Urwatul-Wusqaa - Yunus : 46
وَ اِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا یَفْعَلُوْنَ
وَاِمَّا : اور اگر نُرِيَنَّكَ : ہم تجھے دکھا دیں بَعْضَ : بعض (کچھ) الَّذِيْ : وہ جو نَعِدُھُمْ : وہ عدہ کرتے ہیں ہم ان سے اَوْ : یا نَتَوَفَّيَنَّكَ : ہم تمہیں اٹھا لیں فَاِلَيْنَا : پس ہماری طرف مَرْجِعُھُمْ : ان کا لوٹنا ثُمَّ : پھر اللّٰهُ : اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا يَفْعَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں
اور ہم نے ان لوگوں سے جن جن باتوں کا وعدہ کیا ہے ان میں سے بعض باتیں تجھے دکھا دیں یا تیرا وقت پورا کردیں لیکن بہرحال انہیں ہماری ہی طرف لوٹنا ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس پر شاہد ہے
۔ 70 اس دنیا کی زندگی کے خاتمہ کے ساتھ انسان کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہوجاتا بلکہ یہ زندگی انسان کو ایک دوسری زندگی کی طرف منتقل کرتی ہے فرق ہے تو صرف یہ کہ اس زندگی سے ہم متعارف نہیں تھا اور اس ندگی کا تعارف بھی ہم کو یہاں آنے سے پہلے نہیں تھا بلالک اسی طرح اس زندگی کی طرف منتقل ہونے سے قبل ہمیں اس کا تعارف حاصل نہیں اور یہی بات قرآن کریم نے ہم کو بتائی اور سمجھائی ہے فرمایا گیا کہ اے پیغمبر اسلام ! ہم آپ کے ذریعہ سے جو جو وعدہ ان کو دے رہے ہیں وہ یقینا پورا ہوگا اس لئے کہ ہمارے وعدہ کا پورا ہونا لازم ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ آپ کی زندگی میں پورا کردیں گے یا آپ کی زندگی کے بعد یعنی آپ کی اس دنیوی زندگی کے اندر آپ کی آنکھوں کے سامنے یا آپ کو اس زندگی سے اس آخرت کی زندگی کی طرف منقتل ہو چکنے کے بعد۔ یہ بات اس لئے فرما دی گئی کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک وعدہ ہے کہ وہ انسان کو اس کی دنیوی زندگی کے مکمل پروگرام سے بیک وقت آ گاہ نہیں فرمایا کہ اگر ایسا ہوتا تو اس زندگی کی ساری رعنائیاں یک قلم ختم ہوجاتیں اور پھر جب یہ بھی وعدہ الٰہی ہے تو اس کو ممکنات سے نکال کر حتمی طور پر کیوں بیان کیا جائے گا کہ یہ کام تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوں گے۔ مختصر یہ کہ اس عذاب کے کتنے حصے آپ کی زندگی ہی میں ان کو دکھا دیئے گئے اور کتنے تھے جو بعد میں دکھائے گئے مثلاً معرکہ بدر ایک عذاب ہی تو تھا جو مکہ والوں پر مسلط کیا گیا اور اس طرح فتح کہ اور متعدد دوسرے واقعات جو آپ کی زندگی میں انہوں نے مشاہدہ کر لئے اور ان میں مکذبین و منکرین کو ہر طرح سے ذلت رسوائی کا سامنا ہوا اور اس طرح کتنے ہی معرکہ تھے جو نبی اعظم و آخر ﷺ کے یہاں سے منتقل ہونے یک بعد خلفائے راشدین کی زندگیوں میں پورے ہوئے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح دنیوی زندگی کے عذاب کی کیفیت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اسی طرح اخری زندگی کے عذاب کی حالت بھی ہوگی جو اس کی زندگی کے عذاب پر رکھ کر ہی دیکھی جاسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا تعلق فقط ایمانیات و اعتقادت کے ساتھ ہے کیونکہ ایمان اعتقادی سے اس کی تیاری ممکن ہو سکتی ہے علاوہ ازیں اس کی تفہیم اس زندگی میں ممکن نہیں۔ اگر یہ بات ذہن نشین ہوجائے کہ ایک دن ہم کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کے لئے نتیجہ سے ہم کو دوچار ہونا ہے تو ایہی ایمان و اعتقاد ہم کو سنبھلا دے سکتا ہے اور پھر جتنا یہ ایمان و اعتقاد ہوگا اتنا ہی محتاط ہوں گے اور یہی مقصود ہے۔
Top