Urwatul-Wusqaa - Yunus : 50
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُهٗ بَیَاتًا اَوْ نَهَارًا مَّا ذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتُمْ : بھلا تم دیکھو اِنْ اَتٰىكُمْ : اگر تم پر آئے عَذَابُهٗ : اس کا عذاب بَيَاتًا : رات کو اَوْ نَهَارًا : یا دن کے وقت مَّاذَا : کیا ہے وہ يَسْتَعْجِلُ : جلدی کرتے ہیں مِنْهُ : اس سے۔ اس کی الْمُجْرِمُوْنَ : مجرم (جمع)
آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کیا تم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ تم کیا کرو گے اگر اس کا عذاب راتوں رات نازل ہو یا دن دہاڑے تم پر مسلط ہوجائے ؟ پھر کیا بات ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچا رہے ہیں ؟
اچھا اگر اس کا حکم عذاب آ ہی جائے تو آخر تم اس وقت کیا کرو گے ؟ 75 ؎ غور کرو کہ عذاب الٰہی تو بڑی سخت اور پناہ مانگنے کی چیز ہے۔ یہ لوگ اس کے لئے جلدی مچا رہے ہیں ؟ یہ اور اس جیسی دوسری آیات میں فکر انسانی کی جس گمراہی کو ” استعجال بال عذاب “ سے تعبیر کیا گیا ہے وہ صرف انہی منکرین حق کی گمراہی نہ تھی جو ظہور اسلام کے وقت اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے تھے بلکہ ہر زمانہ میں انسان کی ایک عالم گیر کج اندیشی رہی ہے۔ وہ بسا اوقات فطرت کی اس مہلت بخشی سے فائدہ اٹھانے کی جگہ شر و فساد میں اور زیادہ نڈر اور جری ہوجاتا ہے اور کہتا ہے اگر فی الحقیقت حق و باطل کیلئے ان کے نتائج و عواقب ہیں تو وہ نتائج کہاں ہیں ؟ اور کیوں فوراً ظاہر نہیں ہوجاتے ؟ قرآن کریم جا بجا منکرین حق کا یہ خیال نقل کرتا ہے اور یہی بات زیر نظر آیت میں بھی بیان کی گئی ہے اس لئے قرآن کریم کہتا ہے اگر کائنات ہستی میں اس حقیقت اعلیٰ کا ظہور نہ ہوتا جسے ” رحمت “ کہتے ہیں تو یقیناً یہ نتائج یکایک اور بیک دفعہ ظاہر ہوجاتے اور انسان اپنی بدعملیوں کے ساتھ کبھی زندگی کا سانس نہ لے سکتا لیکن یہاں سارے قانونوں اور حکموں سے بھی بالاتر ” رحمت “ کا قانون ہے اور اس کا مقتضی یہی ہے کہ حق کی طرح باطل کو بھی زندگی و معیشت کی مہلتیں دے اور توبہ و رجوع اور عفو و درگزر کا دروازہ ہر حال میں باز رکھے۔ فطرت کائنات میں اگر یہ ” رحمت “ نہ ہوتی تو یقیناً وہ جزاء عمل میں جلد باز ہوتی لیکن اس میں رحمت ہے اس لئے نہ تو اس کی مہلت بخشیوں کی کوئی حد ہے ، نہ اس کے عفو و درگزر کیلئے کوئی کنارہ۔ چناچہ وہ ایک جگہ اس طرح کہتا ہے کہ : ” اے پیغمبر اسلام ! یہ کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو وہ بات کب ہونے والی ہے ؟ ان سے کہہ دو ، جس بات کیلئے تم جلدی مچا رہے ہو عجب نہیں کہ اس کا ایک حصہ بالکل قریب آگیا ہو اور تمہارا پروردگار انسان کیلئے بڑا ہی فضل رکھنے والا ہے لیکن بیشتر ایسے ہیں کہ اس کے فضل اور رحمت سے فائدہ اٹھانے کی جگہ اس کی ناشکری کرتے ہیں۔ “ (النمل 27 : 71 ، 73) یہی مضمون سورة الحج آیت 47 ، 48 اور سورة العنکبوت آیت 53 میں بیان کیا گیا ہے۔
Top