Urwatul-Wusqaa - Yunus : 76
فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْۤا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ
فَلَمَّا : تو جب جَآءَھُمُ : آیا ان کے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ : سے عِنْدِنَا : ہماری طرف قَالُوْٓا : وہ کہنے لگے اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ لَسِحْرٌ : البتہ جادو مُّبِيْنٌ : کھلا
پھر جب ہماری جانب سے سچائی ان پر نمودار ہوگئی تو کہنے لگے یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جادو ہے صریح جادو
لیکن ہر قوم نے جب ہماری سچائی نمودار ہوء تو اس کو جادو کہہ کر ٹھکرا دیا 108 ؎ بلا شبہ دلائل وبراہین کی روشنی نے حق کی حقانیت تو ان پر واضح کردی تھی لیکن از راہ نخوت وہ اسے قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے وہ عادی مجرم تھے اور جرم و گناہ کی محبت میں وہ مگن تھے۔ سچائی اور نیکی سے انہیں خدا واسطے کا بیر تھا۔ وہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزانہ کلام کو بھی ساحرانہ شعبدہ بازی ہی سمجھتے رہے اور اس فن میں انہیں پہلے ہی کمال تھا اس لئے وہ کسی ساحر کی غلامی پر کسی طرح رضا مند ہونے کیلئے تیار نہ ہوئے۔ ” فلما جاء ھم الحق “ میں ” الحق “ ح ق ق ہے اور عربی زبان میں ’ ’ حقق “ کا لغوی خاصہ ثبوت اور قیام ہے یعنی وہ بات جو ثابت ہو ، دلائل رکھتی ہو ، اٹل ہو ، ان مٹ ہوا سے ” حق “ کہتے ہیں اور باطل ٹھیک ٹھیک اس کی نقیض کا نام ہے یعنی اسی بات جس کیلئے کوئی دلیل موجود نہ ہو ، جو مٹ جانے والی اور باقی نہ رہنے والی ہو پس قرآن کریم نے سچائی کو ” حق “ سے انکار کو ” باطل “ سے تعبیر کر کے یہ بات واضح کردی ہے کہ سچائی کا خاصہ ثبوت و قیام ہے اور انکار و سر کشی کیلئے نہ ٹک سکنا اور مٹ جانا ہے یہی وجہ ہے کہ جا بجا اس طرح کی تعبیرات ہمیں ملتی ہیں کہ ” اللہ حق کو حق کردے گا اور باطل کو باطل “ یعنی حق ثابت و قائم رہ کر اپنی حقانیت ثابت کر دے گا اور باطل نابود ہو کر اپنے بطلان کا ثبوت دے دے گا ۔ تفصیل اس کی سورة الانفال کی آیت 8 میں گزر چکی ۔ وہاں سے ملاحظہ کرلیں اور مزید بیان آگے آیت میں 82 میں آ رہا ہے۔
Top