Tafseer-e-Majidi - Yunus : 5
اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُ١ؕ اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَهُمْ١ۙ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ١ۚ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّھُمْ : بیشک وہ يَثْنُوْنَ : دوہرے کرتے ہیں صُدُوْرَھُمْ : اپنے سینے لِيَسْتَخْفُوْا : تاکہ چھپالیں مِنْهُ : اس سے اَلَا : یاد رکھو حِيْنَ : جب يَسْتَغْشُوْنَ : پہنتے ہیں ثِيَابَھُمْ : اپنے کپڑے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا يُسِرُّوْنَ : جو وہ چھپاتے ہیں وَمَا يُعْلِنُوْنَ : اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : دلوں کے بھید
سنو، سنو ! وہ لوگ اپنے سینوں کو دہرا کئے دیتے ہیں تاکہ (اپنی باتیں) اللہ سے چھپا سکیں سنو، سنو ! وہ لوگ جس وقت اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں (اس وقت بھی) وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں، اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں بیشک وہ (ان کے) دلوں کے اندر (کی باتوں) سے خوب واقف ہے،6۔
6۔ منافق اور کافر اللہ کی اس صفت عالم الغیبی کو برابر بھولے رہتے ہیں، ورنہ ان کی ہمت بھی سازشوں کی نہ پڑے۔ قرآن بار بار اسی کا استحضار چاہتا ہے۔ (آیت) ” انھم۔۔۔ منہ “۔ رسول اللہ ﷺ کو بھی ہر مزاج وطبیعت اور ہر ذہنیت کے مخالفین سے سابقہ پڑا تھا۔ ایک گروہ ان ” عقلمندوں “ میں ایسا بھی تھا کہ جب یہ لوگ آپس میں چپکے چپکے اسلام اور رسول اسلام کے خلاف سازشیں کرتے سو ان سرگوشیوں کے وقت افراط سعی اخفاء میں اس اس طرح سمٹ سمٹ کر رہتے کہ گویا اپنے سینوں کو دہرا کئے ڈالتے ہیں۔ اور کپڑا اپنے اوپر الگ ڈالتے چلے جاتے ! قرآن مجید نے ان کی اسی ہیئت کذائی کو بےنقاب کردیا اور ان پر گرفت یہ کی کہ کیا تمہاری یہ راز داری حق تعالیٰ تعالیٰ عالم الغیب کے مقابلہ میں بھی چل جائے گی ! روی ان طائفۃ من المشرکین قالوا اذا اغلقنا ابوابنا وارسلنا ستورنا واستغشینا ثیابنا وثنینا صدورنا علی عدواۃ محمد فیکف یعلم بنا (کبیر) صوفیہ عارفین نے کہا ہے کہ انسان اگر اس آیت کا مراقبہ عادۃ جاری رکھے۔ اور اپنی خلوت ومجلس اور خطرۂ قلب و حدیث نفس میں اللہ تعالیٰ کو حاضر وناظر یقین کرے اور یہ سمجھے رہے کہ وہ دیکھ رہا ہے تو گناہ کی جرات ہی شاید نہ ہوسکے۔ تقوی کی اصل بنیاد یہی اللہ کی عالم الغیبی کا استحضار ہے :۔
Top