Urwatul-Wusqaa - Yunus : 57
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ١ۙ۬ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگو قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق آگئی تمہارے پاس مَّوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَشِفَآءٌ : اور شفا لِّمَا : اس کے لیے جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) میں وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی جانب سے ایک ایسی چیز آگئی جو موعظت ہے دل کی تمام بیماریوں کے لیے شفا ہے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں
اے لوگو ! تمہارے پاس دل میں اتر جانے والے دلائل ، دلوں کی شفاء ، ہدایت اور رحمت آ گئی 83 ؎ زیر نظر آیت میں قرآن کریم کے چار اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ 1۔ موعظت ہے یعنی دل میں اتر جانے والی دلیلوں اور روح کو متاثر کرنے والے طریقوں سے ان تمام باتوں کی ترغیب دیتا ہے جو خیر و حق کی باتیں ہیں اور ان تمام باتوں سے روکتا ہے جو شر اور بطلان کی باتیں ہیں کیونکہ عربی میں وعظ کا مفہوم صرف نصیحت ہی نہیں ہے بلکہ ایسی نصیحت ہے جو موثر دلائل اور دل نشین اسلوبوں کے ساتھ کی جائے۔ 2۔ دل کی تمام بیماریوں کیلئے نسخہ شفاء ہے جو فرد اور جو گروہ بھی اس نسخہ پر عمل کرے گا اس کا قلب ہر طرح کے مفاسد و رذائل سے پاک ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ عربی زبان میں قلب ، فواد اور صدر کے الفاظ جب کبھی ایسے موقعہ پر بولے جائیں جیسا کہ یہ موقع ہے تو ان سے مقصود انسان کی معنوی حالت ہوتی ہے یعنی ذہن و فکر کی قوت ، عقلی ادراک ، جذبات و عواطف ، اخلاق و عادات ، اندرونی حیات اور وہ اعضاء مقصود نہیں ہوتے جو فن تشریح کا دل اور سینہ ہے۔ پس دل کی شفا کا مطلب ہوا کہ انسان کی فکری اور اخلاقی حالت کے جس قدر امراض ہو سکتے ہیں ان سب کیلئے نسخہ شفاء ہے۔ 3۔ یقین کرنے والوں کیلئے ہدایت ہے۔ 4۔ یقین کرنے والوں کیلئے پیام رحمت ہے یعنی ظلم و فسادت اور بغض و تنفر کو نجات دلاتا ہے اور رحمت و محبت اور امن و سلامتی کی روح سے معمور کرتا ہے۔ یہ محض قرآن کریم کے اوصاف کا مدعیانہ اعلان ہی نہ تھا بلکہ اس کی صداقت کی سب سے زیادہ موثر دلیل بھی تھی۔ اگر ایک شخص دعویٰ کرے کہ وہ طبیب ہے تو سب سے زیادہ سہل اور قطعی طریقہ اس کے دعویٰ کی جانچ کا یہ ہوگا کہ دیکھا جائے اس کے علاج سے بیماروں کو شفا ملتی ہے یا نہیں ؟ اگر تم دیکھو کہ موت کی آغوش میں پہنچے ہوئے بیمار اس کے شفا خانہ میں داخل ہوئے اور تندرست ہو کر نکلے تو تم یقیناً تسلیم کرلو گے کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہے۔ قرآن کریم نے بیے جا بجا یہی جانچ منکروں کے سامنے پیش کی ہے اس نے کہا کہ میں نسخہ شفاء ہوں اور ثبوت میں مومنوں اور متقیوں کی جماعت پیش کردی جو اس کے دارالشفاء سے صحت یاب ہوئی تھی کہ دیکھ لو یہ تندرست ہوگئے ہیں یا نہیں ؟ آج بھی اس کی یہ دلیل اسی طرح قاطع ہے جس طرح صدر اول اور عہد نزول میں تھی۔ اگر اس نے عرب جاہلیت کے مریضان روح و دل میں سے ابوبکر ؓ ، عمر ؓ ، عثمان ؓ ، علی ؓ ، خالد ؓ ، سلمان ؓ اور ابوذر ؓ جیسی ہزاروں شخصیتیں تندرست کردی تھیں تو اس کے نسخہ شفاء ہونے میں شک کیا جاسکتا ہے ؟ بلاشبہ آج بھی یہ نسخہ کیمیا یہی اثر رکھتا ہے۔ وہ قرآن کریم ہی ہے جس نے صدیوں سے آغوش غفلت میں مدہوش ہونے والی قوم کو بیدار کردیا وہ سینوں کے لاعلاج امراض اور پرانی بیماریوں کا کامیاب علاج ہے۔ بغض وعناد ، شک اور نفاق ، حسد اور کینہ غرض کہ ہر قسک کی مذموم صفات سے روح کو پاک کرتا ہے۔ وہ حق و باطل کو نکھار کر پیش کرتا ہے کسی قسم کا التباس نہیں رہتا اور حق کا متلاشی راہ ہدایت کو اپنے سامنے منور اور ہموار پاتا ہے۔ جس کا لانے والا رحمت للعالمین ﷺ ہے اس کتاب کے رحمت مجسم ہونے میں کیا کلام ہو سکتا ہے ؟ لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے اس کو شفاء کی ایک کان سمجھ کر دکانیں کھول لیں۔ کسی نے اس کو دھاگہ میں گرہ لگا کردینے کیلئے چھو منتر سمجھا اور کسی نے اس کی عبارات لکھ کر کھول کھول کر پینے کی چیز بنا دیا ، کوئی اٹھا اور اس نے کاغذ کے پرزوں پر لکھ لکھ کر تعویذ بنانے شروع کردیئے اور قوم کی ساری بیماریوں کا علاج اس کی ایک ہی پڑیہ سے کرنا شروع کردیا۔ عورتوں اور بچوں کو وام فریب میں لانے کیلئے اس سے معجز نما تعویذ تیار کرنے لگے اور پھر عوام نے ان لوگوں کا نام ” عامل “ رکھا۔ اس امت مرحومہ کے اسی فی صد علماء نے اپنے اپنے مجربات تحریر کئے اور انہی مجربات کے باعث وہ حکیم الامت کہلائے۔ ان نسخہ جات کی تشہیر کیلئے انہوں نے ” اعمال قرآنی “ اور ” شمع شبستان رضاء “ کے نام سے کتابیں تحریر کیں اور دنیا کی کوئی بیماری ایسی نہ چھوڑی جس کیلئے قرآن کریم کی آیات کو تیر بہدف کے طور پر استعمال نہ کیا حتیٰ کہ وہ لوگ جو مشت زنی اور اغلام بازی کے مسلسل ارتکاب سے استرفا کے مریض ٹھہرے ہمارے علمائے کرام نے ان کی استرفاء کا علاج قرآن کریم کی آیات سے بہتر جانا اور پھر اپنے مجربات میں ان آیات کو نقل کر کے اپنی اندرونی حالت کی عکاسی فرما دی۔ یہ جو کچھ ہوا ہم اس کو قرآن کریم کی پاک تعلیمات کے ساتھ ظلم گردانتے ہیں اور ان لوگوں کا احترام کرنے کے باوجود ان کو ظالم سمجھتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ حاشاء اللہ کہ اس آیت کا مفہوم ایسا ہو جاسل کہ ان ظالموں نے سمجھا۔ انما اشکوابثی و حزنی الی اللہ۔
Top