Urwatul-Wusqaa - Yunus : 63
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَكَانُوْا : اور وہ رہے يَتَّقُوْنَ : تقویٰ کرتے رہے
یہ لوگ ایمان لائے اور زندگی ایسی بسر کی کہ برائیوں سے بچتے رہے
اللہ کے دوست کی نشانیاں جو قرآن کریم نے ذکر کیں تاکہ وہ پہچانا جا سکے 29 ؎ گزشتہ آیت میں ” اولیاء اللہ “ کا ذکر تھا اور اس آیت میں ان کی پہچان بھی بتا دی ۔ وہ پہچان کیا ہے ؟ فرمایا ایمان اور تقویٰ ۔ فرمایا ” یہ وہ لوگ ہیں جو صدق دل سے ایمان لاتے ہیں اور جنہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے مکمل طور پر غلط راستوں کو چھوڑ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے ۔ غور کرو کہ ولایت کی علامتیں کیا ارشاد ہو رہی ہیں ۔ نہ عوام کو خوش کرنے والی کرامتیں ، نہ عامۃ الناس کو حیرت میں ڈال دینے والے خوارق ، بلکہ ذکر کیا گیا ہے ایمان اور تقویٰ کا ۔ اللہ کا ولی کون ہوتا ہے ؟ اور اللہ کس کا ولی ہوتا ہے ؟ وہی جن کا ایمان اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی اعظم و آخر ﷺ کی نبوت و رسالت اور قرآن کریم کی حقانیت پر اتنا مستحکم ہوتا ہے کہ کوئی ابلیسی وسوسہ اندازی اور کوئی مصیبت اسے متزلزل نہیں کرسکتی اور ان کا ظاہر و باطن تقویٰ کے نور سے جگمگا رہا ہوتا ہے ۔ ان تمام اعمال اور اخلاق سے ان کا دامن یکسر مبرا ہوتا ہے جو ان کے خالق کو ناپسند ہیں ، شرک جلی ، شرک خفی ، اخفی ، حسد ، کینہ ، غرور اور تکبر اور ہوا و ہوس غرضیکہ تمام اخلاق ذمیمہ سے وہ پاک ہوتے ہیں اور یہی تقویٰ کا وہ بلند مقام ہے جہاں جب انسان پہنچتا ہے تو اسے خلعت ولایت سے مشرف کیا جاتا ہے اور اس پکرش و عجز و نیاز کو وہ سر بلندی عطا کی جاتی ہے جسے دنیا رشک بھری نظروں سے دیکھتی ہے ۔ بلا شبہ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی ایک حجت و دلیل ہوتے ہیں ۔ ان کا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کیلئے ہوتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور وہ سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والے ہوتے ہیں اور وہ اللہ کے سوا کسی اور کی تلاش نہیں کرتے وہ سر دینا آسان سمجھتے ہیں اور شرک کے قریب جانا ان کو مشکل نظر آتا ہے ۔ ان کا حال احادیث صحیحہ میں اس طرح آتا ہے کہ : نبی اعظم و آخر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل (علیہ السلام) کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے اے جبریل ! میں اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ۔ پس جبریل بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے ۔ پھر وہ آسمان میں منادی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو پھر سب اہل آسمان اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر زمین میں اس کی مقبولیت کا چرچا ہوتا ہے ۔ اس طرح جس شخص کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے تو جبریل (علیہ السلام) کو بھی اسے ناپسند کرنے کا حکم ملتا ہے پھر جبریل (علیہ السلام) آسمان میں اس کے مبغوض ہونے اور ناپسند ہونے کی منادی کرتے ہیں تو آسمان والے اس سے بغض کرنے لگتے ہیں پھر زمین میں اس کے متعلق نفرت اور بغض کا جذبہ بڑھنے لگتا ہے ۔ ( صحیح مسلم) غور کرو گے تو یہ حدیث تم کو بہت بڑا سبق دے گی اور وہ یہ کہ اللہ والوں کی محبت کی ابتداء خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے شروع ہوتی ہے اور اس کا چرچا سب سے پہلے آسمانوں میں کیا جاتا ہے اور اختتام زمین پر ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس لئے کہ وہ انعام الٰہی کا مکمل طور پر پابند ہوتا ہے اور سختی کے ساتھ ان پر قائم رہتا ہے اور زندگی کے کسی حصہ میں بھی وہ احکام الٰہی کی پیروی سے مستثنیٰ قرار نہیں پاتا اور جو احکام الٰہی کا نہایت سختی کے ساتھ پابند نہ ہو وہ ولایت کا مستحق نہیں قرار پاتا بلکہ وہ شیطان کا دوست کہلات ہے اب اس حدیث کے پیش نظر اپنے سیدوں ، پیروں ، مرشدوں اور مذہبی رہنمائوں کا تجزیہ کر کے دیکھو اور بتائو کہ وہ اولیائے رحمن کہلانے کے مستحق ہیں یا اولیائے شیطان کہلانے کے اور پھر یہ بھی کہ جو لوگ لوگ ان بزرگوں اور اللہ کے سچے ولیوں کی خانقاہوں اور درباروں پر کر رہے ہیں یہ شیطانی کام ہیں یا رحمانی ؟ ایک بار پھر غور کرو اور اپنی ایمانداری سے بتائو کہ یہ خانقاہیں اور دربار بدکاری کے اڈے نہیں بنا دیئے گئے ۔ افیون ، بھنگ ، چرس اور ہیروئن جیسی ناپاک چیزیں وہاں استعمال نہیں ہوتیں ۔ ناچ اور گانے وہاں نہیں ہوتے ، ڈھول اور دف وہاں نہیں بجائے جاتے کیا اولیائے کرام (رح) ان سارے کاموں کو جائز سمجھتے تھے ۔ کیا ان کاموں میں کوئی ایک کام بھی ہے جو شیطان کی سرپرستی میں نہ ہوتا ہو ؟ کیا اولیائے کرام (رح) کے ساتھی شیطان ہوتے ہیں ؟ کیا متقی اور پرہیز گار لوگ ان کاموں کو کرتے دیکھتے اور سنتے ہیں ؟ خدا کا خوف کرو اور اولیائے کرام (رح) کی توہین مت کرو کیونکہ ایسا کر کے اللہ تعالیٰ کے ہاں مبغوض ٹھہرو گے۔
Top