Urwatul-Wusqaa - Yunus : 53
وَ یَسْتَنْۢبِئُوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ١ؔؕ قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ١ؔؕۚ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۠   ۧ
وَيَسْتَنْۢبِئُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں اَحَقٌّ : کیا سچ ہے ھُوَ : وہ قُلْ : آپ کہ دیں اِيْ : ہاں وَرَبِّيْٓ : میرے رب کی قسم اِنَّهٗ : بیشک وہ لَحَقٌّ : ضرور سچ وَمَآ : اور نہیں اَنْتُمْ : تم ہو بِمُعْجِزِيْنَ : عاجز کرنے والے
اور تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ بات واقعی سچ ہے ؟ تم کہو ہاں میرا پروردگار اس پر شاہد ہے کہ یہ سچائی کے سوا کچھ نہیں اور تم کبھی ایسا نہیں کرسکتے کہ اسے عاجز کر دو
ہ پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ سچ ہے ؟ کیوں نہیں اللہ کی باتوں میں کبھی شک ہوتا ہے 78 ؎ اے پغیمبر اسلام ! ﷺ یہ لوگ آپ ﷺ سے پوچھتے ہیں کہ کیا قرآن کریم ، تمہارا دعوئے نبوت ، بعثت بعد الموت اور عذاب قبر واقعی سچ ہیں۔ آپ ﷺ انہیں کہہ دیں کہ میرے پروردگار کی قسم وہ بالکل سچ ہے تم اتنا بھی بل بوتا نہیں رکھتے کہ اللہ تعالیٰ کو قیامت کے روز سے عاجز کرسکو۔ ظاہر ہے کہ ان کے اس سوال اور اظہار حیرت واستعجاب سے مقصود دریافت حال نہیں بلکہ تکذیب و تعریض ہے۔ اس طرح عذاب کے بارے میں جو وہ بار بار پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی وہ آئے گا یا یہ محض خالی دھمکیاں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر تم کو بتاتا ہوں کہ یہ خالی دھمکیاں نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں اور گنجائش ہو بھی کیسے سکتی ہے کہ اللہ رب العزت کی باتیں تو لوہے پر لکیر ہیں۔ نہ ماننے والوں کی بھی کتنی قسمیں ہوتی ہیں عین ممکن ہے کہ اس آیت میں ان لوگوں کا قول نقل کیا گیا ہو جو منکر و جامد تو نہ تھے لیکن تصدیق میں متامل تھے وہ جب پیغمبر اسلام کی صداقت و دیانت پر غور کرتے تو تمام قوم میں وہ اول روز ہی سے مسلم تھی تو ان کا دل کہتا کہ سچے آدمی کی زبان سے جھوٹی بات نہیں نکل سکتی لیکن پھر جب دیکھتے کہ ان کی دعوت ایسی باتوں کا یقین دلاتی ہے جن سے وہ اور ان کے آباء و اجداد یکسر نا آشنا رہے ہیں تو طبیعت کھلتی نہیں اس لئے شک و حیرت کی حالت میں مبتلا ہوجاتے اور پوچھنے لگتے کیا جو کچھ تم کہہ رہے ہو فی الحقیقت ایسا ہی ہے ؟ فرمایا تم کہو جب تمہیں آج تک میری سچائی میں شبہ نہیں ہوا تو آج کیوں ہو رہا ہے ؟ میں جو کچھ کہتا ہوں یہ حق ہے اور اس پر میرا پروردگار شاہد ہے۔
Top