Urwatul-Wusqaa - Yunus : 77
قَالَ مُوْسٰۤى اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَكُمْ١ؕ اَسِحْرٌ هٰذَا١ؕ وَ لَا یُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ
قَالَ : کہا مُوْسٰٓى : موسیٰ اَتَقُوْلُوْنَ : کیا تم کہتے ہو لِلْحَقِّ لَمَّا : حق کیلئے (نسبت) جب جَآءَكُمْ : وہ آگیا تمہارے پاس اَسِحْرٌ : کیا جادو هٰذَا : یہ وَلَا يُفْلِحُ : اور کامیاب نہیں ہوتے السّٰحِرُوْنَ : جادوگر
موسیٰ نے کہا تم سچائی کے حق میں جب وہ نمودار ہوگئی ایسی بات کہتے ہو کیا یہ جادو ہے ؟ حالانکہ جادوگر تو کبھی کامیابی نہیں پا سکتے
سچائی کو جادو قرار دینے والوں کو موسیٰ (علیہ السلام) نے کیا جواب دیا ؟ 109 ؎ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعونیوں سے کہا کہ تم حق کی نشانیوں کو جادو کہتے ہو حالانکہ ایک موٹی سی بات جو عام طور پر دیکھی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ جو جادو ہو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ جادو انسان کی بناوٹ اور شعبدہ طرازی ہے اور ایک انسان اپنی بناوٹوں اور کرتبوں میں کتنا ہی ہوشیار ہو لیکن حق کے مقابلہ میں کبھی نہیں ٹک سکتا ۔ حق کو چھپا دیا جائے اور باطل کو پھیلا دیا جائے ممکن ہے ، ہوتا رہا ہے ، ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا اس لئے کہ حق کی عدم موجودگی میں باطل کو پھیلایا جاتا رہا ہے ، پھیلایا جا رہا ہے اور پھلایا جاتا رہے گا اس سے نہ انکار ہے اور نہ ہی کبھی انکار کیا گیا اور نہ ہی انکار کیا جاسکتا ہے لیکن جب بھی دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو حق ثابت ہوگیا یعنی فتح پا گیا اس لئے کہ باطل مٹنے ہی کے قابل ہوتا ہے اس کیلئے فتح مندی ممکن نہیں ۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی سر گزشتوں کا مطالعہ کرو انبیاء کرام (علیہ السلام) ہمیشہ حق لے کر آئے اور قوموں نے ہمیشہ باطل کا ساتھ دیا اور حق کو قبول کرنے سے انکار کیا اور یہ سلسلہ برابر جاری رہا ہے تا آنکہ وہ وقت بھی آگیا کہ حق اور باطل دونوں کا مقابلہ اور آمنا سامنا ہوگیا لیکن جب بھی ایسا ہوا تو حق نے فتح پائی اور باطل مٹ گیا اور اس جادو یعنی باطل کا اثر انبیاء کرام پر ایک لمحہ کیلئے بھی نہ ہوا ۔ اللہ کے سارے نبیوں کو ساحر کہا گیا جس کے معنی باطل پرست کے ہیں اور پھر خود ہی یہ دیکھ کر کہ ان پر کوئی اثر تو ہو نہیں رہا ہے تو انہی لوگوں نے ” سحر زدہ “ ہونے کا الزام دیا ۔ قرآن کریم نے جو تذکار درج کئے ہیں ان میں یہ ثابت کیا ہے کہ یہ ان قوموں کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ تھا کہ ان کو بات کرنے کی سمجھ نہ آئی اور متضاد باتیں کرتے رہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی نبی نہ تو ساحر ہوا اور نہ ہی اس پر کبھی کسی ساحر کے سحر کا اثر ہوا یعنی جس طرح نبی کو ” ساحر “ کہنے والوں کے پاس کوئی دلیل نہ تھی بالکل اسی طرح نبی کو ” سحر زدہ “ کہنے والوں کے پاس بھی کوئی دلیل نہ تھی صرف ایک بڑ تھی جو وہ بکتے رہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ نبی نہ تو خود ” باطل پرست “ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کی ” باطل پرستی “ کا اس پر کوئی اثر ہو سکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ قوم مسلم کی اکثریت نے بھی بہت سی باتوں کی طرح اس بات میں بھی غلطی کھائی اور نبی اعظم و آخر ﷺ کو ” سحرزدہ “ مان لیا ۔ تف ہے ایسے لوگوں پر جنہوں نے اپنی ناسمجھی سے ایسا سمجھ لیا اور پھر روایات کا سہارا لے کر اپنی سمجھی ہوئی بات کو حقیقت کا لباس پہنا کر بڑے خوبصورت طریقے کے ساتھ قوم کے سامنے رکھ دیا اور پھر قوم کی اکثریت نے یہ سمجھ کر یہ خود رسول اللہ ﷺ کے ارشادات ہیں ان کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہ تھی ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان روایات میں جو زیادہ مشہور معروف اور مستندکتب احادیث میں آئی ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے اصل حقیقت سے پردہ اٹھا دیں تاکہ قارئین خودفیصلہ فرما لیں کہ بات کیا تھی اور کیا بنا کر رکھ دی گئی اور یہ کہ کیا قرآن کریم کسی نبی کو ” سحر زدہ “ تسلیم کرتا ہے یا نبی کے ” سحر زدہ “ ہونے کی نفی کرتا ہے۔ پھر اگر قرآن کریم کسی نبی کے ” سحر زدہ “ ہونے کی نفی کرے تو کیا اس کے باوجود کسی نبی (علیہ السلام) کا ” سحر زدہ “ ہونا مان لیا جاسکتا ہے ؟ کیا اس طرح کتاب و سنت میں تضاد نہیں ہوگا ، اگر نہیں ہوگا تو کیوں اور کیسے ؟ کیا رسول اللہ ﷺ پر جادو کا اثر ہوا تھا سورة التوبہ کا حاشیہ نمبر 109 جس نے ذرا غور و فکر سے دیکھا ہے وہ خود اس بات کو جان سکتا ہے کہ سحر کے متعلق ہماری تفہیم کیا ہے ؟ اور یہ کہ جب قرآن کریم یہ بیان کرے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کا اثر نہیں ہوا تو پھر ہم یہ کیسے تسیمک کریں گے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ پر کسی کے جادو کا کوئی اثر ہوا ؟ قطعاً ہم ایسا تسلیم نہیں کرسکتے بلکہ پورا زور دے کر یہ بات کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر کبھی جادو کا کوئی اثر نہیں ہوا لیکن یہاں اکثر سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا جادو کوئی چیز ہے ؟ اسی لئے ہم اس سوال سے بات شروع کرتے ہیں۔ کیا جادو کوئی چیز ہے ؟ اس سے پہلے کہ ہم اس کا جواب دیں ہم پوچھتے ہیں کہ کیا دھوکہ و فریب کوئی چیز ہے ؟ کیا جھوٹ و کذب گوئی کوئی چیز ہے ؟ کیا شعبدہ بازی کوئی چیز ہے ؟ کیا ملمع سازی کوئی چیز ہے ؟ کیا چغل خوری اور چرب زبانی کوئی چیز ہے ؟ ظاہر ہے کہ ان ساری چیزوں کا جواب ہے ہاں ! یہ ساری چیزیں ہیں ، تو جان لینا چاہئے کہ ان ساری چیزوں پر لفظ جادو کا اطلاق ہوتا ہے اس لئے اس سوال کا جواب کہ کیا جادو کوئی چیز ہے ؟ خود بخود یہ طے پا گیا کہ بلا شبہ جادو ایک چیز ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا جادو موثر ہوتا ہے ؟ سو اس کا جواب دینے سے پہلے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ کیا ایک انسان کا دوسرے انسان سے دھوکہ کھا جانے کا امکان ہے ؟ کسی کے جھوٹ بولنے اور کذب گوئی کرنے سے آدمی پر اثر ہوتا ہے یا نہیں ؟ کیا انسان کسی شعبدباز کی شعبدہ بازی سے متاثرہوتا ہے یا نہیں ؟ کیا کسی طمع ساز کی ملع سازی ، چغل خور کی چغل خوری اور چرب زبان کی چرب زبانی سے انسان متاثر ہوجاتا ہے یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ ان سارے سوالوں کا جواب بھی ایک ہی ہے کہ بلا شبہ ان کا اثر ہوجاتا ہے تو بس یہی جواب اس کا ہے کہ کیا جادو موثر ہوتا ہے ؟ ہاں جادو کا اثر ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح اوپر بیان کی گئی ساری چیزوں کا اثر ہوجاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی نبی و رسول جادوگر بھی تھا ؟ ہاں ! اگر نبی و رسول دھوکہ باز ، فریب دینے والا ، جھوٹ بولنے والا ، کذب گوئی کرنے والا ، شعبدہ باز ، ملمع ساز ، چغل خور اور چرب زبان ہو سکتا ہے تو ” ساحر “ یعنی جادوگر بھی ہو سکتا تھا ۔ اگر اوپر بیان کی گئی چیزوں میں سے کسی ایک چیز کا مرتکب نبی و رسول نہیں ہو سکتا تو بلا شبہ کوئی نبی و رسول بھی ” ساحر “ یعنی جادوگر نہیں تھا اور نہ ہی ہو سکتا تھا اور نہ ہی کوئی ہوا ۔ قرآن کریم و احادیث سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ بشمول ہمارے نبی اعظم و آخر ﷺ دوسرے انبیاء کرام کو بھی ” ساحر “ کہا گیا باوجود اس کے کہ وہ کبھی بھی ” ساحر “ یعنی جادوگر نہیں تھے اور یہ بات بھی محقق ہے کہ بشمول نبی اعظم و آخر ﷺ کے سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے منافقین نے دھوکہ دینے ، فریب دینے ، چغل خوری کرنے ، چرب زبانی سے کام لینے کی کوشش کی اور وقتی طور پر ان کو کامیابی بھی ہوئی لیکن جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول و نبی کو بتا دیا کہ ان لوگوں نے آپ کو اس طرح فریب دیا ہے آپ ان کو واضح کردیں اور اللہ تعالیٰ کا پیغام وصول کر کے آپ نے ان لوگوں کو مطلع بھی کیا اور ان سے بچنے کی کوشش بھی کی اور اس میں کامیاب بھی ہوئے اور اسی طرح بشمول ہمارے نبی اعظم و آخر ﷺ سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے لوگوں نے ” سحر زدہ “ بھی قرار دیا لیکن قرآن کریم نے ان کے اس الزام کی سخت تردید کی اور واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہمارا رسول ، ہمارا نبی کبھی ” سحر زدہ “ نہیں ہو سکتا ۔ اب سوال یہ ہے کہ ” سحر زدہ “ ہونا کیا ہے ؟ اور یاد رکھنا چاہئے کہ سحر زدہ ہونا یہ ہے کہ کوئی مکار اور فریبی کسی نبی اور رسول کے ساتھ کسی طرح کی کوئی مکاری یا فریب کرے اور نبی و رسول اس کے فریب اور مکر میں پھنس کر رہ جائے اور اس طرح پھنسا ہی رہے جیسا کہ دوسرے لوگ پھنس جاتے ہیں ۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ، کیوں ؟ اس لئے کہ پھر عام انسانوں اور نبی و رسول میں کوئی خط امتیاز باقی نہیں رہتا اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے نبی و رسول عام انسانوں سے الگ کردیا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس عالم الغیب الشہادۃ کی طرف سے پیغام آتا رہتا ہے جو دوسرے انسانوں کے پاس نہیں آتا اور نبی و رسول کو اس کی اطلاع دی جاتی ہے جو دوسرے انسانوں کو نہیں دی جاتی ۔ اس جگہ ہم سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر نہیں کرسکتے صرف نبی اعظم و آخر ﷺ ہی کا ذکر کریں گے اور اس سے دوسرے انبیاء کرام کی بات بھی سمجھ لینی چاہئے ۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِہٖٓ اِذْ یَسْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ وَاِذْ ھُمْ نَجْوٰٓی اِذْ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلاَّ رَجُلاً مَّسْحُوْرًا (الاسراء 17 : 47) ” ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں تو دراصل کیا سنتے ہیں اور جب بیٹھ کر باہم سر گوشیاں کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں ، یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک ” سحر زدہ “ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جا رہے ہو “۔ اس آیت میں اشارہ ہے ان باتوں کی طرف جو کفار مکہ کے سردار آپس میں کیا کرتے تھے ان کا حال تو یہ تھا کہ وہ چھپ چھپ کر قرآن کریم کو سنتے اور پھر آپس میں بیٹھ کر مشورے کرتے تھے کہ اس کا توڑ کیا ہونا چاہئے اس معاملہ میں کتنی ہی باتیں تھیں جو وہ آپس میں ایک دوسرے کو کہتے تھے اور پھر باتوں ہی باتوں میں انہیں اپنے ہی آدمیوں پر کبھی یہ شبہ بھی ہوجاتا تھا کہ شاید یہ شخص قرآن کریم سن کر متاثر ہوگیا ہے اس لئے وہ سب مل کر اس کو سمجھاتے تھے کہ اجی یہ تم کس کے پھیر میں آ رہے ہو یہ شخص تو ” سحر زدہ “ ہے اور کوئی مکار اور فریبی آکر اس کو کچھ سمجھا دیتا ہے اور اس پر اس کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہی باتیں وہ دوسرے لوگوں کے سامنے کہنا شروع کردیتا ہے اور ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : وَقَالُوْا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِط لَوْ لَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا اَوْ یُلْقٰٓی اِلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ تَکُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاْکُلُ مِنْہَاط وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا (الفرقان : 25 : 7 ، 8) ’ ’ اور وہ کہتے ہیں یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور با زاروں میں چلتا پھرتا ہے ؟ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور نہ ماننے والوں کو دھمکاتا ؟ یا اور کچھ نہیں تو اس کے لئے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ اطمینان کے ساتھ روزی تو حاصل کرتا رہتا اور ظالم کہتے ہیں تم لوگ تو ایک ” سحر زدہ “ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو “۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ” سحر زدہ “ ہونے کی تین صورتیں عربوں کے ہاں اس وقت معروف تھیں اور اس کی دیوانگی کا نام بھی دیا جاتا تھا۔ 1۔ یہ کہ وہ اپنے خیال سے یہ سمجھ لیتے کہ اس پر کسی جن کا سایہ ہوگیا ہے۔ 2۔ یہ کہ وہ اپنے خیال میں یہ سمجھ لیتے تھے کہ کسی دشمن جادوگر نے اس کو پاگل بنا دیا ہے۔ 3۔ یہ کہ وہ اپنے خیال میں سمجھ لیتے تھے کہ اس نے کسی دیوی یا دیوتا کی شان میں گستاخی کی ہے اور اس کی اس کو مار لگ گئی ہے۔ اور کفار مکہ وقتاً فوقتاً یہ تینوں وجود نبی اعظم و آخر ﷺ کے متعلق بیان کرتے تھے کبھی کہتے کہ اس شخص پر کسی جن کا تسلط ہوگیا ہے ، کبھی کہتے کہ کسی دشمن نے بیچارے پر جادو کردیا ہے اور کبھی کہتے کہ ہمارے دیوتائوں میں سے کسی کی بےادبی کرنے کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ مفسرین نے کفار مکہ کے یہ خیالات تحریر کئے ہیں اور جن کے یہ نظریات تھے وہ مشرکنب مکہ کہلائے اور بد قسمتی سے آج بھی ہمارے علمائے کرام (علیہ السلام) کی اکثریت اور ہمارے عوام کی کثیر تعداد انہی باتوں پر من و عن ایمان رکھتی ہے۔ پیچھے آپ نے دو آیات کریمات پڑھی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اذ یقول الظلمون ان تتبعون الا رجلاً مسحورا ” کہ یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک ” سحر زدہ “ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جا رہے ہو “۔ یہ بات جن لوگوں نے کہی تھی ( نبی سحر زدہ ہے) تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ” طالم “ قرار دے دیا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ نبی و رسول ” سحر زدہ “ نہیں ہو سکتا ۔ جو کسی نبی و رسول کو ” سحر زدہ “ سمجھے وہ سراسر جاہل ہے خواہ وہ کوئی ہو اور قرآن کریم نے اس کو ’ ’ ظالم “ کہا ہے۔ اب غور کرو کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کو ” سحر زدہ “ کن لوگوں نے کہا ۔ بات واضح ہے کہ مشرکین مکہ نے ، پھر خود ہی غور کرلو کہ آج جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ پر جادو کا اثر ہوگیا تھا کہ آپ ﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس گئے نہ ہوتے تو خیال کرتے کہ میں نے اس سے تعلق خاص پیدا کیا اور دوسرے کاموں میں بھی ایسا ہی ہوا کہ کبھی ایک کام کیا ہوتا تو کہہ دیتے کہ میں نے نہیں کیا اور ایسا بھی ہوتا کہ کبھی کام کوئی نہ کیا ہوتا اور فرماتے کہ میں نے کرلیا ہے اور یہ معاملہ ایک مدت تک رہا جس کا زیادہ سے زیادہ عرصہ تین سال اور بعض نے ایک سال لکھا اور پھر کہا اس سال میں آخری چھ ماہ بہت ہی سخت بیمار ہوگئے اور بعض نے چالیس روز کی مدت تسلیم کی ہے جس میں سے صرف تین نہایت سختی کے مانے گئے ہیں کہ صرف تین دن تک یہ حالت ہوئی تھی کہ اضطراب بہت بڑھ گیا تھا اور صحابہ کرام ؓ کو سخت تشویش ہوئی اور سب نے مل کر اللہ سے دعا کی اور خود نبی کریم ﷺ نے بڑے زور دار الفاظ میں دعا فرمائی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جبریل (علیہ السلام) کو مع دوسرے ساتھیوں کے نازل کیا اور انہوں نے آ کر جھاڑ پھونک کیا تب آپ کی حالت کچھ سنبھلی اور پھر آہستہ آہستہ درست ہونا شروع ہوگئی ۔ ہم نے اس وقت تک جادو کے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے اپنی زبان سے اور اپنے قلم سے کیا ہے لہٰذا اس سے پہلے کے اس مسئلہ کی تحقیق ہو اور اختصار کے ساتھ جو کچھ لکھا گیا اس کو بیان کیا جائے سب سے پہلے سحر کے متعلق اہل لغت کی رائے کو تحریر کرتے ہیں اور پھر قرآن کریم کی ان آیات کی طرف اشارہ کریں گے جن انبیاء کرام (علیہ السلام) کو ” ساحر “ کہا گیا یا ” سحر زدہ “ بیان کیا گیا ازیں بعد احادیث جن سے یہ مفہوم لیا گیا ہے اور اس کے بعد وہ احادیث جن میں آپ ﷺ پر جادو کرنے کا ذکر کیا گیا اور اس کے بعد نتیجہ ہوگا اور تفصیل اس کی انشاء اللہ العزیز سورة الفلق اور الناس میں ہوگی۔ لغت میں ” سحر “ کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے وہ اس طرح ہے ” سحر “ جادو کرنا سحر یسر کا مصد ہے اگرچہ یہ مصادر شاذہ میں ہے۔ علاوہ ابن خالویہ لغوی نے اپنی کتاب میں تصریح کی ہے کہ عربی زبان میں فعل یفعل فعلا کے وزن پر سوائے سحر یسحر سحرا ً اور کوئی مصدر نہیں ہے ( روح المعانی ج اول ص 305) لیکن علامہ ابو حیان نے البحر المحیط میں اتنا اور زیادہ کیا ہے کہ بجز سحر اور فعل کے اور کوئی مصدر بروزن فعل فعل یفعل کا نہیں پایا جاتا ( تاج العروس شرح قاموس) اور شیخ سمین نے بھی یہی کہا ہے ( بحر المحیط ج اول ص 219 الفتوحات الانہت بتوضیح تفسیر الجلالین للدقاء الحنیفہ مشہور بہ حاشیہ جمل علی الجلالین ج اول ص 87 طبع مصر 1352 ھ) امام ابوبکر جصاص رازی احکام القرآن میں رقم طراز ہیں کہ ” اہل لغت ذکر کرتے ہیں کہ سحر کی اصل لغت میں اس شے کے لئے ہے جو لطیف ہو اور جس کا سبب مخفی ہو اور سحران کے نزدیک بالفتح ، معنی غذا ہے کیونکہ وہ مخفی ہوتی ہے اور اس کے مجاری لطیف ہوتے ہیں بعید ؓ کہتے ہیں ؎ ارانا مرضعین لا مرغیب ونسحر بالطعام ویالشراب اس جگہ نسحر میں دو وجہیں بیان کی گئی ہیں ہم سحر زدہ کی طرح مشغول و فریفتہ تھے دوسرے یہ کہ ہم غذا حاصل کر رہے تھے اور جو وجہ بھی ہو اس کے معنی خفاء کے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک اور شاعر کہتا ہے ؎ فان تسئلینا فیما نحن فاننا عصا ضیر من ھذا الافام المسحر اس بیت کے معنی میں بھی وہی احتمال ہیں جو اول میں ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ مسحر سے ذو سحر یعنی پھیپھڑے والا مراد لیا ہو کہ سحر پھیپھڑے کو اور جو حلق سے لگا ہوا اسے کہتے ہیں جیسا کہ حدیث میں سیدہ عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ تو فی رسول اللہ ﷺ ما بین سحری و نحری رسول اللہ ﷺ نے میرے پھیپھڑے اور سینے کے بالائی حصہ کے ما بین وفات پائی اور ارشاد الٰہی ہے کہ انما انت من المسحرین یعنی تم اس مخلوق سے ہو جو کھاتی پیتی ہے اور اس کو ایک آیت میں اس طرح بیان کیا وما انت الا بشر مثلنا ( اور تو بھی ایک آدمی ہے جیسے ہم) بتلاتی ہے جس طرح کہ فرمایا مال ھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق ( یہ کیا رسول ہے) اور اس قسم کے مقامات پر لفظ سحر کا ذکر ان اجسام کے ضعف و لطافت اور رقت کے سبب کیا جاتا ہے نیز بایں ہمہ اس کے ذریعہ انسان کا قوام ہے لہٰذا جس کی یہ صفت ہو وہ ضعیف و محتاج ہے۔ یہ ہیں وہ معنی جو لغت میں ” سحر “ کے آتے ہیں پھر یہ اسم منقول ہو کر اس امر کے لئے استعمال ہونے لگا جس کا سبب مخفی ہو اور اپنی حقیقت کے خلاف اس کا تخیل ہونے لگا نیز ملمع اور دھوکہ بازی کے قائم مقام ہو اور جب بھی یہ لفظ مطلق بلا کسی قید کے استعمال ہوگا اپنے فاعل کی مذمت کو بتلائے گا قید کے ساتھ قابل مدح و ستائش کے بارے میں بھی استعمال ہوا ہے جیسے ان من البیان السحرا بعض بیان تو جادو ہے۔ (احکام القرآن ج اول ص 47 طبع مصر) امام راغب ؓ فرماتے ہیں ” سحر “ طرف حلقوم اور پھیپھڑے کو کہتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس ” سحر “ کا اشتقاق کیا گیا ہے اور وہ سحر یعنی گلے اور پھیپھڑے کو نشانہ بنانا ہے سحر مختلف معانی کے لئے بولا جاتا ہے (1) دھوکا دینا اور بےحقیقت خیالات کا پیدا کرانا جے سب شعبدہ باز کہ جو کچھ بھی کرتا ہے ہاتھ کی صفائی کی بنا پر نظریں بچا کر کرتا ہے اور جیسے کہ چغل خور ملمع کی باتوں کے ذریعے جو دوسری طرف سے کانوں کو بند کردیتی ہیں کیا کرتا ہے ارشاد الٰہی ہے سحر وا اعین الناس واسترھبوھم انہوں نے لوگوں کی آنکھوں کو باندھ دیا اور ان کو ڈرایا اور ایک جگہ فرمایا یخیل الیہ من سحرھم اس کے خیال میں آیا ان کے جادو اور اس نظر سے انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ساحر ( جادوگر) سے موسوم کیا وقالوا یاتۃ الساحر ادع لنا ربک ” اور وہ کہنے لگے اے جادوگر ! ہمارے واسطے رب کو پکار “ (2) شیطان سے کسی طرح کے تقریب کے ذریعہ اس کی معاونت کا حاصل کرنا جیسے کہ ارشاد الٰہی ہے ہَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰـطِیْنُ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ (الشعراء : 26 : 222) ” میں بتلائوں تم کو کس پر اترتے ہیں شیاطین ، ہر جھوٹے گناہ گار پر اترتے ہیں “ اور دوسری جگہ ہے ولکن الشیطین کفروا یعلمون الناس السحر ” لیکن شیطانوں نے کفر کیا لوگوں کو جادو سکھاتے تھے “۔ ( 3) جس کی طرف ان سمجھ جو بات تک کرنا نہیں جانتے ہیں کہ وہ ایک ایسے فعل کا نام ہے جس کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ اس کی قوت سے صورتوں ، طبیعتوں کو بدلا جاتا ہے حالانکہ اہل علم کے نزدیک اس کے کچھ حقیقت نہیں اور کبھی سحر سے اس کی خوبی کا تصور ہوتا ہے ۔ چناچہ کہا گیا ہے ان من البیان لسحرا اور کبھی کام کی باریکی کا چناچہ اطباء طبیعت کو ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ ان کا فعل دقیق اور اس کی تاثیر لطیف ہوتی ہے ۔ حافظ ابو حیان اندلسی لکھتے ہیں : سحر کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں اول یہ کہ وہ ایمان حقائق قلب و اختراع اور صورتوں کا بدل ڈالنا ہے جو کہ معجزات و کرامات کے مشابہ ہے جیسے ہوا میں اڑنا اور ایک رات میں مسافتیں طے کرنا ( لیکن ان باتوں کی اصلیت کچھ نہیں سب وہمی مفروضے ہیں) دوم یہ کہ دھوکہ بازیاں ، بازی گریاں ، ملمع سازیاں اور شعبدہ بازیاں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں یخیل الیہ من سحر ھم انھا تسعی اس کے خیال میں آئیں ان کے جادو کہ وہ دوڑ رہی ہیں اس بات کی وضاحت کررہا ہے۔ سوم حیلہ کے طور پر دوسروں کی نظر بندی کردینا جسے ہماری زبان میں کہتے ہیں ہتھیلی پر سرسوں جمانا اور اس طرح حیلہ و بہانہ سے کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آنے دینا اور ایک چیز کا دوسری سے ملا دینا اور شعبدہ بازوں میں اس طرح کی باتیں عام ہیں اور اس طرح کی چیزیں اس وقت بھی تھیں اور آج بھی ہیں کہ ایک کام اس انداز اور پھرتی سے کرنا کہ کیا کچھ اور نظر کچھ آنے لگا اور آج کل ان کے نئے نئے نام رکھے گئے ہیں اور لوگ طرح طرح کے کرتب کر کے دکھاتے ہیں جیسے ہپنا ٹزم ۔ اسی طرح یہ سب کذب و افتراء ہے اور کوئی چیز بھی اس میں صحیح نہیں ہے۔ پس وہ لوگ جن کے متعلق یہ اعتقاد کیا جاتا ہے کہ وہ عقل مند ہیں ان باتوں کی تصدیق کرتے ہیں اور ان باتوں پر کان دھرتے ہیں دراصل وہ قوت متخیلہ کے لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں خواہ کتنے ہی علوم ان کو حاصل ہو ، ان کا امتحان کرنا ہو تو رات کے اندھیرے میں اکیلا کر کے کیا جاسکتا ہے۔ بعض علماء نے سحر کے اسم کا اطلاق لوگوں کے درمیان چغل خوری کے ذریعہ ادھر کی باتیں ادھر لگانے پر بھی کیا ہے کیونکہ اس سے بھی دوست کو دشمن اور محبوب کو مبعوض سے بدل دیا جاتا ہے۔ (البحر المحیط ج اول ص 327 ، 335) اور سحر پچھلی رات ، سحر کا وقت ” سحر “ کے معنی اصل میں پھیپھڑے کے ہیں مجازاً اس کا استعمال صبح سے کچھ پہلے وقت یا رات کے اس آخری وقت کے لئے ہوتا ہے جب کہ پچھلی رات کی سیاہی دن کی روشنی سے مل جاتی ہے۔ علامہ زمحشری کا بیان ہے کہ ” سحر “ اس کا نام بطور استعارہ پڑا کیونکہ وہ رات کے جانے اور دن کے آنے کا وقت ہے اسی لئے وہ صبح کے سانس لینے کا وقت ہے۔ ( تاج العروس فصل السین باب السراء) ” سحر “ کے متعلق جو کچھ لغت میں بیان کیا گیا ہے وہ آپ کے سامنے مختصر سے خاکہ میں رکھ دیا گای ہے ۔ اس سے بھی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سحر کی اصل حقیقت کیا ہے اور یہ کہ وہ نبی و رسول پر اثر انداز ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کے بعد قرآن کریم میں جو انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذکر میں ان کے مخالفین کی طرف سے ان پر الزام لگایا گیا کیا وہ یہ تھا کہ تم ’ ’ ساحر “ جادوگر ہوا اور کبھی یہ کہ تم ” سحر زدہ “ ہو یعنی تم پر کسی نے جادو کردیا ہے جس کی وجہ سے تم یہ بہکی بہکی باتیں کرتے ہو جو اپنے باپ دادا کے دین و مذہب کے خلاف ہیں ۔ پیچھے آپ نبی کریم ﷺ کے متعلق پڑھ چکے کہ مشرکین آپ ﷺ کو ” سحر زدہ “ سمجھتے تھے اور اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی ” سحر زدہ “ سمجھا گیا ، چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ فَقَالَ لَـہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّی لَاَظُنُّکَ یٰـمُوْسٰی مَسْحُوْرًا (بنی اسرائیل : 17 : 101) فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ ” اے موسیٰ ! میں سمجھتا ہوں کہ تم ضرور ایک ” سحر زدہ “ آدمی ہے۔ اسی طرح صالح (علیہ السلام) کو آپ کی قوم نے کہا قَالُوْٓا اِنَّمَا اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ (الشعراء : 26 : 153) ” انہوں نے جواب دیا کہ تو محض ایک ” سحر زدہ “ آدمی ہے۔ ” سحر زدہ “ یعنی دیوانہ و مجنون جس کی عقل ماری گئی ہو اور قدیم تصورات کے مطابق پاگل پن یا تو کسی جن کے اثر سے لا حق ہوتا ہے یا جادو کے اثر سے اس لئے جس کو وہ دیوانہ اور پاگل سمجھتے تھے اس کو کہتے تھے اس کو کہتے تھے کہ یہ ” مجنون “ ہے یا یہ کہ ” مسحور “ ہے اور یہی کچھ مسحر ہے۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا کہ قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ (الشعراء : 26 : 185) ’ ’ انہوں نے کہا کہ اے شعیب ! تو تو محض ایک ” سحر زدہ “ آدمی ہے۔ کفار نے اپنے اپنے نبیوں اور رسولوں کو جو ” سحر زدہ “ کہا تھا تو کیا یہ حقیقت تھی ؟ ہرگز نہیں ۔ کیا نبی و رسول فی الواقع ” سحر زدہ “ تھے ؟ حاشاء اللہ کہ ایسا ہوا بالکل نہیں تھے پھر لوگوں نے ان کو ایسا کیوں کہا ؟ محض اس لئے کہ ان کی تعلم ان کے اپنے اور ان کے آبائو اجداد کے خلاف تھی وہ اللہ کا صحیح اور سچا پاغوم سنانے والے تھے لیکن ان کا پیغام لوگوں کو ان کے اپنے رسم و رواج کے خلاف نظر آتا تھا اور اسی وجہ سے وہ لوگ اپنے اپنے رسولوں کو ” سحر زدہ “ سمجھتے تھے۔ لیکن افسوس کہ ہم مسلمانوں نے یہ سارے حالات پڑھ جانے کے بعد اپنے رسول مکرم اور نبی معظم ﷺ کو بھی ” سحر زدہ “ سمجھا اور بیان کیا ۔ ہمارے محترم بزرگ جناب مولانا مو وودی (رح) اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ : ” جہاں تک تاریخی حیثیت کا تعلق ہے نبی کریم ﷺ پر جادو کا اثر ہونے کا واقعہ قطعی طور پر ثابت ہے اور علمی تنقید سے اس کو اگر غلط ثابت کیا جاسکتا ہے تو پھر دنیا کا کوئی تاریخی واقعہ بھی صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا “۔ ( تفہیم القرآن) اور ہم کہتے ہیں کہ جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے نبی کریم ﷺ کو ” سحر زدہ “ سمجھنا سراسر جہالت اور کھلا ظلم ہے اگر اس کو صحیح ثابت کیا جاسکتا ہو تو قرآن کریم کے سارے حقائق کو جھٹلایا جاسکتا ہے اور کوئی ایک بات بھی قرآن کریم کی صحیح نہیں ہو سکتی کیونکہ اس نے بڑی وضاحت سے نبی کریم ﷺ کو ” سحر زدہ “ ہونے کی تردید کی ہے اور آپ ﷺ کو یا کسی دوسرے نبی و رسول کو ” سحر زدہ ‘ ‘ خیال کرنا ظلم قرار دیا ہے۔ اب قارئین کی اپنی مرضی ہے کہ وہ مولانا مودودی (رح) کی طرح تاریخی تعلق قائم رکھنے کے لئے قرآن کریم کو غلط اور جھوٹ و افتراء قرار دیں یا قرآن کریم کو اللہ کی کتاب سمجھتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ اس سے زیادہ سچا کلام دنیا میں اور کوئی نہیں ہوسکتا وہ کسی ہی کا کیوں نہ ہو لہٰذا تاریخی واقعات کو جھوٹ کا پلندہ اور حقائق سے دور کی چیز سمجھیں ہاں ! ان کو حق ہے کہ وہ تاریخی بیانات کو چھانٹ چھپٹ کر اگر درست کرسکتے ہیں تو کردیں تاکہ ان کی تفہیم کے ساتھ دوسروں کا بھی بھلا ہوجائے کیونکہ تاریخی بیانات میں اوپر نیچے ہوتا آیا ہے اور لوگوں نے اپنی اپنی تفہیمات کے لحاظ سے اس کو بیان کیا ہے ۔ مولانا مودودی (رح) پھر ایک جگہ تحریر کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر جادو کا اثر ہوجانے کے متعلق جو تفصیلات روایات میں آئی ہیں انہیں ہم مجموعی طور پر تمام روایات سے مرتب کر کے ایک مربوط واقعہ کی صورت میں مدرج کرتے ہیں اور پھر وہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے : ” صلح حدیبیہ کے بعد جب نبی کریم ﷺ مدینہ واپس تشریف لائے تو محرم 7 ہجری میں خیبر سے یہودیوں کا ایک وفد مدینہ آیا اور ایک مشہور جادوگر لبید بن اعصم سے ملا جو انصار کے قبیلہ بنی زریق سے تعلق رکھتا تھا۔ بعض راویوں نے اسے یہودی کہا ہے اور بعض نے منافق اور یہود کا حلیف لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ وہ بنی زریق میں سے تھا اور ان لوگوں نے اس سے کہا کہ محمد ﷺ نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ ہم نے ان پر بہت جادو کرنے کی کوشش کی مگر کوئی کامیابی نہیں ہوئی اب ہم تمہارے پاس آئے ہیں کیونکہ تم ہم سے بڑے جادوگر ہو ۔ پھر یہ تین اشرفیاں حاضر ہیں ، انہیں قبول کرو اور مجھ پر ایک زور کا جادو کردو۔ اس زمانے میں حضور ﷺ کے ہاں ایک یہودی لڑکا خدمت گار تھا اس سے ساز باز کر کے ان لوگوں نے حضور ﷺ کی کنگھی کا ایک ٹکڑا حاصل کرلیا جس میں آپ ﷺ کے موئے مبارک تھے انہی بالوں اور کنگھی کے دندانوں پر جادو کیا گیا بعض روایات میں یہ ہے کہ بسید بن اعصم نے خود جادو کیا تھا اور بعض میں یہ ہے کہ اس کی بہنیں اس سے زیادہ جادوگرنیاں تھیں ان سے اس نے جادو کرایا تھا۔ بہر حال ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو اس جادو کو ایک کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھ کر لبید نے بنی زریق کے کنوئیں میں ذو ان یا ذی اروان نامی کی تہہ میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا ۔ اس جادو کا اثر نبی کریم ﷺ پر ہوتے ہوتے پورا ایک سال لگا دوسری ششماہی میں کچھ تغیر مزاج محسوس ہونا شروع ہوا اور آخری چالیس دن سخت اور پھر آخری تین دن زیادہ سخت گزرے۔ مگر اس کا زیادہ سے زیادہ اثر جو حضور ﷺ پر ہوا وہ بس یہ تھا کہ آپ گھپلے چلے جا رہے تھے ۔ کسی کام کے متعلق خیال فرماتے کہ وہ کرلیا ہے مگر نہیں کیا ہوتا تھا ۔ اپنی ازواج کے متعلق خیال فرماتے کہ آپ ﷺ ان کے پاس گئے ہیں مگر نہیں گئے ہوتے تھے اور بعض اوقات آپ ﷺ کو اپنی نظر پر بھی شبہ ہوتا تھا کہ کسی چیز کو دیکھا ہے مگر نہیں دیکھا ہوتا تھا۔ یہ تمام اثرات آپ کی ذات تک محدود رہے حتیٰ کہ دوسرے لوگوں کو یہ معلوم تک نہ ہوسکا کہ آپ ﷺ پر کیا گزررہی ہے۔ رہی آپ ﷺ کے نبی ہونے کی حیثیت تو اس میں آپ ﷺ کے فرائض کے اندر کوئی خلل واقع نہ ہونے پایا۔ کسی روایت میں یہ نہیں کہ اس زمانے میں آپ ﷺ قرآن کریم کی کوئی آیت بھول گئے ہوں یا آپ ﷺ نے غلط پڑھ ڈالا ہو اپنی صحبتوں میں اور وعظوں اور عطبوں میں آپ ﷺ کی تعلیمات کے اندر کوئی فرق واقع ہوگیا ہو یا کوئی ایسا کلام آپ ﷺ نے وحی کی حیثیت سے پیش کیا ہو جو فی الواقع آپ ﷺ پر نازل نہ ہوا ہو یا نماز آپ ﷺ سے چھوٹ گئی اور اس کے متعلق بھی کبھی آپ ﷺ نے سمجھ لیا ہو کہ پڑھ لی ہے مگر نہ پڑھی ہو ۔ ایسی کوئی بات معا ذ اللہ پیش آجاتی تو دھوم مچ جاتی اور پورا ملک عرب اس سے واقف ہوجاتا کہ جس نبی کو کوئی طاقت چت نہ کرسکتی تھی اسے ایک جادوگر نے چت کردیا لیکن آپ ﷺ کی نبوت کی حیثیت اس سے بالکل غیر متاثر رہی اور صرف اپنی ذاتی زندگی میں آپ ﷺ اپنی جگہ اسے محسوس کر کے پریشان ہوتے رہے۔ آخر ایک دن آپ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں تھے کہ آپ ﷺ نے بار بار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی ۔ اس حالت میں آپ ﷺ کی نیند آگئی یا غنودگی طاری ہوگئی اور پھر بیدار ہو کر آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا کہ میں نے جو بات اپنے رب سے پوچھی تھی وہ اس نے مجھے بتادی ۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ وہ کیا بات تھی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا دو آدمی یعنی دو فرشتے دو آدمیوں کی شکل میں میرے پاس آئے ایک سرہانے کی طرف تھا دوسرا پائنتی کی طرف ۔ ایک نے پوچھا انہیں کیا ہوا ؟ دوسرے نے جواب دیا ان پر جادو ہوا ہے ۔ اس نے پوچھا کہ کس نے کیا ہے ؟ جواب دیا کہ بسید بنی اعصم نے ۔ پوچھا کس چیز میں کیا ہے ؟ جواب دیا کہ کنگھی اور بالوں میں ایک نر کھجور کے خوشے کے غلاف کے اندر۔ پوچھا وہ کہاں ہے ؟ جواب دیا بنی زریق کے کنوئیں میں ذی اروان یا ذروان کی تہہ کے پتھر کے نیچے ہے۔ پوچھا اب اس کے لئے کیا کیا جائے ؟ جواب دیا کہ کنوئیں کا پانی سونت دیا جائے اور پھر پتھر کے نیچے سے اس کو نکلا جائے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ ، حضرت عمار بن یاسر ؓ اور حضرت زبیر ؓ کو بھیجا ۔ ان کے ساتھ جیبر بن ایاس الزرقی اور قیس بن محصن الزری یعنی بنی زریق کے یہ دو اصحاب بھی شامل ہوگئے اور بعد میں حضور ﷺ بھی چند اصحاب کے ساتھ وہاں پہنچ گئے ۔ پانی نکالا گیا اور وہ غلاف برآمد کرلیا گیا اس میں کنگھی اور بالوں کے ساتھ ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں اور موم کا ایک پتلا جس میں سوئیاں چھبوئی ہوئی تھیں جبریل (علیہ السلام) نے آ کر بتایا کہ آپ ﷺ معوذتیں پڑھیں چناچہ آپ ﷺ ایک ایک آیت پڑھتے جاتے تھے اور اس کے ساتھ ایک ایک گروہ کھولی جاتی اور پتلے میں سے ایک ایک سوئی نکالی جاتی رہی ۔ خاتمہ تک پہنچتے ہی ساری گرہیں کھل گئیں ، ساری سوئیاں نکل گئیں اور آپ ﷺ جادو کے اثر سے نکل کر بالکل ایسے ہوگئے جیسے کوئی شخص بندھا ہوا تھا اور پھر کھل گیا ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے بسیدکو بلا کر باز پرس کی اس نے اپنے قصور کا اعتراف کرلیا اور آپ ﷺ نے اس کو چھوڑ دیا کیونکہ اپنی ذات کے لئے آپ ﷺ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا ۔ یہی نہیں بلکہ آپ ﷺ نے اس معاملہ کا چرچا کرنے سے بھی یہ کہہ کر انکار کردیا مجھے اللہ نے شفا دی ہے اب میں نہیں چاہتا کہ کسی کے خلاف لوگوں کو بھڑکائوں “۔ یہ کہانی تحریر کرنے کے بعد مولانا نے اس طرح اس پر تبصرہ فرمایا ہے کہ : ” یہ ہے سارا قصہ اس جادو کا اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ ﷺ کے منصب نبوت میں قادح ہو ذاتی حیثیت سے اگر آپ کو زخمی کیا جاسکتا تھا جیسا کہ جنگ احد میں ہوا ۔ اگر آپ ﷺ گھوڑے سے گر کر چوٹ کھا سکتے تھے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اگر آپ ﷺ کو بچھو کاٹ سکتا تھا جیسا کہ کچھ اور احادیث سے ثابت ہے تو اس میں کوئی چیز بھی اس تحفظ کے منافی نہیں ہے جس کا نبی ہونے کی حیثیت اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے وعدہ کیا تھا تو آپ ﷺ اپنی ذاتی حیثیت میں جادو کے اثر سے بیمار بھی ہو سکتے تھے ، نبی پر جادو کا اثر ہو سکتا ہے یہ بات تو قرآن کریم سے بھی ثابت ہے۔ سورة الاعراف میں فرعون کے جادوگروں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں جب وہ آئے تو انہوں نے ہزارہا آدمیوں کے اس پورے مجمع کی نگاہوں پر جادو کردیا جو وہاں دونوں کا مقابلہ دیکھنے کے لئے جمع ہوا تھا۔ سخروا اعین الناس (الاعراف 7 : 116) اور سورة طہٰ میں ہے کہ جو لاٹھیاں اور رسیاں انہوں نے پھینکی تھیں ان کے متعلق عام لوگوں ہی نے نہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی یہی سمجھا کہ وہ ان کی طرف سانپوں کی طرح دوڑی چلی آرہی ہیں اور اس سے حضرت موسیٰ خوفزدہ ہوگئے یہاں تک کہ اللہ نے ان پر وحی نازل کی کہ خوف نہ کرو تم ہی غالب رہو گے ذرا اپنا عصاپھینکو پھر دیکھو کہ وہ ان کا سارا بنا بنایا کس طرح نگل جاتا ہے “۔ مولانا مودودی (رح) نے بقول خود کتب تاریخ میں جو روایات کی صحیح اور غیر صحیح آئی ہیں ان کو مد نظر رکھ کر ایک اچھی کہانی ضبط کردی جو ان لوگوں کی مکمل ترجمانی کرتی ہے جو جادو کو انبیاء کرام (علیہ السلام) پر موثر بنا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جادو ایک ایسا مرض ہے جو نبی اور غیر نبی سب پر اثر انداز ہو سکتا ہے وہ ہمارے نبی اعظم و آخر ﷺ پر بھی اثر انداز ہوا پھر ہم کون ہیں کہ ہم پر اس کا کوئی اثر نہ ہو ؟ فی الواقعہ تو مولانا (رح) نے ان لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کو بہت فائدہ دیا اور ان کے کاروبار کو چمکانے میں بہت ممد و معاون ہوئے اگرچہ مولانا (رح) نے دانستہ یا دانستہ قرآن کریم کی ان آیات کی کوئی پروا نہ کی جن میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ” سحرزد “ ہونے کی مکمل تردید کی گئی تھی ۔ ظاہر ہے کہ جب چند معدودے آدمیوں کے سوا ساری دنیا ایک بات کو مانتی چلی آرہی ہے اور اب بھی مان رہی ہو تو ان سب کے مقابلہ میں کھڑے ہوجانا اتنا آسان کام بھی نہیں اس کے مقابلہ میں قرآن کریم کی ان آیتوں کی بجائے سارے لوگوں کی ترجمانی زیادہ آسان کام ہے پھر آسان کو چھوڑ کر مشکل کے پیچھے چل نکلنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں لہٰذا ایک عقل مند مشکل کو چھوڑ کر آسان کر اختیار کرے گا اور یہی کچھ مولانا نے کیا ۔ لیکن ہم بھی مجبور ہیں کہ یہ بات صاف صاف کہہ دیں کہ مولانا نے قرآن کریم جو اللہ کی کتاب ہے کی ترجمانی کرنے کی بجائے دنیا کے لوگوں کی ترجمانی کر کے اگرچہ آسان بات کو پسند کیا ہے لیکن یہ بات عقل مندی کی نہیں بلکہ عقل مندی کے سراسر خلاف ہے کیونکہ اللہ اور انسانوں کے کلام کا جب مقابلہ سامنے ہو تو اللہ کے کلام کی ترجمانی عقل مندی ہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے اس کی بلا سے۔ مولاناکے مقام اور تفضل کے باوجود ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر مولانا صرف 7 ہجری کے واقعات کا گہری میں اتر کر مطالعہ کرتے تو وہ یقینا اس کہانی کو ترتیب دینے میں توقف کرتے کیونکہ یہی وہ سال ہے جس میں جو کام ہوئے سارے کے سارے پوری تسلی اور عزم و جزم کے ساتھ ہوئے اور جو مہمات اس سال میں پیش آئیں شاید مدنی زندگی کے کسی دوسرے سال میں نہیں آئیں اور اس سال یعنی 7 ہجری میں وہ کونسا یہودی بچہ تھا جو آپ ﷺ کی خدمت میں رکھا گیا اور کہاں رکھا گیا ؟ کیا جب کوئی شخص اندر ہی اندر گھلتا جا رہا ہو تو اس وقت اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہے ؟ اور لوگ بغیر بتائے بھی کچھ محسوس کرتے ہیں یا نہیں ؟ وہ لوگ جو مسلمان ہوچکے وہ تو شاید معجزانہ اس بات کو مان لیں کہ اس سال میں جو کچھ آپ ﷺ پر گزری وہ صرف آپ ﷺ کے جسم تک محدود رہی اور ذہن پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا لیکن غیروں کو سمجھانے کے لئے مولانا کے پاس اس کی کوئی دلیل ممکن ہے کہ جب کہ جب انسان کا جسم تو گھل رہا ہو لیکن ذہن و دماغ ہر لحاظ سے مطمئن ہو ؟ حالانکہ جسم ذہن و دماغ کے تابع ہوتا ہے اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ جسم اور ذہن و دماغ کے عوارض الگ الگ ہوں ۔ یہ بات ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ میرا سارا جسم تو آگ میں جل رہا ہے لیکن میرے دماغ پر اس کا ذرا بھی اثر نہیں اور میں ہر لحاظ سے مطمئن ہوں ۔ پھر روایات جو مولانا کے پیش نظر ہیں ان میں سے بھی کوئی روایت اس کی تصدیق نہیں کرتی کہ آپ ﷺ کا جسم تو گھل رہا تھا لیکن ذہن و دماغ ہر لحاظ سے مطمئن تھے۔ جو شخص کسی کئے ہوئے کام کے بارے میں یہ کہے کہ میں نے نہیں کیا اور نہ کئے ہوئے کہ یہ سمجھے کہ میں نے کرلیا جس کو اپنی ازدواجی زندگی کے متعلق بھی یہ یاد نہ ہو کہ میں نے کسی بیوی سے کوئی تعلق قائم کیا ہے یا نہیں کیا ، اس کا ذہن کتنا مطمئن ہوگا ؟ اگر مولانا مرحوم اپنے دل سے نہیں پوچھ سکے تو آپ خود ہی اپنے ذہن سے ذرا پوچھ کر دیکھیں کہ کیا جواب ملتا ہے ؟ اس جگہ مولانا (رح) نے جتنی روایات کو ملحوظ خاطر رکھا بہتر ہوتا کہ وہ ساری الگ الگ درج کردیتے اور اس کے بعد جو چاہتے اور جیسے چاہتے ان کو تطبیق دے لیتے لیکن مولانا مرحوم نے ایسا نہیں کیا حالانکہ یہ بات مولانامرحوم کے مزاج کے بھی خلاف تھی کیونکہ باقی جگہوں پر انہوں نے ان ساری روایات کو الگ الگ بیان کیا ہے صرف یہی ایک مقام ہے جہاں مولانا مرحوم کفایت شعاری سے کام لے گئے ، کیوں : محض اس لئے کہ وہ لوگوں کی اکثریت کی ترجمانی کر کے ان کے نظریہ کی تصدیق کر کے ان کو خوش کریں اور ان لوگوں کو کو سنے بھی دے سکیں جن کو وہ اپنی جماعت کے خلاف سمجھتے ہیں بہر حال ہم اس جگہ بخاری و مسلم کی روایات پر اکتفا کریں گے اور یہ بتائیں کہ گے ہمارے مترجمین نے ان کے ترجمہ میں کیا کیا اور کیوں کیا ؟ عن عائشۃ قالت سحر رسول اللہ ﷺ رجل من بنی زریق یقال لہ لبید ابن اللا عصم حتی کان رسول اللہ ﷺ یخیل الیہ انہ یفعل بشئی وما فعلہ حتی اذا کان ذات یوم او ذاتالیلۃ وھو عندی لکنہ دعا ودعا ثم قال یا عائشۃ اشعرت ان اللہ افنانی فیما استفنینہ فیہ اتانی رجلان فقعداحدھما عند راسی والاخر عند رجلی فقال احدھما لصاحبہ ما وجع الرجسلفقال مطبوب قال من طبہ قال لبید بن الا عصم قال فی ای شی قال فی مشط و مشاطہ و جف طلع نخلۃ ذکر قال واین ھو قال فی برذروان فاتا ھا رسول اللہ ﷺ فی ناس من اصحابہ فحاء فقال یا عائشہ کان ماء ھا نقاعۃ الحناء ادکان رئوس نخلھار ئوس الشیطین قلت یا رسول اللہ افلا استخر جتہ ؟ قال قد عافانی اللہ فکر ھت ان اثور علی الناس فیہ شرا فامر بھا فد فنت ( صحیح بخاری پارہ 24 حدیث 5763) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ بنی زریق کے ایک شخص لبید بنی الاعصم نے نبی کریم ﷺ پر جادو کیا اور ساتھ اس نے پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ میں نے جادو کیا ہے اور اس کے نتیجہ میں ایسا اور ایسا ہوگا حالانکہ جو کچھ اس نے کہا اس میں سے کچھ بھی نہ ہوا اس میں وقت لگا جو لگا یہاں تک کہ ایک دن یا ایک رات آپ میرے ہاں تشریف لائے اور ان باتوں کا ذکر ہوتا رہا اور آپ نے بار بار یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ خیریت کرے گا اور آپ اللہ سے دعا کرتے رہے اس اثناء میں آپ سو گئے اور پھر جب سو کر اٹھے تو آپ نے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا کہ عائشہ ؓ میں جو بات اللہ سے دریافت کر رہا تھا اس نے مجھے بات بالکل واضح طور پر بتا دی اور اس طرح ہوا کہ جب میں سو گیا تو میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کی طرف کھڑا ہوگیا اور دوسرا میرے پائوں کی طرف کھڑا ہوگیا پھر ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اس دوست کو کیا ہوا ؟ اس نے کہا اس پر جادو کیا گیا ہے ۔ دوسرے نے کہا کس نے کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ لبید بن الاعصم نے پھر اس نے پوچھا کہ کس چیز میں جادو کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ کنگھی اور بالوں یا سوت کے دھاگوں میں جس کو اس نے نر کھجور کے غلاف میں لپیٹ دیا ہے اس نے پھر پوچھا کہ اس نے یہ چیزیں کہاں رکھی ہیں تو اس نے جواب دیا کہ بر زروان میں پھر رسول اللہ ﷺ اپنے چند ساتھیوں کو لے کر وہاں گئے اور وہاں سے واپس لوٹ کر آئے تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ کو بتایا کہ عائشہ ؓ اس کنوئیں کا پانی ایسا رنگین تھا جیسے مہندی کا پانی ہوتا ہے اور وہاں کے کچھ درخت بھی اسے تھے جیسے تھوہر کے درخت جن کو رء وس الشیاطین سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا کیا آپ نے اس کو وہاں سے نکلوا دیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جب اللہ تعالیٰ نے اپنی امان میں رکھا ہے اور مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا تو میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ اس کو وہاں سے نکلوا کر لوگوں کو اس شک میں مبتلا کروں کہ اس جادو میں بھی کوئی اثر ہوتا ہے جب بات واضح ہوگئی اور سب لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو اب میں نے اس کو وہیں دفن کرا دیا کہ لبید اور اس کے ساتھی شور بپا کریں گے اگر وہاں سے اس کو نکالا نہ جاتا تو اس کا یقینا اثر ہوتا جب کہ ایسی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ۔ بعض روایات میں لفظ ” مشاط “ ہے اور بعض میں ” مشاطہ “ پہلے لفظ کا ترجمہ وہ بال ہیں جو کنگھی کے ساتھ نکل آتے ہیں اور دوسرے لفظ کے معنی کچے سوت کے ہیں ۔ ایک روایت اس طرح ہے کہ : کان رسول اللہ ﷺ سحر حتی کان یری انہ یاتی النساء ولا یاتیھنقال سفیان وھذا اشد مایکون من السحراذا کان کذا فقال یا عائشۃ اعلمت ان اللہ قد افتنانی فیما اسفنینہ فیہ ؟ اتانی رجلان ، فقعد احدھماعند راسی والاخر عند رجلی فقال الذی عند راسی للاخر ما بال الرجل ؟ قال مطبوت قال : ومن طبہ ؟ قال لبید بن اعصم رجل من بنی زریق حلیف لیھود کان منافقا قال : وفیم ؟ قال : فی مشط و مشاطۃ قال واین ؟ قال فی جف طلعۃ ذکر تحت رعوفۃ فی بر ذروان ، قالت فانی النبی ﷺ البر حتی استخر جہ فقال ھذہ البر التی اری تھا وکان ماء ھا نقاعۃ الحناء وکان نخلۃ رءوس الشیاطین قال فاستخرج قالت فقلت افلا ۔ ای تنشرت ؟ فقال اما واللہ فقد شفانی وکرہ ان اثیر علی احد من الناس شرا ً ۔ (صحیح بخاری پارہ 24 حدیث 5765) آپ پر کسی نے جادو کیا اور صرف آپ ہی پر نہیں بلکہ آپ کو ازواج مطہرات پر بھی کہ ان کے ساتھ ایسا ایسا ہوگا سفیان نے کہا کہ اس طرح کا جادو بڑا ہی زبردست ہوتا ہے جس میں عورتوں کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ عورتوں کی قوت وہمہ جلد متاثر ہوجاتی ہے پھر وہ وقت آیا کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ تو جانتی ہے کہ میں نے اللہ سے یہ بات پوچھی تھی کہ اس کی حقیقت مجھ پر منکشف ہوجائے تو لہٰذا وہ بات مجھ پر منکشف ہوگئی وہ اس طرح ہوئی کہ میں سویا تھا کہ دو آدمی آئے اور ایک دن میں سے میرے سر کی طرف کھڑا ہو گان اور دوسرا میرے پائوں کی طرف کھڑا ہوا پھر اس نے جو میرے سر کی طرف کھڑا تھا دوسرے سے کہا کہ اس آدمی کا حال کیا ہے ؟ تو دوسرے نے جواب دیا کہ اس پر جادو کیا گیا ہے۔ اس نے کہا کہ اس پر کس نے جادو کیا ہے ؟ دوسرے نے کہا لبید بن اعصم نے جو بنی زریق کے حلیفوں میں سے ایک یہودی آدمی ہے یا منافق آدمی ہے تو اس نے پھر پوچھا کہ اس نے کس چیز میں یہ عمل کیا ہے دوسرے نے جواب دیا کہ کنگھی کے دندانوں اور سر کے بالوں میں ۔ اس نے پھر سوال کیا کہ وہ کہاں رکھا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا کہ نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھ کر ذرو ان کے کنوئیں میں اس کو رکھا گیا ہے۔ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ اس کنوئیں پر گئے اور وہاں سے اس کو نکالا پھر فرمایا کہ بس یہی وہ کنواں تھا جو مجھے دکھایا گیا تھا اور پھر فرمایا کہ اس کا پانی مہندی کے پانی کی طرف ہوچکا تھا اور اس کے درخت تھوہر کے تھے جن کی مشابہت رءوس الشیاطین سے دی جا سیت ہے پھر میں نے اس کو وہاں سے نکال لیا عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا کیا آپ نے اس کا کوئی توڑ کیا ؟ آپ نے فرمایا کہ جب مجھے اللہ نے اس سے بچایا ہے اور مجھ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تو میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ جب اللہ نے مجھ کو محفوظ رکھا تو میں لوگوں میں اس طرح کا ایک شوربپا کر دوں کہ اس کی برائی کسی کو اثر انداز کرسکتی ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ ان دونوں احادیث کو غور سے پڑھو کہ ” یفعل الشئی “ ” وما فعلۃ “ ” یاتی النساء “ ” ولایاتیھن “ کی ضمیریں رسول اللہ ﷺ کی طرف راجع کی گئی ہیں جیسا کہ مترجمعین کے ترجمہ سے ظاہر ہے لیکن ہم نے انہیں لبید کی طرف لوٹایا ہے جیسا کہ ہمارے ترجمہ سے ظاہر ہے جس کا مطلب بالکل صاف ہے کہ اس نے اپنی طرف سے تو وہ سب کچھ کیا جو وہ کرسکتا تھا لیکن اس کا ذرا اثر بھی آپ پر نہ ہوا جیسا کہ روایت کے آخر میں آپ نے خود ارشاد فرمایا کہ مجھے اس کے شر سے جب اللہ نے محفوظ رکھا تو میں اس کو وہیں کیوں نہ دبانے کا حکم دیتا اور خواہ مخواہ ایک الزام اپنے سر لیتا ۔ ان روایات اور ان جیسی ساری روایات کو غور سے پڑھنے سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ ساری روایات بالمعنی ہیں اور جن جن روایان احادیث نے ان کو بیان کیا ہے انہوں نے اپنی تفہیم کی باتوں کو یا اپنے سامعین کو سمجھانے کے لئے ضروری باتوں کو بیان کردیا لیکن ساری روایات میں جو بات عائشہ ؓ کے استفسار کے آپ ﷺ نے اپنی زبان اقدس سے بیان کی وہ سب میں ایک جیسی اور ایک ہی تھی کہ ” فکر ھت ان اثر علی الناس فیہ شرافامر بھا فد فنت “ اور واکرہ ان اثیر علی احد من الناس شراً “ اور یہی بات قرآن کریم سے ثابت اور واضح ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا کہ مَا جِئْتُمْ بِہِ السِّحْرُ ط اِنَّ اللہ سَیُبْطِلُہٗ ط اِنَّ اللہ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ (یونس : 10 : 81) ” تم جو کچھ بنا کر لائے ہو ، یہ جادو ہے اور یقینا اللہ اسے ملیا میٹ کر دے گا ، اللہ کا یہ قانون ہے کہ وہ مفسدوں کا کام نہیں سنوارتا “۔ غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے خود کس وضاحت سے بیان فرمایا ” یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک ” سحر زدہ “ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جا رہے ہو ( بنی اسرائیل : 17 : 47) ” ظالم لوگ کہتے ہیں کہ تم لوگ تو ایک ” سحر زدہ “ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو “۔ ( الفرقان : 25 : 8) ” اے موسیٰ میں سمجھتا ہوں کہ تو ایک ” سحر زدہ “ آدمی ہے “۔ (بنی اسرائیل : 17 : 101) اس طرح کی ان ساری آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کفار نے ، مشرکین نے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور خصوصاً محمد رسول اللہ ﷺ کو ” سحر زدہ “ بیان کیا ہے اور قرآن کریم نے ان پر واضح کا ہے کہ جادو سوائے دھوکہ ، مکاری ، دغا بازی ، فریب کاری اور کفر و فساد کے کچھ بھی نہیں اور یہ کہ ” جادو کو اللہ یقیناملیا میٹ کردیتا ہے اللہ کا یہ قانون ہے کہ مفسدوں کا کام نہیں سنوارتا “ ۔ ( یونس : 10 : 8) پھر یہی بات رسول اللہ ﷺ بھی ارشاد فرما رہے ہیں کہ ” اللہ نے مجھ پر تو اس کا کوئی اثر نہ ہونے دیا اور اب میں خواہ مخواہ لوگوں میں ایک شور نہیں بپا کرنا چاہتا کہ اگر ان چیزوں کو وہاں سے نکلوا نہ دیا جاتا تو یقینا ان کا اثر ہوتا بلکہ میں نے اس کو وہیں دبا کر ان پر واضح کردیا کہ اس سے میرا کچھ بھی نہیں بگڑ سکتا کیونکہ جب اللہ کسی کو نقصان نہ پہنچانا چاہے تو کون ہے جو اس کو نقصان پہنچا سکے “۔ لیکن ہمارے علمائے کرام ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی بات کو پس پشت ڈالتے ہوئے لوگوں کے نظریات کی ترجمانی کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگ خوش ہوں کہ جو ان کا آباء و اجداد سے ایک نظریہ چلتا آ رہا تھا اس کی مولانا نے خوب ترجمانی فرمائی ہے اور یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ جب انبیاء کرام (علیہ السلام) پر بھی جادو کا اثر ہوئے نہیں رہتا تو پھر ہم اور تم کون ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج اس ملک عزیز میں شاید ہی کوئی گھراناہو گا جو اس جادو کے توڑ اور جھاڑ پھونک کی زد سے بچا ہوگا اور ملک کے بہی خواہوں کے ہاتھ ایسا نسخہ لگ گیا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے دیئے ہوئے نسخہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہی ۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ علاوہ ازیں بخاری شریف میں ایک روایت بالکل اسی مفہوم اور مطلب کی بیان ہوئی ہے جو صحیح بخاری پارہ 24 میں حدیث نمبر 5766 کے طور پر درج کی گئی ہے اور صحیح مسلم ج دوم ص 221 پر تین احادیث بیان کی گئی ہیں جن کا مفہوم و مطلب بھی بالکل یہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے اور تفصیل اس کی بہت لمبی ہے ان احادیث پر شارحین نے جو شرحیں لکھی ہیں ان سب شروح کو سامنے رکھا جائے تو ایک پوری کتاب تیار ہوجائے گی ہم اس مضمون کو اس جگہ ختم کرتے ہیں اگر ہمارے بھائیوں نے غور و فکر کیا تو ان کی رہنمائی کے لئے اتنا بیان بھی کفایت کرے گا کیونکہ سب باتوں سے افضل و اعلیٰ بات وہی ہے جو قرآن کریم کی ہے اور اس کے بعد وہ جو نبی اعظم و آخر ﷺ نے بیان فرمائی ہے ۔ جادو کیا ہے کی تفصیل دیکھنا چاہتے ہوں تو ہمارا رسالہ ” جادو کیا ہے ؟ دھوکہ ، فریب اور مکاری ہے “ مطالعہ کریں اور سورة الفلق اور الناس میں انشاء اللہ مزید وضاحت بھی آئے گی۔ رہی یہ بات کہ کیا رسول اللہ ﷺ پر جاد کا وار کیا گیا تھا ؟ تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ایک بار نہیں بلکہ بار بار یہ کوشش کی گئی ۔ لوگوں میں اس طرح کی باتیں پھیلائی گئیں کہ اب یہ ہوگا اور ایسا ہوگا ؟ اس طرح لبید بن اعصم نے بھی اور اس کی بہنوں نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور جو مکرو فریب وہ کرسکتی تھیں کیا آپ پر بھی اور آپ کی ازواج مطہرات پر بھی لیکن بحمد اللہ اس کے شر سے کلی طور پر محفوظ رہے اور آپ کی ازواج مطہرات بھی محفوظ رہیں اور آپ پر یا آپ کے گھر والوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا خود رسول اللہ ﷺ کے ارشاد اوپر گزر چکے اور قرآن کریم نے بھی اس کی وضاحت فرما دی ۔ آخر الکلام یاد رہے کہ قوت وہمہ جس کو قوت متخیلہ بھی کہا جاتا ہے ہر انسان کے اندر موجود ہے خواہ وہ کتنا ہی نیک اور صالح انسان ہو یہاں تک کہ اللہ کا نبی اور رسول ہی کیوں نہ ہو اور خواہ کوئی کتنا ہی برا انسان ہو حتیٰ کہ چور اور ڈاکو ہو ۔ گویا سارے انسانوں کے اندر وہ قوت موجود ہے اور یہ بھی اپنی جگہ حق بات ہے کہ وہ سارے انسانوں میں ایک جیسی نہیں کسی کی وہ قوت قوی ہے اور کسی کی کمزور اور قوی و کمزور ہونے میں بھی نیکی اور برائی کا کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق دوسرے قوائے انسانی سے ہے بہر حال انبیائے کرام (علیہ السلام) کی یہ قوت بھی دوسرے انسانوں کے مقابلہ میں یقینا قوی اور مضبوط ہوتی تھی اور جب یہ بات مشاہدہ میں آ چکی ہے کہ اب بھی بعض آدمی ایسے موجود ہیں جن کی یہ قوت وہمہ یا متخیلہ اتنی قوی اور مضبوط ہے ان پر لوگوں کے ان بیانات کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور آج کل اس قوت سے کام لینے جو نئے نئے طریقے اور مشقیں کرائی جاتی ہیں جن سے دوسروں کی قوت و ہمہ کو تسخیر کیا جاسکتا ہے تو ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کی قوت کو تسخیر نہیں کیا جاسکتا اور بڑے مشاق ماہر اس معاملہ میں ناکام رہے ہیں تو اس سے یہ بات مزید پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ فی الواقع یہ قوت و کمزور ہوتی ہے اور یہی بات اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ کسی نبی و رسول کو قوم کو قوم کی مخالفت سے یہ خوف نہیں آیا کہ اتنے لوگوں کی مخالفت کر کے اہم کیونکر زندہ رہ سکتے ہیں اور ہمیں کیسے کوئی زندہ رہنے دے گا ۔ نہیں ان کو کبھی اس بات سے خوف نہیں آیا اور اگر انسانی تقاضا سے کوئی باتخیال میں گزری بھی تو اس کو فرو ہوتے ہوئے ذرا دیر نہ لگی ۔ اس قوت کے کیا کیا کام ہیں اور انسان کے اندر یہ کیا کچھ تبدیلیاں رونما کرتی ہیں اس کا بیان بھی ذرالمبا ہے اور یہ مثالیں جب تک نہ دی جائیں تو بات کو سمجھنا اور سمجھانا بھی اتنا آسان نہیں اس لئے ہم اس بات پر اختتام کرتے ہیں کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور خصوصاً نبی اعظم و آخر ﷺ کی اس قوت و ہمہ اور متخیلہ کے بہت قوی ترین ہونے کی بیسیوں مثالیں قرآن کریم اور روایات و احادیث میں موجود ہیں کہ آپ ﷺ نے وہ کام سر انجام دیئے جو بڑے بڑے جری بہادر بھی نہ کر پائے لیکن آپ پر زرا بھی خوف و ہراس نہ ہوا ۔ ہمیں حیرانی ہے کہ مولانا مودودی (رح) جیسے انسان نے کیونکر اور کیسے تسلیم کرلیا کہ رسول اللہ ﷺ ” سحر زدہ “ تھے جبکہ وہ خود بھی ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ ” جادو اصل میں ایک نفسیاتی اثر ہے جو نفس سے گزر کر جسم کو بھی اسی طرح متاثر کرتا ہے جس طرح جسمانی اثرات جسم سے گزر کر نفس کو متاثر کرتے ہیں مثال کے طور پر خوف ایک نفسیاتی اثر ہے جو نفس سے گزر کر جسم کو بھی اسی طرح متاثر کرتا ہے جس طرح جسمانی اثرات جسم سے گزر کر نفس کو متاثر کرتے ہیں مثال کے طور پر خوف ایک نفسیاتی چیز ہے مگر اس کا اثر جسم پر ہوتا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور بدن میں تھرتھری اور کپکپاہٹ شروع ہوجاتی ہے۔ دراصل جادو سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی مگر انسان کا نفس اور اس کے حواس اس سے متاثر ہو کر یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ حقیقت تبدیل ہوگئی ہے “۔ ( تفہیم القرآن) مولانا (رح) کا فرمان بھی ہمارے بیان کی تصدیق کرتا ہے کہ نبی و رسول پر کبھی جادو اثر انداز نہیں ہو سکتا جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ کبھی بھی کسی نبی کو اس طرح کا خوف لا حق نہیں ہوا کہ جو اس کے نفس سے گزر کر جسم کو بھی متاثر کردیتا ہو۔ مولانا کی یہ مثال ہمارے انسانوں پر صادق آسکتی ہے لیکن انبیاء کرام (علیہ السلام) پر کبھی صادق نہیں آتی ۔ اگر آپ ذرا غور کریں گے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی ۔ ذرا خیال کرو کہ ابوبکر صدیق ؓ کی شخصیت سے کون واقف نہیں لیکن ایک وقت وہ بھی آیا کہ اس اللہ کے بندے کی قوت و ہمہ بھی متاثر ہوگئی اور انجام کار خود محمد رسول اللہ ﷺ کو کہنا پڑا ” لا تخزن ان اللہ معنا “ اے ابوبکر صدیق ! ذرا غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ہاں ! اگر کسی نازک ترین موقع پر کسی نبی و رسول پر انسانی کمزوری کے باعث کسی رسول و نبی کے دل میں ذرا بھر بھی ایسا خیال گزرا تو فوراً اللہ تعالیٰ نے اس وقت خود اس کو سہارا دے دیا اور بات کی وضاحت کردی اور اس میں سال ، شش ماہی ، سہ ماہی پھر چالیس روز یا تین روز اس کو انتظار مطلق نہیں کرائی گئی اور اس کو کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی اور اس طرح جو ایک دو باتیں بنائی گئی ہیں وہ مطلق صحیح نہیں جیسے نبی اعظم و آخر ﷺ پر جادو کا اثر انداز ہوجانا صحیح نہیں ہے۔ خیال رہے کہ نبی و رسول کو بھی اپنے مولویوں اور علمائے کرام (رح) اور بزرگان دین نیز اپنے پیروں اور مرشدوں کے ساتھ مقابلہ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا اور نہ ہی اس طرح کا کوئی خا ال بھی دل میں لانا جائز و درست ہو سکتا ہے۔ کیونکہ نبی نبی ہوتا ہے اگرچہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہو “ ۔ اور محمد رسول اللہ ﷺ تو خاتم الانبیاء اور افضل الرسل ہیں ۔ فافہم فتدبر۔
Top