Al-Qurtubi - Al-Baqara : 147
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۠   ۧ
الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّکَ : آپ کا رب فَلَا تَكُونَنَّ : پس آپ نہ ہوجائیں مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
(اے پیغمبر ﷺ یہ نیا قبلہ) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا
آیت نمبر 147 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الحق من ربک، الحق سے مراد استقبال کعبہ ہے۔ نہ وہ جو یہود نے آپ کو اپنا قبلہ بنایا۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے الحق کو منصوب پڑھا، یعلمون کی وجہ سے یعنی وہ حق کو جانتے ہیں اور الزم الحق کی تقدیر پر بھی اس کی نصب صحیح ہے اور رفع مبتدا ہونے کے اعتبار سے ہے یا مبتدا کے اضمار کی بنا پر ہے۔ تقدیر عبارت ہوگی ھو الحق، یا فعل کے اضمار پر ہوگا یعنی جاء الحق۔۔۔ نحاس نے کہا : سورة الانبیاء میں الحق فھم معرضون۔ ہم کسی کو نہیں جانتے کہ اسنے منصوب کے علاوہ پڑھا ہو۔ ان کے درمیان فرق یہ ہے کہ سورة بقرہ میں آیت کے آغاز میں جبکہ سورة انبیاء میں ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلا تکونن من الممترین۔۔ الممترین کا معنی ہے : شک کرنے والے۔ خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے اور مراد امت ہے، کہا جاتا ہے : امتری فلان فی کذا جب کسی کو کبھی یقین حاصل ہو اور کبھی شک لاحق ہو، اور وہ ان میں سے ہر ایک کو دوسرے سے دور کرے، اس سے المراء (جھگڑنا) ہے، ہر شخص اپنے مقابل کے قول میں شک کرتا ہے۔ الامتراء فی الشیء کسی شی میں شک کرنا، اسی طرح التماری ہے۔ طبری نے استشہاد کے طور پر اعشی کا قول ذکر کیا ہے کہ ممترین کا معنی شاکون ہے۔ تدر علی اسؤق الممترین رکضا اذا ما السراب ارحجن ابن عطیہ نے کہا : اس میں اسے وہم ہوا ہے کیونکہ ابو عبیدہ وغیرہ نے کہا : الممترون۔ شعر میں جو استعمال ہوا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے پیروں کے ساتھ گھوڑوں کو تیز چلاتے ہیں۔ شعر میں شک کے معنی میں نہیں ہے جیسا کہ طبری نے کہا ہے۔ میں کہتا ہوں : اس میں شک کا معنی موجود ہے کیونکہ مالک اپنے گھوڑے کو آزماتا ہے کہ یہ چلنے کی عادت پر قائم ہے یا نہیں تاکہ اسے کوئی مصیبت لاحق نہ ہو، یا یہ ابتدا میں خریدنے کے وقت ہوتا ہے وہ اسے چلاتا ہے تاکہ اس کے چلنے کی مقدار جان لے۔ جوہری نے کہا مریت الفرس جب تو کوڑے وغیرہ کے ساتھ اس کا چلنا نکالے۔ اسم المریۃ ہے یہ میم کے کسرہ کے ساتھ ہے کبھی میم کو ضمہ دیا جاتا ہے، مریت الناقۃ مریا جب تو اس کی کھیری کو مس کرے تاکہ دودھ دو ہے، امرث جب اس کا دودھ اتر آئے۔ اسم المریۃ ہے میم کے کسرہ کے ساتھ اور میم کو ضمہ دینا غلط ہے۔ المریۃ کا معنی شک ہے کبھی اس کو ضمہ دیا جاتا ہے یہ ضمہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔
Top