Urwatul-Wusqaa - Yunus : 62
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ : اللہ کے دوست لَا خَوْفٌ : نہ کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لیے نہ تو کسی طرح کا خوف ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی
اللہ والوں کیلئے نہ کسی طرح کا کوئی خوف ہوگا نہ غم گینی 91 ؎ قرآن کریم نے ایمان اور اہل ایمان کی نسبت جو کچھ کہا ہے اس میں کوئی بات بھی اس قدر نمایاں نہیں ہے جس قدر یہ کہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون کہ خوف و غم دونوں سے وہ محفوظ ہوجائیں گے چناچہ اس جگہ بھی یہی بات فرمائی گئی کہ اب غور کرنا چاہئے کہ قرآن کریم نے اس وصف پر کیوں اس قدر زور دیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کی سعادت کیلئے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا اس کی شقاوت کی ساری سرگزشت انہی دو لفظوں میں سمٹی ہوئی ہے ۔ خوف اور دکھ جونہی ان دو باتوں سے اسے رہائی مل گئی اس کی ساری سعادتیں اس کے قبضے میں آگئیں زندگی کے جتنے بھی کانٹے ہو سکتے ہیں سب کو ایک ایک کر کے چنو اور دیکھ خواہ جسم میں چبھتے ہوں ، خواہ دماغ میں ، خواہ موجودہ زندگی کی عافیت میں خلل ڈالتے ہوں خواہ آخرت کی زندگی میں ماتم دیکھو گے کہ ان دو باتوں سے باہر نہیں ہیں یا خوف کا کاٹنا ہے یا غم کا ۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ ایمان کی راہ سعادت کی راہ ہے جس کے قدم اس راہ میں جم گئے اس کیلئے دونوں کانٹے بےاثر ہوجاتے ہیں ۔ اس کیلئے نہ تو کسی طرح کا اندیشہ ہوگا نہ کسی طرح کی غم گینی ۔ تا ہم قرآن کریم نے یہی حقیقت دوسرے پیرایوں میں بیان کی ہے مثلاً سورة العصر بھی ایک اسی حقیقت کا اعلان ہے۔ زیر نظر آیت ان آیات قرآنی میں ایک ہے جن کے ساتھ قرآن کریم کو اللہ کی کتاب ماننے والوں میں سے اکثر لوگوں نے بہت زیادتی کی اور ان کا مفہوم بیان کرنے میں اتنا غلو کیا کہ یہود و نصاریٰ کے بھی کان کاٹ کر رکھ دیئے ۔ اولیاء اللہ کی شان بیان کرتے کرتے اس قدر مبالغہ کیا کہ جن لوگوں کو اولیاء اللہ کا خطاب دیا ان کو عین ” اللہ “ بنا کر رکھ دیا اور توحید الٰہی کی اس طرح دھجیاں اڑائی گئیں کہ توحید کا نام سن کر بعض لوگوں کے منہ چڑھنے شروع ہوگئے ۔ اس لئے اس کے متعلق کچھ عرض کردینا ضروری خیال کیا گیا ۔ لہٰذا جان لناا چاہئے کہ اولیاء جمع ہے ولی کی اور ولی کے معنی ہیں دوست ، مدد گار ، قریب ، محب اور صدیق ۔ ولی اللہ کے معنی ہوئے اللہ کا دوست ، اللہ کا محبت ، اللہ کا صدیق اور پھر اللہ ولی الذین امنوا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مزید وضاحت فرما دی کہ اللہ ایمان والوں کا دوست ہے ، مدد گار ہے ۔ جو شخص ایمان میں جتنا پختہ ہوگا اللہ کی دوستی میں اتنا ہی مضبوط ہوگا ۔ اس تفہیم کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ جس شخص کو ہمارا جی چاہا ولی اللہ کہہ لیا نہیں ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ جو شخص جتنا ایمان میں پختہ ہوا اتنا ہی وہ ولایت میں پختہ ہوا جس کا تعلق ایمان باللہ سے ہے نہ کہ ہماری سمجھ بوجھ ہے۔ بلا شبہ ایمان کے بہت درجات ہیں اور اسی طرح ایمان کم بھی ہوتا ہے زیادہ بھی ، کچا بھی ہوتا ہے پکا بھی ، پھر جتنے درجے ایمان کے اتنے ہی ولی کے ، جس درجے کا ایمان اسی درجہ کا ” ولی “ پھر ہر درجہ ایک سے ایک بلند اور ایک سے ایک اعلیٰ ۔ سمجھ میں آگیا کہ شرط اول کیا ہوئی ؟ ایمان باللہ دولت ایمان سے مشرف ہونے کے بعد اہل عزم و ہمت ترقی کرتے کرتے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور انجام کار انسانیت کے آخری مقام تک پہنچ جاتے ہیں لیکن کسی حال میں بھی انسانیت سے نکل نہیں جاتے اور یہ مقام نہایت ہی نازک ہے جس کی وضاحت پیغمبر اسلام ﷺ نے اس طرح بیان فرما کہ لا یزال العبد ینقرب الی بالنوافل حتی احببتہ فاذا اجببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصربہ (رواہ البخاری عن ابی ہریرۃ ؓ ” بندہ نقل عبادات سے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں ہی اس کے کان ہوجاتا ہوں ، جن سے وہ سنتا ہے اور میں ہی اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے “۔ افسوس کہ لوگوں نے اس حدیث سے اس شخص کو جو صحیح معنوں میں اللہ کا فرمانبردار بندہ ہوگیا عین ” اللہ “ سمجھ لیا اور پھر اس کے ہاتھوں کو اللہ کے ہاتھ ، اس کے کانوں کو اللہ کے کان سمجھا اور اس کے جسم کو اللہ کا جسم سمجھ کر چومنے لگے اور سجدوں میں گرنے لگے انا للہ وانا الیہ راجعوان۔ بتایا یہ گیا تھا کہ ایسا شخص جب نفلی عبادات سے میرے قریب ہوتا ہے تو میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور پھر میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جس کا عبادات سے میرے قریب ہوتا ہے تو میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور پھر اس کے کان ہوجاتا ہوں جس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ تھا کہ وہ میرے حکم کے مطابق باتوں کو سنتا ہے اور ان پر عمل کرتا ہے ، میرے حکم کے خلاف جو کچھ بھی اس کے سامنے بیان کیا جائے وہ سنی ان سنی کردیتا ہے اور اس پر کان نہیں دھرتا اور اسی طرح وہ صرف اور صرف اس چیز کی طرف دیکھتا ہے جس کی طرف دیکھ لینے کا ہمارا حکم ہوتا ہے اور ہمارے حکم کے خلاف وہ کسی چیز کو دیکھنا گوارا نہیں کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اس شخص کو اللہ کے نیک بندوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا جو کتاب و سنت کا پابند تھا اور ہر اس سے نفرت کی جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے غافل تھا۔ لیکن ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے کہ ہر وہ شخص جو پیغمبر اسلام ﷺ کی زبان سے ” مرفوع القلم “ ہوگیا یعنی جس کو حلال و حرام میں کوئی تمیز نہ رہی پاکیزگی و طہارت کے نام سے شناساں نہ رہا جس کی عقل و فکر جاتی رہی ، ننگ دھڑنگ رہنے لگا ۔ جو منہ میں آیا دیا اور جو چا ہا کھالیا اور جس کو جی چاہا پھینک دیا لوگوں نے اس کے مرنے کے بعد اس کو ” ولی اللہ “ کا نام دے کر دفن کردیا اور یاروں نے اس پر ایک عمارت کھڑی کرنا شروع کردی اور دیا جلا کر رکھا دیا جس سے وہ ہوتے ہوتے ماشاء اللہ پہلے ولی اللہ بن گیا اور نام اس کا یہی رہا اور کام کے لحاظ سے وہ ” اللہ “ ہوگیا اور ہمارے مذہبی ٹھیکہ داروں نے ان پر یہ آیت کریمہ چسپاں کردی کہ ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ اب اس ” مزار “ اور مشرکین مکہ کے ” ہبل “ میں کوئی فرق نہ رہا ۔ الایہ کہ وہاں ایک بت تھا اور یہاں اس کی جگہ ایک قبر نے لے لی ۔ اس پتھر کو گھڑ کر ان کی نوک پلک سیدھی کردی گئی اور یہ ڈھیر کا ڈھیر رہا وہ ایک خاص طرز سے گھڑ لیا گیا اور اس کو ان گھڑا رکھ لیا گیا یا ایک قبر کی طرح گھڑ لیا گیا ۔ حاشاء اللہ کہ اس طرح کی ولایت کا کوئی تصور اسلام میں موجود ہو ۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ مشرکین مکہ کا شرک اس ہمارے اسلامی شرک سے کئی درجے کم تھا اور یہ اس سے کئی درجے بلند شرک ہے ۔ اس کی اصلاح ممکن تھی اور آج بھی جہاں اس طرح کا شرک ہے وہاں اصلاح کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن اسلامی شرک کے مٹانے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی اور نہ ہی اصلاح کی کوئی صورت ، کیونکہ اس کے شرک کو اسلام کے ساتھ پیوند کرلیا گیا ہے ۔ العیاذ باللہ ، استغفرا للہ ۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
Top