Urwatul-Wusqaa - Yunus : 107
وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ١ۚ وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖ١ؕ یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر يَّمْسَسْكَ : پہنچائے تجھے اللّٰهُ : اللہ بِضُرٍّ : کوئی نقصان فَلَا كَاشِفَ : تو نہیں ہٹانے والا لَهٗٓ : اس کا اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا وَاِنْ : اور اگر يُّرِدْكَ : تیرا چاہے بِخَيْرٍ : بھلا فَلَا رَآدَّ : تو نہیں کوئی روکنے والا لِفَضْلِهٖ : اس کے فضل کو يُصِيْبُ : وہ پہنچاتا ہے بِهٖ : اس کو مَنْ : جسے يَّشَآءُ : چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَھُوَ : اور وہ الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
اور اگر اللہ کے حکم سے تجھے دکھ پہنچے تو جان لے کہ اسے دور کرنے والا کوئی نہیں مگر اسی کی ذات اگر وہ تجھے کسی طرح کی خوبی بخشنی چاہے تو جان لے کہ کوئی نہیں جو اس کا فضل روک سکے ، وہ بخشنے والا رحمت والا ہے
اگر تجھ کو دکھ پہنچے تو اس کے سوا اس کو دور کرنے والا نہیں کوئی نہیں 144 ؎ یہ اس شخص کے بارے میں ہے جو اللہ تعالیٰ سے استغاثہ اور فریاد کرے ۔ اس ارشاد الٰہی میں بتایا گیا ہے کہ جس خوش نصیب پر رب کریم احسانات کرنا چاہے تو ان احسانات کو کوئی شخص روک نہیں سکتا جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود پکارے جس کے لئے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے ، ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے “۔ ( المومنون 23 : 117) اللہ تعالیٰ تنہا بادشاہ اور قہار ہے وہی بخشش اعلیٰ کا مالک اور وہی اس کا روک دینے والا ہے۔ وہی نفع و نقصان پر قدرت رکھتا ہے اور جب یہ سب کچھ اس کے قبضہ وقدرت میں ہے تو اسی کو پکارنا چاہئے اور اسی کی عبادت کرنا چاہئے کیونکہ عبادت اسی کی ہوتی ہے جو مالک وقہار بھی ہو اور نفع و نقصان پہنچانے والا بھی ہو اور یہ صفات اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی میں نہیں پائی جاتیں سو ثابت ہوا کہ وہی ایک اللہ ہے جو عبادت کا سزا وار ہے وہ نہیں جو سرے سے نفع و نقصان ہی نہیں پہنچا سکتا ۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : ” ان سے کہو جب حقیقت یہ ہے تو تمہارا کیا خیال ہے اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا تمہاری یہ دیویاں ( قبریں اور اللہ کی بنائی ہوئی بیٹیاں) جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو مجھے اس کے پہنچائے ہوئے نقصان سے بچا لیں گی ؟ یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کی روک سکیں گی ، پس ان سے کہہ دو کہ میرے لئے اللہ ہی کافی ہے بھروسہ کرنے والے اس پر بھروسہ کرتے ہیں “۔ ( الزمر 39 : 38) اور ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : ” اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کیلئے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں اور وہ زبردست اور حکیم ہے “۔ ( الفاطر 35 : 2) یہ ہیں وہ دلائل وبراہین جو اللہ تعالیٰ نے الوہیت اور ربوبیت کے بارے میں فقط اپنی ہی خصوصیت کیلئے بیان کئے ہیں لیکن عباد قبور و مشاہدہ قرآن کریم کے ان دلائل کے بالکل برعکس عقیدہ رکھتے ہیں انہوں نے جب منفعت اور رفع سکارہ کے سلسلہ میں اصحاب القبور کو اللہ کا ساجھی اور شریک بنا رکھا ہے وہ ان سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ اصحاب القبور ہی ہماری مشکلات کو رفع کریں گے۔ وہ پوری توجہ ، اعتناء و التفات ، رغبت ورھبت اور تضرع وزاری سے ان سے سوال کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت میں ان کو شریک گردانتے ہیں ۔ یاد رہے کہ ان کا یہ شرک کفار عرب کے شرک سے بھی زیادہ سنگین اور زیادہ بڑھ کر ہے وہ تو صرف یہ کہتے تھے کہ : ” ہم ان کو صرف تقرب الی اللہ کا وسیلہ سمجھ کر پوجتے تھے “ (الزمر 39 : 3) اور وہ کہتے تھے کہ ھولاء شف آ ونا عند اللہ ” یہ صرف اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں “ ۔ مشرکین عرب تو ان کو صرف اس لئے پکارتے تھے کہ وہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ ثابت ہوں گے اور ان کے سفارشی بنیں گے وہ اپنے تلبیہ میں بھی یوں کہا کرتے تھے کہ لبیک اللھم لبک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملیکہ وما ملک ” اے اللہ میں حاضر ہوں ۔ میں حاضر ہوں ۔ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں سوا ان کے جو تیری ہی ملک ہے اور وہ خود کسی چیز کا مالک نہیں “۔ لیکن آج کل مشرکین یعنی اہل قبور اور اہل مشاہدہ کے بارے میں جو عقیدہ رکھتے ہیں وہ تو مشرکین عرب سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ انہوں نے تو تصرفات اور تدبیر امور میں بھی اہل قبو کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیا ہے اور انہی کو اپنی امیدوں ، تمنائوں کا مرکز قرار دے رکھا ہے اور انہی کو ملجا و مادی سمجھتے ہیں ۔ سبحان اللہ عما یشرکون۔
Top