Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 143
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں بنایا اُمَّةً : امت وَّسَطًا : معتدل لِّتَكُوْنُوْا : تاکہ تم ہو شُهَدَآءَ : گواہ عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ وَيَكُوْنَ : اور ہو الرَّسُوْلُ : رسول عَلَيْكُمْ : تم پر شَهِيْدًا : گواہ وَمَا جَعَلْنَا : اور نہیں مقرر کیا ہم نے الْقِبْلَةَ : قبلہ الَّتِىْ : وہ کس كُنْتَ : آپ تھے عَلَيْهَآ : اس پر اِلَّا : مگر لِنَعْلَمَ : تاکہ ہم معلوم کرلیں مَنْ : کون يَّتَّبِعُ : پیروی کرتا ہے الرَّسُوْلَ : رسول مِمَّنْ : اس سے جو يَّنْقَلِبُ : پھرجاتا ہے عَلٰي : پر عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیاں وَاِنْ : اور بیشک كَانَتْ : یہ تھی لَكَبِيْرَةً : بھاری بات اِلَّا : مگر عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جنہیں ھَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ وَمَا كَانَ : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ لِيُضِيْعَ : کہ وہ ضائع کرے اِيْمَانَكُمْ : تمہارا ایمان اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِالنَّاسِ : لوگوں کے ساتھ لَرَءُوْفٌ : بڑا شفیق رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک "امت وسط" بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت، مگر اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا، جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے
(وَکَذٰلِکَ : اور اس طرح ) (جَعَلْنٰـکُمْ : ہم نے بنایا تم لوگوں کو) (اُمَّۃً وَّسَطًا : ایک معتدل امت) ( لِّــتَــکُوْنُوْا : تاکہ تم لوگ ہو جائو) (شُھَدَآئَ : گواہ) (عَلَی النَّاسِ : لوگوں پر) ( وَیَکُوْنَ : اور تاکہ ہوجائیں) (الرَّسُوْلُ : یہ رسول ﷺ ) (عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر) (شَھِیْدًا : گواہ) (وَمَا جَعَلْنَا : اور ہم نے نہیں بنایا) (الْقِبْلَۃَ : اس قبلہ کو) (الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا : جس پر آپ ﷺ تھے) (اِلاَّ : سوائے اس کے) (لِنَعْلَمَ : تاکہ ہم جان لیں کہ ) (مَنْ : کون) (یَّـتَّبِعُ : پیروی کرتا ہے) (الرَّسُوْلَ : ان رسول ﷺ کی) (مِمَّنْ : اس میں سے جو ) (یَّنْقَلِبُ : پلٹ جاتا ہے) (عَلٰی عَقِبَیْہِ : اپنی دونوں ایڑیوں پر) (وَاِنْ : اور یقینا) (کَانَتْ : وہ تھی ) (لَــکَبِیْرَۃً : بھاری) (اِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ : سوائے ان لوگوں پر جنہیں) (ھَدَی اللّٰہُ : ہدایت دی اللہ نے) (وَمَا کَانَ اللّٰہُ : اور اللہ نہیں ہے ) (لِیُضِیْعَ : کہ وہ ضائع کرے ) (اِیْمَانَــکُمْ : تم لوگوں کے ایمان کو) (اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ : یقینا اللہ لوگوں پر) ( لَرَئُ وْفٌ: بےانتہا نرمی کرنے والا) ( رَّحِیْمٌ : ہر حال میں رحم کرنے والا ہے) و س ط وَسَطَ (ض) وَسْطًا : کسی کے درمیان میں بیٹھنا ‘ درمیان میں ہونا۔ { فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا ۔ } (العٰدیٰت) ” پھر وہ سب (یعنی گھوڑوں کے رسالے ) اس کے درمیان میں بیٹھے (یعنی گھس گئے جم کر) “ وَسُطَ (ک) وَسَاطَۃً : شریف ہونا ‘ افضل ہونا۔ اَوْسَطُ (مؤنث وُسْطٰی) : افعل التفضیل ہے۔ زیادہ درمیان یعنی ٹھیک یا بالکل درمیان۔ { فَکَفَّارَتُہٗ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ } (المائدۃ :89) ” تو اس کا کفارہ ہے کھانا کھلانا دس مسکینوں کو ‘ اس کے اوسط سے جو تم لوگ کھلاتے ہو اپنے گھر والوں کو۔ “{ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰیق } (البقرۃ :238) ” تم لوگ نگہبان رہو نمازوں پر اور درمیانی نماز پر۔ “ وَسَطٌ : معتدل ‘ متوازن ‘ یعنی افراط و تفریط سے پاک ( آیت زیر مطالعہ) یہ مذکر ‘ مؤنث ‘ واحد ‘ جمع سب کے لیے آتا ہے۔ ع ق ب عَقَبَ (ض ‘ ن) عَقْبًا : پیر کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی مارنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے : (1) پیچھے آنا۔ (2) جانشین ہونا۔ (3) ایک چیز جانے کے بعد اس کا دوسرا رُخ سامنے آنا ‘ جیسے رات کے بعد صبح کا آنا ‘ یعنی نتیجہ ظاہر ہونا ‘ بدلہ سامنے آنا۔ عُقْبٰی : افعل التفضیل کا مؤنث ہے (فُعْلٰی کے وزن پر) ۔ زیادہ یا سب سے پیچھے ‘ یعنی آخر میں ظاہر ہونے والا نتیجہ یا بدلہ۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ زیادہ تر دو معانی میں آتا ہے۔ (1) آخری۔ (2) بدلہ۔ { وَیَدْرَئُ ‘ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰئِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ ۔ } (الرعد) ” اور وہ لوگ دفع کرتے ہیں بھلائی سے برائی کو ‘ ان لوگوں کے لیے ہے آخری گھر۔ “ { تِلْکَ عُقْبَی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا ق وَعُقْبَی الْــکٰفِرِیْنَ النَّارُ ۔ } (الرعد) ” یہ بدلہ ہے ان لوگوں کا جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا ‘ اور کافروں کا بدلہ ہے آگ۔ “ عَقِبٌ ج اَعْقَابٌ (اسم ذات ) : کسی چیز کا پچھلا حصہ۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے : (1) ایڑی۔ (2) بیٹے ‘ پوتے وغیرہ۔ { فَلَمَّا تَرَآئَ ‘ تِ الْفِئَتٰنِ نَـکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ } (الانفال :48) ” پھر جب آمنے سامنے ہوئیں دونوں فوجیں تو وہ پسپا ہوا اپنی دونوں ایڑیوں پر۔ “{ وَجَعَلَھَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ ۔ } (الزخرف) ” اور اس نے بنایا اس کو ایک باقی رہنے والا فرمان اپنی اولاد میں ‘ شاید وہ لوگ رجوع کریں۔ “ { یَرُدُّوْکُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ } (آل عمران :149) ” تو وہ پھیر دیں گے تم لوگوں کو تمہاری ایڑیوں پر۔ “ عُقْبٌ (اسم ذات) : نتیجہ ‘ انجام۔ { ھُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ عُقْبًا ۔ } (الکہف) ” وہ بہتر ہے بطور بدلے کے اور بہتر ہے بطور انجام کے۔ “ عَاقِبَۃٌ (اسم ذات) : بدلہ (خواہ اچھا ہو یا برا) { فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ۔ } (آل عمران) ” پس تم لوگ دیکھو کیسا تھا جھٹلانے والوں کا بدلہ۔ “ { اِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیْنَ ۔ } (ھود) ” بیشک بدلہ ہے تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے۔ “ { وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ ۔ } (الحج) ” اور اللہ کی ہی ملکیت ہے تمام کاموں کا بدلہ۔ “ عَقَبَۃٌ : دشوار گزار گھاٹی۔ { فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ ۔ } (البلد) ” تو اس نے عبور نہیں کیا گھاٹی کو۔ “ اَعْقَبَ (افعال) اِعْقَابًا : کسی چیز کے بدلے میں کچھ دینا ‘ بدلہ دینا۔ { فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ } (التوبۃ :77) ” تو اس نے بدلے میں دیا ان کو ایک نفاق ان کے دلوں میں۔ “ عَقَّبَ (تفعیل) تَعْقِیْبًا : پیچھے ہونا ‘ پیچھے ڈالنا۔ { وَلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ ط } (النمل :10) ” وہ چل دیا پیٹھ پھیرتے ہوئے اور پیچھے ہوا ہی نہیں (یعنی مڑ کر نہ دیکھا) “ مُعَقِّبٌ (اسم الفاعل ) : پیچھے ہونے والا ‘ پیچھے ڈالنے والا ۔{ وَاللّٰہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ ط } (الرعد :41) ” اور اللہ حکم کرتا ہے ‘ کوئی پیچھے ڈالنے والا نہیں ہے اس کے حکم کو۔ “ { لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ } (الرعد :11) ” اس کے ہیں (یعنی اس کی ملکیت ہیں) پیچھے رہنے والے (یعنی پہرے دار) اس کے (یعنی انسان کے ) آگے سے اور اس کے پیچھے سے۔ “ عَاقَبَ (مفاعلہ) مُعَاقَــبَۃً : ایک دوسرے کے پیچھے پڑنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے۔ جیسے : (1) کسی کے ساتھ زیادتی کرنا۔ (2) کسی زیادتی کا بدلہ دینا۔ (3) کسی زیادتی پر گرفت کرنا ‘ سزا دینا۔ { وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖط } (النحل :126) ” اور اگر تم لوگ بدلہ لو ‘ تو بدلہ لو اس کے جیسا تمہارے ساتھ زیادتی کی گئی جتنی۔ “ { وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ } (البقرۃ) ” اور تم لوگ جان لو کہ اللہ سزا دینے کا سخت ہے۔ “ عَاقِبْ (فعل امر) : تُو بدلہ دے ‘ سزا دے۔ دیکھیے سورة النحل کی آیت 126 ۔ ض ی ع ضَاعَ (ض) ضِیَاعًا : کسی چیز کا تلف ہونا ‘ بےکار ہونا۔ اَضَاعَ (افعال) اِضَاعَۃً : کسی چیز کا تلف کرنا ‘ ضائع کرنا۔ { اَ نِّیْ لَا اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ } (آل عمران :195) ” کہ میں ضائع نہیں کرتا کسی عمل کرنے والے کے عمل کو تم میں سے۔ “ ر ء رَئَ فَ (ف) رَأْ فَۃً : نرم دل ہونا ‘ شفیق ہونا۔ رَئُ وْ فٌ: فعول کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بہت نرمی کرنے والا ‘ بہت شفقت کرنے والا۔ { وَاللّٰہُ رَئُ وْ فٌ بِالْعِبَادِ ۔ } (البقرۃ) ” اور اللہ بہت نرمی کرنے والا ہے بندوں سے “۔ رَاْفَــۃٌ (اسم ذات) : نرمی ‘ شفقت ۔ { وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً ط } (الحدید :27) ” اور ہم نے بنائی (یعنی رکھی) ان کے دلوں میں جنہوں نے پیروی کی ان (علیہ السلام) کی ‘ نرمی اور رحمت۔ “ ترکیب : ” وَکَذٰلِکَ “ واواستیناف ‘ کاف حرفِ جر اسم مجرور ‘ جار مجرور متعلق محذوف کے ساتھ بوضع نصب میں ہے ‘ مصدر محذوف کی صفت ہے اور تقدیر عبارت یوں ہے : وَمِثْلَ ھِدَایَتِنَا مَنْ نَشَائُ جَعَلْنَاکُمْ ۔ ” جَعَلْنَا “ کا مفعول اوّل ” کُمْ “ کی ضمیر ہے ‘ جبکہ مرکب توصیفی ” اُمَّۃً وَّسَطًا “ مفعولِ ثانی ہے۔ ” لِتَــکُوْنُــوْا “ پر ” لامِ کَیْ “ داخل ہوا ہے اس لیے ” تَــکُوْنُوْنَ “ کا نون اعرابی گرا ہوا ہے۔ اس کا اسم ” واو “ ہے۔ ” شُھَدَائَ “ اس کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور ” عَلَی النَّاسِ “ متعلق خبر ہے۔ ” یَـکُوْنُ “ کی نصب ” لام کَیْ “ کی وجہ سے ہے جو ” لِتَــکُوْنُوْا “ پر آچکا ہے اور اس کا اسم ” اَلرَّسُوْلُ “ ہے ‘ جس پر لام تعریف داخل ہوا ہے ۔ ” شَھِیْدًا “ اس کی خبر ہے اور ” عَلَیْکُمْ “ متعلق خبر ہے۔ ” وَمَا جَعَلْنَا “ کا مفعولِ اوّل ” اَلْقِبْلَۃَ “ ہے جس پر لام تعریف داخل ہوا ہے جبکہ مفعولِ ثانی محذوف ہے۔ ” اَلَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا “ کا پورا فقرہ محذوف مفعول ثانی کی صفت ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہے : ” وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ ‘ اَلْقِبْلَۃَ الَّتِیْ …“ یا ” اَلَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا “ مذکور ” الْقِبْلَۃَ “ کی صفت ہے اور مفعول ثانی محذوف ہے ۔ تقدیر عبارت یوں ہے :” وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا قِبْلَۃً “۔ ” مَا جَعَلْنَا “ کا مفعول ثانی ” عَلَیْھَا “ کے بعد آنا تھا جسے محذوف کیا گیا ہے اور یہ ” قِبْلَۃَ “ ہوسکتا ہے۔ ” اَلَّتِیْ “ کے ساتھ ” کُنْتَ “ کا اسم ” ت “ ضمیر بارز ہے ‘ اس کی خبر محذوف ہے جو کہ ” قَائِمًا “ ہوسکتی ہے ۔ ” عَقِبَیْہِ “ دراصل ” عَقِبٌ“ کا تثنیہ ” عَقِبَانِ “ تھا۔ اس پر ” عَلٰی “ داخل ہوا تو حالت جر میں یہ ” عَقِبَیْنِ “ ہوگیا ‘ پھر مضاف ہونے کی وجہ سے اس کا نون اعرابی گرگیا ‘ جبکہ ” ہِ “ کی ضمیر اس کا مضاف الیہ ہے۔ ” وَاِنْ “ میں ” وائو “ حالیہ ہے۔ ” اِنْ “ دراصل ” اِنَّ “ ہے۔ اس کا اسم محذوف ہے۔ اَیْ والحال انھا۔ ” کَانَتْ “ کی ضمیر ” ھِیَ “ اس کا اسم ہے۔ اور یہ ” التَّحْوِیْلَۃَ “ (تحویل) کے لیے ہے جبکہ ” لَــکَبِیْرَۃٌ“ میں لام فارقہ ہے اور یہ ” کَانَتْ “ کی خبر ہے۔ ” وَمَا کَانَ اللّٰہُ “ میں آفاقی صداقت کا بیان ہے اس لیے ” کَانَ “ کا ترجمہ حال میں ہوگا۔ ” قِبْلَۃَ “ : کعبہ کا رُخ جو نماز میں سامنے ہوتا ہے۔ سامنے کا رخ۔ محاورہ ہے : ” اَیْنَ قِبْلَتُکَ “ تمہارا رُخ کدھر کو ہے ؟ جو چیز مُنہ کے سامنے ہو اس کو بھی قبلہ کہتے ہیں۔ نماز پڑھنے والے کے منہ کے سامنے کعبہ ہوتا ہے اس لیے کعبہ کو بھی قبلہ کہتے ہیں۔ امام راغب نے ” مفردات “ میں اور پروفیسر عبدالرئوف مصری نے ” معجم القرآن “ میں لکھا ہے کہ اصل لغت میں سامنے والے (مقابل) آدمی کی حالت کو قبلہ کہا جاتا تھا ‘ مجازاً سامنے والے آدمی اور سامنے کی جہت میں اس کا استعمال ہونے لگا ۔ لیکن سورة یونس آیت 87 { وَاجْعَلُوْا بُیُوْتَــکُمْ قِبْلَۃً } سے مراد بقول سیوطی اور خازن نماز کا مقام ہے۔ فرعون نے چونکہ نماز پڑھنے کی ممانعت کردی تھی اس لیے بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ گھروں کو ہی مقام نماز بنا لو اور چھپ کر گھروں میں ہی نماز پڑھا کرو۔ بعض غیر معتبر مفسرینِ لغاتِ قرآن نے اس آیت میں قِبْلَۃً کا ترجمہ کیا ہے آمنے سامنے ‘ یعنی اپنے مکان آمنے سامنے بنائو تاکہ ضرورت کے وقت باہم شریک ہو سکو۔ لیکن یہ تشریح سیاق قرآنی کے علاوہ قدماء مفسرین کی تصریحات کے بھی خلاف ہے۔ نہ لغت اس کی اجازت دیتی ہے نہ قرینہ اس کا مقتضی ہے ‘ اور نہ ہی واقعہ اس کی تائید کرتا ہے۔ نوٹ (1) :” اِنَّ “ کی تخفیف (دوسرا نون حذف کر کے) جائز ہے۔ تخفیف کے بعد اگر اس کے بعد کوئی فعل آجائے تو اس کو مہملہ بنانا واجب ہے۔ مثلاً ارشاد ربانی ہے : { وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ ۔ } (الشعرائ) اور اگر اس کے بعد اسم آجائے تو اس کو عاملہ قرار دینا قلیل اور مہملہ قرار دینا غالب و اکثر ہے۔ مہملہ کی مثال ” اِنْ اَنْتَ لَصَادِقٌ“ اور عاملہ کی مثال ” اِنْ زَیْدًا مُنْطَلِقٌ“ ہے۔ (1) تخفیف کے بعد اگر اس کو مہملہ قرار دیا جائے تو ” اِنْ “ نافیہ اور اس کے درمیان فرق کرنے کے لیے اس کی خبر پر لام مفتوح لگانا واجب ہے۔ اس لام کا نام لام فارقہ ہے ۔ (2) ” اِنْ “ مخففہ کے بعد صرف افعال ناسخہ لحکم المبتدأ والخبر (افعال ناقصہ اور افعال مقاربہ) آئیں گے۔ پھر اکثر و بیشتر ان افعال کے فعل ماضی ہی کا استعمال ہوتا ہے اگرچہ فعل مضارع کا استعمال بھی جائز ہے۔ مثلاً : (1) { اِنْ کَانَتْ لَــکَبِیْرَۃً اِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ } (آیت زیر مطالعہ) (2) { تَاللّٰہِ اِنْ کِدْتَّ لَتُرْدِیْنِ ۔ }(الصّٰفّٰت) (3){ وَاِنْ وَّجَدْنَا اَکْثَرَھُمْ لَفٰسِقِیْنَ ۔ } (الاعراف) مضارع کی مثال : { وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ ۔ } (الشعرائ) نوٹ (2) : ” کَانَ “ نافیہ ( مَا کان) کے بعد مضارع پر اگر ” لام “ آئے تو وہ ” لامِ جحود “ کہلاتا ہے ” لامِ کَیْ “ نہیں۔ نوٹ (3) : وحی کی ایک قسم وہ ہے جسے قرآن مجید میں لکھ دیا گیا۔ اسے ” وحی ٔ ‘ متلو “ یعنی تلاوت کی ہوئی وحی کہتے ہیں۔ وحی کی دوسری قسم وہ ہے جسے قرآن مجید میں نہیں لکھا گیا ‘ لیکن نبی اکرم ﷺ کے اپنے اقوال و اعمال اسی وحی کی بناء پر تھے۔ اسے ” وحی ٔ غیر متلو “ کہتے ہیں اور اس کا ثبوت ہمیں قرآن مجید سے ملتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ ایسے ہی مقامات میں سے ایک ہے۔ مدینہ منورہ میں تقریباً سولہ یا سترہ مہینے حضور ﷺ نے بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھائی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس کو قبلہ ہم نے بنایا تھا ‘ لیکن قرآن مجید میں یہ حکم درج نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ کا یہ عمل وحی ٔغیر متلو کے تحت تھا۔
Top