Urwatul-Wusqaa - Yunus : 79
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِیْ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ
وَقَالَ : اور کہا فِرْعَوْنُ : فرعون ائْتُوْنِيْ : لے آؤ میرے پاس بِكُلِّ : ہر سٰحِرٍ : جادوگر عَلِيْمٍ : علم والا
اور فرعون نے کہا کہ جتنے ماہر جادوگر ہیں سب کو میرے حضور حاضر کرو
فرعون نے اب اپنے ملک کے سارے جادوگروں کو دعوت دے دی 111 ؎ فرعون اور اس کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ ” یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے اور تمہیں تمہاری زمین سے بےدخل کرنا چاہتا ہے اس لئے تم ملک کے سارے ماہر جادوگر جو ماہر فن ہوں ان سب کو میرے پاس لائو “ ۔ فرعونی درباریوں کے اس قول سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انکے ذہن میں بھی خدائی نشان اور جادو کے امتیازی فرق کا تصور بالکل واضح طور پر موجود تھا ، وہ جانتے اور سمجھتے تھے کہ خدائی نشان سے حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے اور جادو محض نظر اور نفس کو متاثر کر کے اشیاء میں ایک خاص طرح کا تغیر محسوس کرایا جانا ہے اور عوام کی نظروں میں وہ اصل چیز نظر آتی ہے جو فی الواقع نہیں ہوتی ۔ اس بناء پر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دعوائے رسالت کو رد کرنے کیلئے کہا کہ یہ شخص جادوگر ہے اور اس کے پیش کردہ عصا کی حقیقت کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ہومارے پاس اس کا کوئی توڑ موجود نہیں کیونکہ ہمارے مشاہدہ میں اس طرح نظر آ رہا ہے اس لئے جب ماہر فن حاضر ہوں گے اور وہ بھی اپنے لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینک کر لوگوں کو دکھائیں گے تاکہ عامۃ الناس کے دلوں میں اس پیغمبرانہ کلام سے جو ہیبت طاری ہوگئی ہے وہ اگر با لکیہ دور نہ بھی ہوئی تو کم از کم معاملہ کو شک ہی میں ڈال دے گی اور ہمارے لئے اتنی بات ہی کافی ہے ۔ چناچہ یہی کچھ ہوا ۔ تفصیل اس کی سورة الاعراف آیت 112 میں درج کردی گئی ہے وہاں سے ملاحظہ فرمالیں۔
Top