Urwatul-Wusqaa - Yunus : 60
وَ مَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا : اور کیا ظَنُّ : خیال الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَفْتَرُوْنَ : گھڑتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل کرنے والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَھُمْ : ان کے اکثر لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر نہیں کرتے
اور جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ اللہ کے نام پر جھوٹ بول کر افتراء پردازی کر رہے ہیں انہوں نے روز قیامت کو کیا سمجھ رکھا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسانوں کے لیے بڑا ہی فضل رکھتا ہے لیکن ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو اس کا شکر نہیں بجا لاتے
88 ؎ کیا اللہ نے تم کو اس تصرف کی اجازت دی ہے یا تم بہتان باندھ رہے ہو ؟ 86 ؎ اس وقت عرب جاہلیت کی اپنی معاشی ، معاشرتی ، اخلاقی ، مذہبی اور سیاسی زندگی ان رسوم و رواج کی پابند تھی جو انہوں نے خود یا ان کے پہلوئوں نے وضع کئے تھے لیکن اس کے باوجود وہ انہیں احکام خداوندی کہا کرتے تھے اور بڑی سختی سے ان کی پابندی کرتے تھے اور جو شخص ان سے سرمو انحراف کرتا اس کے خلاف ایک طوفان برپا کردیتے نبی اعظم و آخر ﷺ نے ان کے لغو اور ضرر رساں رسم و رواج کی اصلاح کیلئے جب آواز بلند کی تو برافروختہ ہوگئے۔ انہیں ان کی غلط روش پر سرزنش کی جا رہی ہے کہ تم اپنے خود ساختہ رسوم و قوانین کو اللہ کی طرف کیوں منسوب کر رہے ہو ، کیا تمہیں شرم نہیں آتی جس چیز کو چاہتے ہو حلال بنا دیتے ہو اور جس کو چاہتے ہو حرام ، جس کو چاہتے ہو جائز کردیتے ہو اور جس کو چاہتے ہو ناجائز۔ یہ حق آخر تم کو کس نے دیا ہے ؟ ہرچیز کا مالک تو اللہ ہے اور تم اس کے بندے ہو۔ پھر یہ بات تمہیں زیب دیتی ہے کہ اس کے بندے ہو کر اس کی چیزوں میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرتے رہو اور ظاہر ہے کہ اس نے تم کو کوئی اجازت نہیں دی۔ معلوم ہوگیا کہ تم اللہ پر بہتان باندھتے ہو اور پھر اللہ پر بہتان باندھ کر تم کہاں جائو گے ؟ یہ بات اس وقت کے عربوں کی ہے لنکا امانت و دیانت کے ساتھ اگر دیکھا جائے تو آج ہماری قوم مسلم کا کیا حال ہے ؟ جو کچھ وہ جاہلیت کے دور میں کرتے تھے آج ہم اس پڑھے لکھے دور میں ان سے بہت کچھ زیادہ کر رہے ہیں اور دین اسلام انہی چیزوں کا نام رہ گیا ہے جن کا تعلق اسلام سے دور کا بھی نہیں۔ حلت و حرمت ہمارے علمائے کرام کی زبان کا نام ہے ، وہ جس کو چاہیں جائز اور جس کو چاہیں ناجائز قرار دیں جس کے نظائر ابھی آپ گزشتہ آیت میں پڑھ چکے ہیں۔ غور کرو کہ کسی جرأت کے مالک ہیں وہ لوگ جو اللہ پر افتراء باندھتے ہیں 87 ؎ اب ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ یہ جرأت تم کو کیسے حاصل ہوئی ؟ یہ تمہاری پوزیشن تو صرف اس صورت میں صحیح ہو سکتی تھی کہ آقا نے خود تم کو اجازت دی ہوتی کہ میرے مال میں تم جیسے چاہو تصرف کرو اپنے عمل اور استعمال کے حدود ، قوانین و ضوابط سب کچھ بنا لینے کے بعد جملہ حقوق میں نے تمہیں سونپ دیئے اب سوال ہو رہا ہے کہ کیا تم کو واقعی اس کی اجازت دی گئی ؟ اگر دی گئی ہے تو اس کی دلیل کیا ہے ؟ کیا تم بغیر سکی سند و دلیل کے ہی یہ دعویٰ کر رہے ہو کہ وہ تمام حقوق تمہیں سونپ چکا ہے ؟ اگر تم سچے ہو تو اس کی سند دکھائو ورنہ سیدھے ہاتھ تسلیم کرلو کہ تم کھلی بغاوت کر رہے ہو اور یہی بغاوت تمہاری اللہ پر افتراء پردازی ہے اور اسی جرم کی سزا تم کو دی جائے گی اگر تم نے اس مہلت سے کچھ فائدہ حاصل نہ کیا جو تم کو دی جا رہی ہے ، غور کرو کہ تم نے روز قیامت کو کیا سمجھ رکھا ہے ؟
Top