Urwatul-Wusqaa - Yunus : 59
قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْهُ حَرَامًا وَّ حَلٰلًا١ؕ قُلْ آٰللّٰهُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَى اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتُمْ : بھلا دیکھو مَّآ اَنْزَلَ : جو اس نے اتارا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے رِّزْقٍ : رزق فَجَعَلْتُمْ : پھر تم نے بنا لیا مِّنْهُ : اس سے حَرَامًا : کچھ حرام وَّحَلٰلًا : اور کچھ حلال قُلْ : آپ کہ دیں آٰللّٰهُ : کیا اللہ اَذِنَ : حکم دیا لَكُمْ : تمہیں اَمْ : یا عَلَي : اللہ پر اللّٰهِ : اللہ تَفْتَرُوْنَ : تم جھوٹ باندھتے ہو
تم ان سے کہو کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ جو روزی اللہ نے تمہارے لیے پیدا کی ہے تم نے اس میں سے بعض کو حرام ٹھہرا دیا بعض کو حلال سمجھ لیا ہے تم پوچھو کیا اللہ نے اس کی اجازت دی ہے یا تم اللہ پر بہتان باندھتے ہو
اللہ کے عطا کردہ رزق میں سے بعض کو حرام اور بعض کو حلال کرنے کا حق تم کو کس نے دیا ؟ 85 ؎ رزق کیا ہے ؟ رزق عطائے جاری کو کہتے ہیں وہ دنیوی ہو یا اخروی اور مال و جاہ اور علم سب رزق میں داخل ہیں۔ (راغب) ہمارے ہاں اکثر رزق کا اطلاق کھانے پینے کی چیزوں پر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہاں گرفت صرف اس قانون پر کی گئی ہے جو دستر خوان کو چھوٹی سی دنیا میں مذہبی اوہام یا رسم و رواج کی بناء پر لوگوں نے کر ڈالی ہے پھر اس غلط فہمی میں جاہل اور عوام ہی نہیں بڑے بڑے علماء تک مبتلا ہیں لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ عربی زبان میں ” رزق “ محض خوراک کے معنی تک محدود نہیں ہے بلکہ عطاء و بخشش اور نصیب کے معنی میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی انسان کو دنیا میں دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے حتیٰ کہ اولاد بھی رزق میں شامل ہے اور محاورے میں بولا جاتا ہے کہ رزق علما ” فلاں شخص کو علم دیا گیا ہے۔ “ اس لئے رزق کو محض دستر خوان کی سرحدوں تک سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو صرف ان پابندیوں اور آزادیوں پر اعتراض ہے جو کھانے پینے کی چیزوں کے معاملہ میں لوگوں نے بطور خود اختیانر کرلی ہے سخت غلطی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور فرمایا اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ ” اے اللہ ہم پر حق واضح فرما اور ہمیں اس کے اعتبار کی توفیق عطا فرما۔ اس لئے رزق سے مراد صرف کھانے پینے کی چیزیں سمجھنا سخت غلطی ہے اور پھر یہ کوئی معمولی غلطی بھی نہیں اس غلطی کی بدولت اللہ تعالیٰ کے دین کی ایک بہت بڑی بڑی اصولی تعلیم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔ یہ اس غلطی کا تو نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں اور حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز معاملہ تو ایک دینی معاملہ سمجھا جاتا ہے لیکن تمدن کے وسیع تر معاملات میں اگر یہ اصول طے کرلیا جائے کہ انسان خود اپنے لئے حدود مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے اور اسی بناء پر اللہ اور اس کی کتاب سے بےپناہ ہو کر قانون سازی کرنے لگے تو عوام تو درکنار علمائے دین و مفتیان شرع متین اور مفسرین قرآن کریم اور شیوخ حدیث تک کہ یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ چیز بھی دین سے اسی طرح ٹکراتی ہے جس طرح ماکولات و مشروبات میں شریعت الٰہی سے بےنیاز ہو کر جائز و ناجائز کے حدود بطور خود مقرر کرلینا ہے۔ اگر علمائے کرام اور مفتیان عظام اس حقیقت کو سمجھ جاتے تو آج ہماری حالت ایسی نہ ہوتی جو ہو چلی ہے۔ زیر نظر آیت میں ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ تمہیں کچھ احساس بھی ہے کہ یہ کتنا سخت اور باغیانہ جرم ہے جو تم کر رہے ہو۔ رزق اللہ کا ہے اور تم خود اللہ کے ہو پھر یہ حق آ کر تمہیں کہاں سے حاصل ہوگیا کہ اللہ کی املاک میں اپنے تصرف ، استعمال اور انقفاع کیلئے خود حد بندیاں مقرر کرو ؟ کوئی نوکر اگر یہ دعویٰ کرے کہ آقا کے مال میں اپنے تصرف اور اختیارات کی حدیں اسے خود مقرر کرلینے کا حق ہے اور اس معاملہ میں آقا کے کچھ بولنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے تو اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟ تمہارا اپنا ملازم اگر تمہارے گھر میں اور تمہارے ہی گھر کی سب چیزوں میں اپنے عمل اور استعمال کیلئے اسی آزادی و خودمختاری کا دعویٰ کرے تو تم اس کے ساتھ کیا معاملہ کرو گے ؟ پھر اس نوکر کا معاملہ تو دوسرا ہی ہے جو سرے سے یہی تسلیم نہیں کرتا کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور کوئی اس کا آقا بھی ہے اور یہ کسی اور کا مال ہے جو اس کے تصرف میں ہے اس بدمعاش غاصب کی پوزیشن یہاں زیر بحث ہی نہیں ہے۔ یہاں سوال اس نوکر کی پوزیشن کا ہے جو خود مان رہا ہے کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ مال اس کا ہے جس کا وہ نوکر ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس مال میں اپنے تصرف کے حدود مقرر کرلینے کا حق مجھے آپ ہی
Top