Urwatul-Wusqaa - Yunus : 39
بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِهٖ وَ لَمَّا یَاْتِهِمْ تَاْوِیْلُهٗ١ؕ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِیْنَ
بَلْ : بلکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِمَا : وہ جو لَمْ يُحِيْطُوْا : نہیں قابو پایا بِعِلْمِهٖ : اس کے علم پر وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَاْتِهِمْ : ان کے پاس آئی تَاْوِيْلُهٗ : اس کی حقیقت كَذٰلِكَ : اسی طرح كَذَّبَ : جھٹلایا الَّذِيْنَ : ان لوگوں نے مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَانْظُرْ : پس آپ دیکھیں كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
نہیں ، یہ بات نہیں ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ جس بات پر یہ اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے اور جس بات کا نتیجہ ابھی پیش نہیں آیا اس کے جھٹلانے پر آمادہ ہوگئے ٹھیک اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں تو دیکھو ظلم کرنے والوں کا کیسا کچھ انجام ہوچکا ہے
انہوں نے کس سچ کو جھٹلانے کی ہمت کرلی کیا وہ ایسا کرسکیں گے ؟ ۔ 61 مثل ہے کہ سورج پر تھوکنے والا دراصل اپنے ہی منہ پر تھوکتا ہے ، کیوں ؟ اس لئے کہ اس کا تھوک سورج تک کیسے پہنچے گا ؟ انہوں نے یہ تکذیب کس نسبت سے شروع کردی غور کرو کہت کذیب یا تو اس بنیاد پر کی جاسکتی تھی کہ ان لوگوں کو اس کتاب کا ایک جعلی کتاب ہونا تحقیقی طور پر معلوم ہوتا ہے یا پھر وہ اس بناء پر معقول ہو سکتی تھی کہ جو حقیقتیں اس میں بیان کی گئی ہیں اور جو خبریں اس میں دی گئی ہیں وہ غلط ثابت ہوجائیں لیکن ان دونوں وجود تکذیب میں سے کوئی وجہ بھی یہاں موجود نہیں۔ نہ کوئی شخص آجتک یہ کہہ سکا کہ وہ ازروئے علم جانتا یہ کہ یہ کتاب گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کی گئی ہے اور نہ ہی کسی نے پردہ غیب کے پیچھے جھانک کر یہ دیکھ لیا ہے کہ واقعی بہت سے رب موجود ہیں اور یہ کتاب خواہ مخواہ ایک وحدت الٰہی کی خبر سنا رہی ہے یا فی الواقع اللہ ، فرشتوں اور وحی وغیرہ کی کوئی حقیقت نہیں اور اس کتاب میں خواہ مخواہ یہ افسانہ بنا لیا گیا ہے نہ کسی نے مر کر یہ دیکھ لیا ہے کہ دوسری زندگی اور اس کے حساب کتاب اور جزاء و سزا کی ساری خبریں جو اس کتاب میں دی گئی ہیں غلط ہیں لیکن اس کے باوجود نرے شک و گمان کی بنیاد پر اس شان سے اس تکذیب کی جا رہی ہے کہ گویا علمی طور پر اس کے جعلی اور غلط ہونے کی تحقیق کرلی گئی ہے۔ آج یہ جھٹلا رہے ہیں تو کل پہلے بھی جھٹلا چکے ہیں جو انجام ان کا ہوا وہی ان کا بھی ہو گا ۔ 62 آج یہ جھٹلانے والے کوئی نئے نہیں ان سے پہلے بھی جھٹلانے والوں نے انبیائے کرام کی لائی ہوئی ہدایت کو جھٹلایا اور فرصت کے ان لمحوں کو پہلی قوموں نے بھی ضائع کردیا ، انہوں نے بھی اپنے انبیائے کرام کی دعوتوں کو قبول نہ کیا ، ان کے روشن اور معجز نما کلام کو دیکھا اور دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں وہ نادانی سے تباہ کن نزول کو ہی نہیں کی صداقت کی کسوٹی سمجھتے رہے اور فرصت کے لمحوں کو برباد کردیا اور پھر جب وہ عذاب آیا اور اس نے انہیں پیس کر رکھ دیا اس وقت ان کا اشک ندامت بہانا اور فریاد کرنا ان کے کسی کام نہ آسکا ۔ اب اگر مشرکین عرب بھی نزول عذاب ہی کے انتظار میں ہیں تو اللہ کے سامنے کوئی مشکل بات ہے کہ جو آج تک ہوتی آئی ہے اب نہیں ہو سکے گی۔ کیوں نہیں ان کا انجام بی یقینا عبرتناک ہوگا اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی۔ ہاں ! ابھی موقع ہے اگر وہ توبہ کرلیں اور ہمارے رسول محمد ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کو دل و جان سے قبول کرلیں تو یہی ایک راستہ ہے کہ وہ عذاب الٰہی سے محفوظ رہ سکیں۔ زیرنظر پر ایک بار دوبارہ بغور نظر ڈال لو اور یہ جو فرمایا گیا کہ بل کذبوا بما لم یحیطوا بعلمہ ولما یانھم تاویلہ ” نہیں یہ بات نہیں ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ جس بات پر یہ اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے اور جس بات کا نتیجہ ابھی پیش نہیں آیا اس کے جھٹلانے پر آمادہ ہوگئے۔ “ اس میں دو باتوں کی مزیدتشریح کردینا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کریم نے بیک وقت دو باتوں کی مذمت کی ہے اس کی بھی کہ بغیر علم و بصیرت کے کوئی بات مان لی جائے اور اس کی بھی کہ محض عدم ادراک کی بناء پر کوئی بات جھٹلا دی جائے جیسا کہ پیچھے آیت 26 میں گزر چکا کہ منکرین حق علم و یقین کی روشنی سے محروم ہیں۔ ان کا سرمایہ اعتقاد محض ظن و گمان ہے اور پھر اس آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ہو جس بات کا اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے اس کے جھٹلانے پر آمادہ ہوگئے۔ اگرچہ بہ ظاہر وہ باتیں الگ الگ معلوم ہوتی ہیں لیکن فی الحقیبقت ایک ہی بات ہے اور دونوں کی بنیاد اس ایک اصل عظیم پر ہے کہ نہ تو ظن و گمان کی بنائ پر تصدیق کرنی چاہئے نہ ظنہ و گمان کی بنا پر تکذیب کرنی چاہئے اور پھر جو کچھ کرنا چاہئے علم و بصیرت کی بناء پر کرنا چاہئے۔ منکرین قرآن نے کونسی بات جھٹلائی تھی ؟ یہ کہ انہی میں سے ایک آدمی پر اللہ کی وحی نازل ہوئی ہو یہ بات انہیں عجیب معلوم ہوئی اس لئے فوراً تکذیب پر آمادہ ہوگئے۔ قرآن کریم کہتا ہے تمہارے ماننے اور تمہارے جھٹلانے دونوں کا مدار ظن و گمان پر ہے تم جو باتیں من رہے ہو ان کے لئے تمہارے پاس کوئی علم نہیں اور جس بات کے جھٹلانے میں اس قدر جلدی کی اس کے لئے بھی تمہارے پاس کوئی یقین نہیں۔ حالانکہ سچائی کی راہ یہ ہے کہ جو کچھ کرو علم و بصیرت کے ساتھ کرو محض اٹکل پر انہ چلو۔ اگر ایک شخص علم و یقین کے ساتھ ایک بات پیش کر رہا ہے اور جتنی باتیں کسی بات کی درستگی اور معقولیت کی ہو سکتی ہیں سب اس کے ساتھ ہیں اور تمہارے پاس ہی اس کے خلاف ظن و گمان کے سوا کچھ بھی نہیں تو تمہارے لئے کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ جھٹ جھٹلانے پر آمادہ ہو جائو ؟ اور یہ وہی بات ہے جو آیت 26 میں کہی جا چکی ہے کہ تم ’ دظن “ کی بنا پر ” یقین ‘ ذ کی دعوت جھٹلاتے ہو حالانکہ ’ دظن “ کا بھروسہ انسان کو ” یقین ‘ ذ سے مستغنی نہیں کرسکتا۔ اگر تم غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی ساری فکری گمراہیوں کا اصل سرچشمہ یہی بات ہے کہ یا تو وہ عقل و بینش سے اس قدر کورا و جاتا ہے کہ ہر بات بےسمجھے مان لیتا ہے اور ہر روز میں آنکھیں بند کئے چلتا رہتا ہے یا پھر سمجھ بوجھ کا اس طرح غلط اسعتمال کرتا ہے کہ جہاں کوئی حقیقت اس کی شخصی سمجھ سے بالاتر ہوئی اس نے نور جھٹلا دی گویا حقیقت کے اثبات و وجود کا سارا دار وم دار صرف اس بات پر ہے کہ ایک خاص فرد کی سمجھ ادراک کرسکتی ہے یا نہیں ؟ دونوں ہی حالتیں علم و بصیرت کے خلاف ہیں اور دونوں کا نتیجہ عقل و بنشر سے محرومی اور عقلی ترقی کا فقدان ہے۔ جس عقل و بصیرت کا تقاضا یہ ہوا کہ حقیقت اور وہم میں امتیاز کریں وہی متقاضی ہوئی کہ کوئی بات محض اس لئے نہ جھٹلائیں کہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے ۔ عقل کا پہلا تقاضا ہمیں وہم پرستی اور جہل سے روکتا ہے اور دوسرا شک و الحاد سے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ دونوں حالتیں یکساں طور پر جہل و کو ری کی حالتیں ہیں اور اہل علم عرفان و ہیں جو نہ تو جہل و وہم کی راہ چلتے ہیں نہ شک و الحاد کی۔ یہاں سے یہ بات معلم ہوگئی کہ وہ صورتیں ہیں اور دونوں کا حکم ایک نہیں۔ ایک یہ کہ کوئی بات عقل کے خلاف ہو اور ایک یہ کہ تمہاری عقل سے بالاتر ہو۔ بہت سی باتیں ایسی ہو سکتی ہیں جن کا تمہاری سمجھ احاطہ نہ کرسکتی ہو لیکن تم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ دو سرے سے خلاف عقل ہیں ہ۔ اول تو تمام افراد کی عقلی قوت یکساں نہیں ایک آدمی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتا دوسرا باریک سے باریک نکتے حل کرلیتا ہے ۔ دوسرا یہ کہ عقل انسانی برابر نشو و نما کی حالت میں ہے ایک عہد کی عقل جن باتوں کا ادراک نہیں کرسکتی دوسرے عہد کے لئے وہ عقلی مسلمات بن جاتی ہیں تیسرا انسان عقل کا ادراک ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور عقل ہی کا فیصلہ ہے کہ حقیقت اس حد پر ختم نہیں ہوجاتی۔ اچھا ! اب مذہب کے میدان سے باہر قدم نکالو اور غور کرو کہ قرآن کریم نے ان چند لفظوں کے اندر جو بات کہہ دی ہے وہ انسانی علسم عقل کی تمام ترقیوں کے لئے کس طرح اصل و اساس ثابت ہو رہی ہے ؟ کونسی بات ہے جس نے علمی ترقی کے غیر محدود اور لانہایت امکانات کا دروازہ نوع انسانی کے سامنے کھول دیا اور علم و ادراک کی سینکڑوں ناممکن باتوں کو نہ صرف ممکن بلکہ واقعہ بنا دیا ؟ کیا یہی بات نہیں ہے کہ کسی بات کے احاطہ نہ کرسکنے سے اس کا انکار لازم نہیں آجاتا ؟ اگر اصحاب علم و انکشاف نے اس بات سے انکار کردیا ہوتا تو کیا ممکن تھا کہ عقلی ترقیات کے قدم یہاں تک پہنچ سکتے اور آئندہ کے لئے اس قدر مکنات سامنے آجاتے ؟ بلاشبہ علم و انکشاف کے ہر عہد میں ایسی جلد باز طبیعتیں بھی ہوئیں جنہوں نے محض عدم ادراک کی بناء پر انکار کردیا لیکن علم نے کچھ پروا نہ کی اور اس کا نتیجہ ہے کہ اس کا سفر برابر جاری رہا اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کب تک اور کہاں تک جاری رہے گا ؟ زیر نظر آیت میں جو ” تاویل “ آیا ہے اس کے متعلق اتنا عرض کردینا مناسب سمجھا جاتا ہے کہ اس کے معنی تو کسی بات کے نتیجہ اور مال کے ہیں اور چونکہ الفاظ کے معانی بھی ان کی دلالت کا مال و مصداق ہوتے ہیں اس لئے مطالب و معانی پر بھی اس کا اطلاق ہونے لگا لیکن قرآن کریم نے یہ لفظ ہر جگہ لغوی معنی میں استعمال کیا ہے اور وہ بالکل صحیح اور درست ہے لیکن بعد کو جب تفسیر و کلام کے مختلف مذاہب پیدا ہوئے تو ” تاویل “ کا لفظ بھی ایک خاص مصلح معنی میں بولا جانے لگا یعنی کسی لفظ کا ایسا مطلب ٹھہرانا جو اس کے ظاہری مدلول سے ہٹا ہوا ہو جیسے قرآن کریم میں لفظ ید اللہ آیا ہے یعنی اللہ کا ہاتھ اور یہ تنزیہہ کے خلاف ہے کہ اللہ کا ہاتھ ہو اس لئے ہاتھ کی جگہ اس کا کوئی دوسرا مطلب لینا اور پھر اس کے مختلف مراتب و اقسام ٹھہرائے گئے لیکن ہمارے موضوع سے یہ تفصیل متعلق نہیں کیونکہ ہم نے مقدمہ تفسیر میں بیان کردیا ہے کہ ہمارے نزدیک ” تاویل “ کے یہ معنی و مفہوم جو بیان کئے گئے ہیں صحیح نہیں ہیں اور ہم قرآن کریم میں ان معنوں میں ” تاویل “ کو مطلق تسلیم نہیں کرتے اس لئے کہ قول قائل کے مافی الضمیر میں جو ہوتا ہے اس کو مراد لینا کبھی ” تاویل “ نہیں کہلاتا بلکہ وہ اصل حیقتا ہوتا ہے پھر اس کو ” تاویل “ کیوں کہیں گے اور تاویل کے پہلے معنی اپنی جگہ درست اور صحیح ہیں۔
Top