Urwatul-Wusqaa - Yunus : 4
اِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا١ؕ وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا١ؕ اِنَّهٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ
اِلَيْهِ : اسی کی طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہارا لوٹ کر جانا جَمِيْعًا : سب وَعْدَ : وعدہ اللّٰهِ : اللہ حَقًّا : سچا اِنَّهٗ : بیشک وہی يَبْدَؤُا الْخَلْقَ : پہلی بار پیدا کرتا ہے ثُمَّ : پھر يُعِيْدُهٗ : دوبارہ پیدا کریگا لِيَجْزِيَ : تاکہ جزا دے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک (جمع) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَفَرُوْا : کفر کیا لَھُمْ : ان کے لیے شَرَابٌ : پینا ہے (پانی) مِّنْ : سے حَمِيْمٍ : کھولتا ہوا وَّعَذَابٌ : اور عذاب اَلِيْمٌ : دردناک بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ : وہ کفر کرتے تھے
تم سب کو بالآخر اسی کی طرف لوٹنا ہے یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے وہی ہے جو پیدائش شروع کرتا ہے اور پھر اسے دہراتا ہے (مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا) تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے انہیں انصاف کے ساتھ بدلہ دے ، باقی رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تو انہیں پاداش کفر میں کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور عذاب دردناک
اللہ کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے یہ اللہ کا وعدہ ہے 9 ؎ اب سلسلہ بیان آخرت کی طرف متوجہ ہوگیا ہے جس سے مشرکین عرب کو انکار تھا اس طرح جس طرح وہ وحی کے نزول کو تسلیم نہیں کرتے اور خصوصاً ” بشر “ کا رسول ہونا ان کیلئے ایک انہونی بات تھی ۔ کسی انسان کا شرف نبوت سے مشرف ہونا بھی ان کے لئے محل تعجب تھا جیسا کہ آپ پڑھ چکے ۔ اسی طرح قیامت کے وقوع پذیر ہونے کی بات بھی ان کے فہم سے بالا تر تھی ۔ یہاں انہیں اس بات کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ لامحالہ تمہیں قیامت کے روز بارگاہ رب العزت میں حاضر ہونا ہوگا ۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی بتا دیا کہ قیامت کے دن تمہیں دوبارہ زندہ کر کے جواب دہی کیلئے حاضر کرنے والی ذات ہے جس نے تمہیں پہلے خلعت وجود سے نوازا جب تم کچھ نہیں تھے اور اس نے نہیں پیدا فرمایا ، بتائو تم پیدا ہوئے ہو یا نہیں ؟ اچھا تم خود پیدا ہوگئے تھے ، تمہارا پیدا کرنے والا کوئی نہیں ؟ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر تم بھی کچھ پیدا کر دکھائو ، چلو یہ بھی نہیں تو تم اب زندہ ہی رہ کر دکھا دو اگر تمہارا پیدا کرنے والا نہیں تو یقینا مارنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا پھر کیا مرنے والے جو روزانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے مر رہے ہیں اپنی مرضی سے مرتے ہیں کہ جب ان کا جی چاہا تو مر گئے ۔ اگر نہیں تو من حیث العقل ہی مان لو کہ تمہارا مانے والا بھی وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا تھا اور پھر جب چاہے گا مارے گا اور اس موت کے بعد دوبارہ زندگی بھی لازم ہے اور اس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ اس دوبارہ زندگی کے بعد میں کسی کو نہیں ماروں گا اور اس کا وعدہ یہی ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اس کا وعدہ کبھی غلط نہیں ہوتا ۔ جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا وہی تمہیں دوبارہ زندہ کر دے گا اور یہ زندگی محض اس مقصد کیلئے ہوگی کہ جو کچھ تم نے دنیا میں کیا تھا اس کا نتیجہ تمہارے سامنے لایا جائے گا اور یہ یقینا ہو کر رہے گا ۔ اخروی زندگی کا مقصد دوبارہ واضح کیا جا رہا ہے کہ وہ کیوں ہے ؟ 10 ؎ دوسری بات اس آیت میں یہ بیان کی گئی کہ اگر تم اپنی پہلی پیدائش پر یقین رکھتے ہو اور تم کو یہ بات بھی سمجھ آ چکی ہے کہ تم خود بخود نہیں پیدا ہوئے بلکہ تمہارا پیدا کرنے والایقینا کوئی ہے اور اسلام نے تم کو بتا دیا ہے کہ وہی ” اللہ “ ہے تو پھر تم خود ہی غور کردیکھو کہ یہ دوسری زندگی کیوں ضروری ہوئی ؟ اس لئے کہ جزائے عمل کا قانون چاہتا تھا کہ جس طرح ایک زندگی آزمائش عمل کیلئے ہے اسی طرح زندگی جزائے عمل کیلئے بھی ہو اور وہی آخرت کی زندگی کہی جا رہی ہے۔ پھر یہ اس لئے بھی لازم ضروری ہے تاکہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کا اور بڑوں کو ان کی بڑائی کی سزا ملے۔ یہ دنیا دارالعمل ہے دارالجزاء نہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اہل خیر و صلاح کو ان کے اعمال حسنہ کا بدلہ اس دنیا میں نہیں ملتا ۔ ان کی زندگیاں اکثر آلام و مصائب میں گھری ہوتی ہیں اور کئی فاسق و فاجر عیش و عشرت سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کے اعمال بد پر انہیں کوئی سزا نہیں ملتی ہے۔ اگر اس دنیا کے بعد دارالاخرت نہ ہو تو تسلیم کرنا پڑے کہ عدل و نصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے اور یہ بات اللہ کی ذات کو زیبا نہیں ۔ اگر وہ کوئی ذات ہے ؟ وہ ذات یقینا ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس دارفناء کے بعد داربقاء بھی ہو جہاں ہر شخص کو اسکے اعمال نیک و بد کا بدلہ ملے ۔ قیامت پر ایمان انسان میں اعمال بد سے نفرت پیدا کرنے اور اعمال حسنہ کی ترغیب دلانے میں بہت موثر ہے اور ضروری بھی ورونہ ظلم لازم آئے گا اور کوئی شخص بھی خواہ درندہ صفت بن جائے اس کو ظالم نہیں کہا جاسکے گا اور ظاہر ہے کہ یہ محال ہے اور اگر یہ محال ہے تو دارلاخرت لازم و ضروری ہے مان لو گے تو اچھے رہو گے نہیں مانو گے تو یقینا تم سے منوا لیا جائے گا اور تمہارے اس نہ ماننے کی سزا تم پر لازم آئے گی اور وہ لوگ جنہوں نے اس کفر کی راہ اختیار کی تو انہیں پاداش کفر میں کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور درد ناک عذب اسکے سوا ہوگا جو ویسے بھی سوار ہی ہوگا ۔
Top