا لاسکیں۔ اس طرح یہ حق پرست دراصل ملت اسلامیہ کے مرکز ترکی کی خلافت کا گلا گھونٹنا چاہتے تھے۔ چناچہ اس سلسلہ میں
1917
ء میں جنرل ماؤ نے برسر عام اعلان کر کے عربوں سے کیے ہوئے معاہدہ کی تصدیق بھی کردی کہ وہ اس ملک میں فاتحانہ حیثیت سے نہیں بلکہ آزادی دینے کے لیے آئے ہیں۔ لیکن اصل حقیقت اس کے علاوہ کچھ اور تھی۔ فرانس اور برطانیہ نے
1915
ء اور
1916
ء میں آپس میں خفیہ معاہدات کیے
1916
ء کے خفیہ معاہدہ، جو سائیکس پیکو کے نام سے مشہور ہے، کی رو سے یہ طے ہوا تھا کہ جنگ کے بعد :۔ i عراق کلیتہً برطانیہ کے قبضہ میں رہے گا۔ ii شام پورے کا پورا فرانسیسی سلطنت کے دائرہ میں رکھا جائے گا۔ iii فلسطین ایک بین الملی علاقہ ہوگا اور حیفہ اپنی بندرگاہ سمیت برطانیہ کے زیر اثر ہوگا۔ iv باقی رہے وہ ممالک جو عراق اور سواحل شام کے درمیان واقع ہیں تو انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ایک حصہ برطانیہ کے زیر اثر رہے گا اور دوسرا فرانس کے۔ برطانیہ اور فرانس چونکہ اپنے دوسرے حق پرست ساتھیوں سے بھی زیادہ حق پرست تھے۔ اس لیے انہوں نے اس معاہدہ کو اپنے ساتھیوں سے بھی چھپائے رکھا اور ظاہری طور پر یہی اعلان کرتے رہے کہ ہم عربوں کو پوری آزادی دلانے آئے ہیں۔ پھر جب عربوں نے دیکھا کہ شام کے سواحل پر فرانسیسی فوجیں مسلط ہیں اور عراق اور فلسطین میں انگریزی فوجیں پہنچ گئی ہیں تب جا کر انہیں معلوم ہوا کہ انکے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے اور یہ چال محض ترکوں اور عربوں میں نفاق ڈال کر ملک چھیننے کے لیے چلی گئی تھی۔ عربوں کو جب ہوش آیا تو انہوں نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے اور فیصل بن حسین کے تحت ایک وطنی حکومت بھی قائم کرلی مگر اب پانی سر سے اوپر ہوچکا تھا۔ برطانیہ نے نہایت عیاری سے عربوں میں سے ہی اپنی مرضی کے چند آدمی منتخب کر کے ان کی حکومت بنادی جو کلیتہً برطانیہ کے زیر اثر تھی۔ اس طرح انگریز بہادر نے اپنے سب مفادات بھی حاصل کرلیے اور یہ کہنے کے قابل بھی ہوگیا کہ اس نے عربوں سے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔ پھر ان خفیہ معاہدات کا حلقہ صرف عربوں تک ہی محدود نہ تھا۔ اتحادی آپس میں بھی ہوا کا رخ دیکھ کر ایسے معاہدات کرلیتے تھے جنہیں دوسرے حق پرستوں سے بھی صیغہ راز میں رکھا جاتا تھا۔ بین الاقوامی ڈاکہ زنی کی یہ سکیم صیغہ راز میں ہی رہ جاتی۔ اگر دوران جنگ روس انقلاب کا شکار نہ ہوجاتا۔ اپریل
1917
ء میں جب ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور بالشویکوں کی حکومت قائم ہوگئی تو انہوں نے سرمایہ دار حکومتوں کے گھناؤنے کردار کو بےنقاب کرنے کے لیے وہ تمام خفیہ معاہدات شائع کردیئے جو انہیں زار کی حکومت کے نہاں خانوں سے دستیاب ہوئے تھے۔ ان معاہدات کی کوئی دفعہ ایسی نہیں تھی جس میں مخالف سلطنتوں کے کسی نہ کسی علاقہ یا ان کی اقتصادی ثروت کے کسی نہ کسی وسیلے کو ان حق پرستوں نے آپس میں بانٹنے کا فیصلہ نہ کر رکھا ہو۔
Top