Urwatul-Wusqaa - Yunus : 75
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَ هٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰى : موسیٰ وَھٰرُوْنَ : اور ہارون اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اس کے سردار بِاٰيٰتِنَا : اپنی نشانیوں کے ساتھ فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : لوگ مُّجْرِمِيْنَ : گنہگار (جمع)
پھر ہم نے ان رسولوں کے بعد موسیٰ اور ہارون (علیما السلام) کو بھیجا فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف وہ ہماری نشانیاں اپنے ساتھ رکھتے تھے مگر فرعون اور اس کے درباریوں نے گھمنڈ کیا ان کا گروہ مجرموں کا گروہ تھا
کتنے ہی رسولوں کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بھیجا 107 ؎ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا تعلق قوم بنی اسرائیل سے تھا اور آپ (علیہ السلام) کی پرورش معجزانہ طور پر اللہ رب العزت ولا اکرام نے فرعون وقت کے گھر رکھ کر کرائی اور بعض حالات کی بناء پر موسیٰ (علیہ السلام) کو مصر چھوڑنا پڑا اور ابھی اس وقت نبوت کا اعلان آپ (علیہ السلام) سے نہیں کروایا گیا تھا۔ مصر سے نکل کر آپ (علیہ السلام) مدین پہنچے اور وہاں آٹھ دس سال رہنے کے بعد واپس مصر کی طرف آرہے تھے کہ راستہ میں اللہ تعالیٰ کا پیغام نبوت مل گاد۔ چناچہ آپ (علیہ السلام) نے مصر پہنچ کر فرعون وقت کو اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایا لیکن پوری بائبل میں اس کی تصریح نہیں ملتی کہ ان دونوں پیغمبروں نے اپنے پیغام توحید کی تبلیغ میں کبھی مصریوں کو بھی مخاطب کیا تھا حالانکہ یہ کیونکر ممکن تھا کہ جو اللہ کی توحید کا مفاد ہو وہ اصلاح عقائد کی کوشش سب سے پہلی ہی مرتبہ پر نہ کرے اور کفر و ضلالت کو اس حال پر چھوڑ دے اور سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی وہ خاموش رہے یہ منصب نبوت کے خلاف ہے اور نبوت اور عام داعی کا سب سے پہلا فرق اس جگہ سے نظر آتا ہے کہ داعی الی اللہ برائی کو دیکھ کر کبھی خاموش رہ سکتا اور یہ کہ داعی اسلام کا سب سے پہلا فرض ہی یہ کہ وہ دعوت توحید دے کر اور یہی کام موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی کیا اور قوم بنی اسرائیل مصر سے لے نکلنے کی حیثیت ثانوی تھی اور اگرچہ وہ بنی اسرائیل کے حق میں اولیت رکھتی ہو اور فرعون سے بنی اسرائیل کا مصر سے کہیں لے جانے کا سوال فرعون کی دعوت توحید کے ٹھکرانے کے نتیجہ میں پیدا ہوا تھا جس کا اصل مقصد ہی یہ تھا کہ فرعونیوں اور بنی اسرائیلیوں کے عقائد میں بعد المشرقین تھا اس لئے وہ ایک قانون کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتے تھے اور یہی اس سارے قصے کا ماحصل بھی ہے۔ مصریوں نے سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیلوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا اور ان سے طرح طرح کی زیادتیاں انہوں نے روا رکھی تھیں اور ملک میں ایسے قانون رائج تھے جن کی وجہ سے بنی اسرائیل زندگی کے دن کاٹنے کیلئے زندہ رہ رہے تھے اور ان کی زندگی وہی زندگی تھی جس سے موت بدر جا بہتر ہوتی ہے اور مرنے سے پہلے ہی و میں مر جاتی ہیں ۔ اس کی تفصیل ہم سورة البقرہ 2 : 70 اور 71 میں کر آئے ہیں ، وہاں سے ملاحظہ فرمائیں۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) کے ذکر میں بھی اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات میں صرف انہی پہلوئوں پر زور دیا ہے جو سورت کی موعظت سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً یہ کہ : 1۔ مفتر علیہ اللہ فلاح نہیں پا سکتا۔ 2۔ نہ وہ جو صادق کا مقابلہ کرے یعنی اللہ کے کسی بھی رسول کا مقابلہ کرنے والا ۔ 3۔ ہدایت ایسی چیز نہیں ہے کہ زبردست کسی کو پلا دو ، جو ماننے والا نہیں وہ کبھی نہیں مانے گا خواہ کتنی ہی نشانیاں دکھلائو ایسا ہی ہمیشہ ہوا اور اب بھی ایسا ہی ہوگا ۔
Top