Urwatul-Wusqaa - Yunus : 68
قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ١ؕ هُوَ الْغَنِیُّ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۭ بِهٰذَا١ؕ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
قَالُوا : وہ کہتے ہیں اتَّخَذَ : بنا لیا اللّٰهُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے ھُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز لَهٗ : اس کے لیے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِنْ : نہیں عِنْدَكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ : کوئی سُلْطٰنٍ : دلیل بِهٰذَا : اس کے لیے اَتَقُوْلُوْنَ : کیا تم کہتے ہو عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
یہ لوگ کہتے ہیں اللہ نے ایک بیٹا بنا رکھا ہے اس کے لیے تقدیس ہو ! وہ تو بےنیاز ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کے لیے ہے ، تمہارے پاس ایسی بات کہنے کے لیے کونسی دلیل آگئی ؟ کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی بات کہنے کی جرأت کرتے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں ؟
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے کس کو ولد بنا لیا ہے آخر کیوں ؟ 97 ؎” یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنا ایک بیٹا رکھا ہے “ ۔ یہ کہنے والے کون تھے ؟ ان لوگوں سے مراد بہت سے اہل باطل لئے جاسکتے ہیں لیکن خاص طور پر اشارہ اس گھڑے ہوئے مذہب ” تثلیث “ کی جانب ہے جس کا نام ایک اللہ کے سچے رسول ﷺ کی جانب منسوب کر کے مسیحیت رکھ لیا گیا ہے حالانکہ اس کے عقائد باطلہ سے نعوذ باللہ سید نا مسیح (علیہ السلام) کو کوئی نسبت نہیں ” اتخذ والذا “ کا صحیح ترجمہ ” بنا رکھا ہے ایک بیٹا “ لے رکھا ہے ایک بیٹا “ اس جگہ ان میحیوں کا قول نقل کیا گیا جو کہتے تھے کہ ” اللہ کا ایک بیٹا ہے “ بلکہ یہ ان مسیحیوں کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے جو بیان کرتے تھے کہ ” اللہ نے ایک بیٹا بنا لیا ہے “ اتخاذ ولد کا صاف صاف مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے گویا کسی کو متنبی کرلیا ہے۔ قرآن کریم کی تلمیحات کو پوری طرح سمجھنے کیلئے قرآن کریم نے صدہا مقدمات کی طرح یہاں بھی اس کی ضرورت ہے کہ نظر اہل باطل کے عقائد و خیالات پر ذرا گہری ہو۔ مسیحیوں کے ہاں ایک زبردست قرقہ " Adoprinists" کے نام سے گزرا ہے ان کے مرکزی عقیدہ کیلئے اصطلاحی لفظ تبنیت (Adoprionists) کا ہے ۔ عقیدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ مسیح خلقتہً خدا نہیں وہ خدا پیدا نہیں ہوئے۔ وہ خدا شروع سے بنے بنائے اور خود بخود نہیں ہیں بلکہ اضلا ً و خلقاً وہ انسان ہی تھے البتہ اقنوم ثالثہ یعنی روح القدس کا فیضان ان پر شروع ہی سے ہونے لگا تھا اس لئے وہ قدوست کے ایسے اوج کمال پر پہنچ گئے اور روح الٰہی ان کے اندر ایسی حلول کرگئی کہ اقنوم اول یعیہ خدائے برتر و اعظم نے اپنابیٹاقراردے کر ، اپنا متنبی بنا کر شریک الوہیت کرلیا اور اب وہ ربوبیت ، مالکیت وغیرہ جملہ صفات الٰہی میں شریک وسہیم ہیں اس عقیدہ کے وجود کی شہادت تاریخ میں 185 میں ملتی ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں پاپائے روم نے اسے الحادو زندقہ قرار دیا ۔ بارہویں صدی عیسوی میں اس نے پھر زور پکڑا اور پھر یہ لوگ زندیق قرار پائے تفصیل اس کی تاریخ میں ملے گی ۔ اس آیت میں صاف اشارہ مسیحیت کی اس شاخ کی جانب ہے۔ بڑے سے بڑا محقق مفسر بھی بہر حال بندہ اور بشر ہی ہوتا ہے کسی کی نظر سے کوئی پہلو رہ جاتا ہے اور کسی کو نظر سے کوئی پہلو ۔ مسیحیت کے سلسلہ میں خوب یاد رہے کہ مسیح مذہب میں عقیدہ ٔ انبیت کوئی ثانوی درجہ یا فرعی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ مسیحیت کی جان یہی عقیدہ ہے اگرچہ اس کی تعبیرات مختلف ہیں اور زیر نظر آیت میں ان لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق متنبی کا عقیدہ رکھتے تھے۔ لیکن کفار عب کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے نعوذ باللہ اللہ کی بیٹیاں ہیں جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے ” ان یدعون من دونہ الا اناثا “ ( النساء 4 : 117) اور اس کی تشریح بھی ہم جلد دوم تفسیر سورة النساء میں کر آئے ہیں اور اس طرح ایک جگہ ارشاد فرمایا : اَفَاَصْفٰـکُمْ رَبُّکُمْ بِالْبَنِیْنَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ اِنَاثًا (الاسراء : 17 : 40) اور ایسا ہی سورة الصافات : 150 میں اور سورة الزخرف 90 میں بیان ہوا ، لہٰذا زیر نظر آیت کے اس حصہ میں ان کو بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ اس عقیدہ بد کی تردید کی جا رہی ہے کہ تم نے کیسی بیوقوفی کی بات کردی ہے 98 ؎ آیت کے اس حصہ میں اس عقیدہ کے رد کیلئے دو دلیلیں پیش فرمائی جا رہی ہیں ۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ وہ غنی ہے یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں اور کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے وجود ، اپنی نشو ونما اور اپنی بقاء میں اس کا محتاج ہے۔ اولاد کی ضرورت تو اس لئے محسوس کی جاتی ہے کہ انسان جو کمزور ہے وہ چاہتا ہے کہ اسکی اولاد ہوتا کہ وہ طاقتور ہوجائے اور اپنے دشمنوں کو مغلوب کرسکے یا وہ فقیر و کنگال ہے وہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد ہو جو کسب رزق میں اس کی معاون ثابت ہو یا انسان جب سوچتا ہے کہ ایک نہ ایک دن اسے یہاں سے رخت سفر باندھنا ہے تو اس کے دل میں اولاد کی خواہش پیدا ہوتی ہے جو مرنے کے بعد اس کے نام کو اور اس کی یاد کو زندہ رکھ سکے اور جو ذات ہر قسم کے احتیاج اور ضرورت سے پاک ہے اس کو اولاد کی خواہش آخر کیوں ؟ اور پھر دوسری دلیل لہ ما فی السموات والارض الخ سے دی کہ جب عالم ہست و بود کی ہر چھوٹی بڑی چیز اس کی پیدا کردہ ہے اور اس کی مملوک ہے تو وہ اس کی اولاد کیسے بن سکتی ہے۔ اللہ کے متعلق تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کا تم کو علم نہیں ہے ؟ 99 ؎ قرآن کریم نے ایک طرف اثبات توحید پر بیسیوں دلائل دیئے اور دوسر طرف اہل شرک سے بار بار مطالبہ بھی کیا کہ تم اپنی باطل پرستی پر کیا دلیل رکھتے ہو ؟ تم آخر کیوں ایک سراسر دعویٰ بےدلیل کی پیروی کر رہے ہو ؟ اور پھر ایسے لغو دعویٰ اور جھوٹ موت پر کیوں عمل پروا ہو ؟ ان سے کہا جا رہا ہے کہ اس عقیدہ کے بنیادی تصورات میں رب ذوالجلال والاکرام پر بہت سے عیوب ، بہت سی کمزوریاں ، بہت سے نقائص اور بہت سی احتیاجوں کی تہمت لگی ہوئی ہے اس بناء پر پہلے فقرے میں فرمایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب ، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو تم اس کی طرف منسوب کر رہے ہو ۔ دوسرے فقرے میں ارشاد فرمایا کہ وہ ان حاجتوں سے بھی بےنیاز ہے جس کی وجہ سے فانی انسانوں کی اولاد کی یا بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور تیسرے فقرے میں صاف کہہ دیا گیا کہ زمین و آسمان میں سب اللہ کے بندے اور اس کے مملوک ہیں ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اللہ کا ایسا کوئی مخصوص ذاتی تعلق نہیں ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسے وہ اپنا بیٹا یا اکلوتا یا ولی عہد قرار دے دے۔ صفات کی بناء پر بلا شبہ اللہ بعض بندوں کو بعض کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتا ہے مگر اس محبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی میں شرکت کا مقام دے دیا جائے زیادہ سے زیادہ اس محبت کا تقاضا بس وہ ہے جو اس سے پہلے کی ایک آیت میں بیان کردیا گیا ہے کہ ” جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کیلئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ، دنیا اور آخرت دونوں میں ان کیلئے بشارت ہی بشارت ہے “۔ اور آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ تمہارے پاس جب اس کی کوئی دلیل موجود نہیں تو کیا تم اللہ پر ایسی بات گھڑتے ہو جس کا تم کو بھی کوئی علم نہیں کہ تم ایسی بات کیوں کہہ رہے ہو ؟ تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ کوئی بھی ایسا دعویٰ جس کیلئے کوئی دلیل موجود نہ ہو کبھی صحیح نہیں ہوتا اور آنے والی آیت میں مزید وضاحت کی جا رہی ہے۔
Top