Urwatul-Wusqaa - Yunus : 21
وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَا١ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا١ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ
وَاِذَآ : اور جب اَذَقْنَا : ہم چکھائیں النَّاسَ : لوگ رَحْمَةً : رحمت مِّنْۢ بَعْدِ : بعد ضَرَّآءَ : تکلیف مَسَّتْھُمْ : انہیں پہنچی اِذَا : اس وقت لَھُمْ : ان کے لیے مَّكْرٌ : حیلہ فِيْٓ : میں اٰيَاتِنَا : ہماری آیات قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَسْرَعُ : سب سے جلد مَكْرًا : خفیہ تدبیر اِنَّ : بیشک رُسُلَنَا : ہمارے فرشتے يَكْتُبُوْنَ : وہ لکھتے ہیں مَا تَمْكُرُوْنَ : جو تم حیلہ سازی کرتے ہو
اور جب ہم لوگوں کو درد دکھ کے بعد اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو فوراً ہماری نشانیوں میں باریک باریک [ حیلے نکالنا شروع کردیتے ہیں تم کہہ دو اللہ ان باریکیوں میں سب سے زیادہ تیز ہے اس کے فرشتے تمہاری یہ ساری مکاریاں قلمبند کر رہے ہیں
اللہ تعالیٰ جب اپنی رحمت کا مزہ لوگوں کو چکھاتا ہے تو وہ کٹ حجتیاں کرنے لگتے ہیں۔ ۔ 34 اس آیت میں منکرین کی مریض ذہنیت کا بیان کیا جا رہا ہے کہ ان کی تسکین تو آپ کے کسی معجزہ ، کسی نشان اور کسی آیت سے بھی نصیب نہیں ہوگی ، کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ تسکین حاصل کرنا تو ان کے ارداہ ہی میں نہیں ہے ان کا مقصد تو محض ٹانگ اڑانا ہے آج ایک بات کریں گے اگر وہ پوری ہو گیتو کل دوسری بات پیش کریں گے کیونکہ انہوں نے کچھ نہ کچھ کہتے رہنے کی ٹھان لی ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہماری بات بڑی رہے اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے اللہ کی ذات سے کون ہے جس کی بات بڑی ہو سکے۔ یہ لوگ چھوٹی چھوٹی اور مخفی سے مخفی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے اللہ کی ذات سے کون ہے جس کی بات بڑی ہو سکے۔ یہ لوگ چھوٹی چھوٹی اور مخفی سے مخفی تدبیریں سوچتے اور بال کی کھال اتارتے رہنے کے عادی مجرم ہیں اور اس معاملہ سے یہ لوگ باز نہیں آسکتے۔ مکہ والوں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ لوگ حق کو قبول کرنا چاہتے تو اس طرح کی کج بحثیاں کیوں کرتے ؟ ابھی کل کی تو بات ہے کہ یہ لوگ قحط میں مبتلا ہوئے اور کیا وہ اس وقت اپنے ان معبود ان سے مایوس نہیں ہوئے تھے ؟ ابیہ لوگ ان کی سفارشوں سیباتیں کرتے ہیں اس وقت ان کے یہ کرتے دھرتے کہاں تھے جن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ فلاں آستانے کی نیاز تو تیر بہدف ہے اور فلاں درگاہ و خانقاہ پر چڑھاوا چڑھانے کی دیر ہے کہ مراد بر آجائے گی۔ تم نے دیکھ لیا کہ ان نام نہاد خدائوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سارے اختیارات کا مالک صرف اور صرف اللہ ہے اس وجہ سے تم آخر اللہ ہی سے دعائیں مانگنے لگے تھے کیا یہ کافی نشانی نہ تھی کہ تمہیں اس تعلیم کے برحق ہونے کا یقین آجاتا ؟ مگر اس واضح نشانی کو دیکھ کر تم نے کیا کیا ؟ جونہی کہ قحط کا دور ہوا اور باران رحمت نے تمہاری مصیبت کا خاتمہ کردیا لیکن تم نے اس کے دور ہور جانے کے بعد وہی کچھ شروع کردیا جو پہلے کرتے چلے آ رہے تھے اور اس درخاست کا تم نے خوب مذاق اڑایا۔ اے مشرکین مکہ اچھی طرح سمجھ لو کہ ہم تمہاری ساری مکاریاں لکھ رہے ہیں ۔ 35 خوب سن رکھو کہ اللہ کی تدبیر یہی ہے کہ اگر تم حقیقت کو نہیں مانتے اور اس کے مطابق اپنا رویہ درست نہیں کرتے تو وہ تمہیں اس باغیانہ روش پرچلتے رہنے کی چھوٹ دے دے گا ، تم کو جیتے جی اپنے رزق اور اپنی نعمتوں سے نوازتا رہے گا جس سے تمہارا نشہ زندگانی یونہی تمہیں مست کئے رکھے گا اور اس مستی کے دوران میں جو کچھ تم کرو گے وہ سب اللہ کے فرشتے خاموشی کے ساتھ لکھتے رہیں گے حتیٰ کہ اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے کرتوتوں کا حساب دینے کے لئے حاضر کردیئے جائو گے۔ اللہ کا مکر کیا ہے ؟ اس کی پوری وضاحت ہم عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سوئہ آل عمران کے حاشیہ 125 میں کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ فرمائیں۔ فرشتوں کے لکھنے سے جو ات مفہوم کرانا مقصود ہے وہ فقط یہ ہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ عند اللہ محفوظ ہے اور تم کو اپنے کئے کا جواب دینا ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو یقینا ہو کر رہے گا۔ مادی وسائل کی فراوانی اللہ رب العزت سے کس طرح غفلت کا باعث بنتی ہے ؟ ۔ 36 فرمایا جب تک دنیوی علائق و اسباب کا کوئی ادنیٰ سا سہارا بھی باقی رہتا ہے ، انسان کا وجدان بیدار نہیں ہوتا اور ایک تنکے کا بھروسہ بھی اس کے لئے کافی ہوتا ہے کہ وہ اللہ رب العزت کی طرف سے غافل ہوجائے لیکن جونہی اسباب و علائق کے رشتے ٹوٹے اور یاس و قنوط کی کامل حالت طاری ہوئی اور اس نے دیکھا کہ اب دنیا کا کوئی ہاتھ اسے بچا نہیں سکتا تو اچانک اس کا سویا ہوا وجدان بیدار ہوجاتا ہے اور خدا پرستی کا جوب اپنے سارے اخلاص کے ساتھ اس کے اندر بھر آتا ہے۔ اس وقت وہ رب کریم کے سوا اور کسی کو نہیں دیکھتا۔ اس وقت اس کے سارے رشتے ، سارے بھروسے اور ساری ہستیاں یک قلم نابود ہوجاتی ہیں وہ بےاختیار اللہ کو پکارنے لگتا ہے اور اس کی یہ پکار اس کے دل کے ایک ایک رو و ریشہ کی پکار ہوتی ہے۔ لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ کیا اس کی یہ حالت قائم رہتی ہے ؟ نہیں جونہی اس کی ڈوبتی کشتی اچھلی اور امیدو مراد کی گم شدہ صورت واپس آئی پھر وہی اس کی غفلتیں ہوتی ہیں اور وہی سرکشیاں ! اگر تم غور کرو گے تو اس حالت کی مثالیں خود اپنی ہی زنگدی میں تمہیں مل جائیں گی۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ تم بیمار ہوئے اور اطباء نے تم کو جواب دے دیا ؟ یا کسی دوسری مصیبت میں پڑے اور دنیا کے سارے سہارے ہاتھ سے نکل گئے ؟ اگر ایسا ہوا ہے تو یاد کرو کہ اس وقت تمہاری خدا پرستی اور خدا پرستی کے اخلاص کا کیا حال تھا ؟
Top