Urwatul-Wusqaa - Yunus : 74
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ فَجَآءُوْهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ١ؕ كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجے مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد رُسُلًا : کئی رسول اِلٰى : طرف قَوْمِهِمْ : ان کی قوم فَجَآءُوْھُمْ : وہ آئے ان کے پاس بِالْبَيِّنٰتِ : روشن دلیلوں کے ساتھ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا : سو ان سے نہ ہوا کہ وہ ایمان لے آئیں بِمَا : اس پر جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِهٖ : اس کو مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل كَذٰلِكَ : اسی طرح نَطْبَعُ : ہم مہر لگاتے ہیں عَلٰي : پر قُلُوْبِ : دل (جمع) الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
پھر نوح کے بعد ہم نے رسولوں کو ان کی قوموں میں پیدا کیا وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے تھے اس پر بھی ان کی قومیں تیار نہ تھیں کہ جو بات پہلے جھٹلا چکی ہیں اسے مان لیں سو دیکھو جو لوگ حد سے گزر جاتے ہیں ہم اس طرح ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں
نوح (علیہ السلام) کے بعد دوسرے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوتوں کا مختصر ذکر 105 ؎ سیدنا نوح (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد فرمایا ان کے بعد سب سے رسول مختلف قوموں میں مبعوث ہوئے اور ایسا ہی معاملہ پیش آیا کہ ان سب نے اپنی اپنی قوم کو پیغام حق سنایا اور اپنے پیغام کی صداقت کو دلائل و معجزات سے ثابت کیا لیکن قوم نے ایک مرتبہ جس بات کو ماننے سے انکار کیا پھر اس کے ماننے سے انکار ہی کرتی رہی ۔ کوئی قوی سے قوی دلیل بھی انہیں اپنی روش بدلنے سے آمادہ نہ کرسکی ۔ ان کی اس پیہم سر کشی کے باعث حق پیری کی جو صلاحیت ان میں رکھی گئی تھی وہ ضائع ہوگئی اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ۔ دوسرے لوگوں کی طرح ان میں بھی نور حق کو دیکھنے ، آواز حق کو سننے اور دعوت حق کو سمجھنے اور قبول کرنے کی صلاحیتیں تھیں لیکن انہوں نے اپنی بد اعمالیوں سے خود ہی انہیں ضائع کردیا۔ حد سے گزر جانے والے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے 106 ؎” معتدین “ معند اسے کہتے ہیں جو اپنے نفس کی خواہش کی تعمیل کرتے ہوئے حق و انصاف کی حدود سے تجاوز کر جائے۔ ( راغب ) سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بعد سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کی تفصیل کی کیونکہ اہل عرب ان کے نام سے نا آشنانہ تھے اور یہ بھی عرب کے اندر بسنے والے یہود بھی تھے اور ان کو موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر پورا پورا اعتقاد تھا اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت سے وہ کافی حد تک نکل چکے تھے تا ہم نام انہی کی نبوت کا لیتے تھے اور جو کچھ انہوں نے بتایا وہ اسی شریعت موسیٰ کی طرف نسبت کرتے تھے اور تقریباً ان کی حالت اسی طرح تھی جس طرح آج کل قوم مسلم کی حالت ہو رہی ہے اور اس مہر لگائے جانے کا مطلب ہم پیچھے کئی ایک مقامات پر بڑی تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔
Top