Urwatul-Wusqaa - Yunus : 84
وَ قَالَ مُوْسٰى یٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَیْهِ تَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ
وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰى : موسیٰ يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو اٰمَنْتُمْ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَعَلَيْهِ : تو اس پر تَوَكَّلُوْٓا : بھروسہ کرو اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّسْلِمِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا لوگو ! اگر تم فی الحقیقت اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس کی فرمانبرداری کرنی چاہتے ہو تو چاہیے کہ صرف اس پر بھروسہ رکھو
موسیٰ (علیہ السلام) کا فرمان کہ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ پر بھروسہ کرو 116 ؎ فرعونیوں نے جب موسیٰ (علیہ السلام) کو نبی ماننے سے انکار کیا اور سوائے چند معدودے آیتوں کے جو گنتی کے آٹھ دس آدمی ہوتے تھے سب نے منہ پھیر دیا تو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کو بھی نہایت بری طرح سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ تو کثرت سے موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو مان چکے تھے اگرچہ ان میں سے بعض آپ کا کھلا ساتھ دینے کیلئے تیار نہ تھے اور ایسے مصلحت اندیش لوگ ہر نبی کی قوم میں تھے جن کی پوزیشن درمیان ہی میں لٹکے ہوئوں کی ہوتی ہے اور وہ وہی لوگ تھے جو قوم کے بوڑھے تھے جن کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے اس لئے اس جگہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے ساتھیوں کی تربیت فرماتے ہوئے ان کو ارشاد فرما رہے ہیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہو تو تم کو حالات کی تمام ناسازگاریوں کے باوجود گھبرانا نہیں ہوگا بلکہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر مکمل بھروسہ کرنا ہو گا اس لئے کہ راہ حق کے مسافر کیلئے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہی اصل میں ایمان ہے اور زیر نظر آیت نے اس غلط فہمی کا ازالہ بھی کردیا جو بعض مفسرین کو گزشتہ آیت سے لگی تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی اکثریت ایمان نہیں لائی بلکہ چند معدودے آدمی ایسے تھے جو ایمان نہیں لائے تھے۔ اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو مخاطب کر کے فرمایا اور جن کو فرمایا وہ وہی تھے جو صحیح معنوں میں موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے کیونکہ کسی کافر قوم کو اس طرح خطاب نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لئے سیدناموسیٰ (علیہ السلام) کا یہ ارشاد صاف بتا رہا ہے کہ بنی اسرائیل کی پوری قوم یا قوم کی اکثریت مسلمان تھی اور موسیٰ (علیہ السلام) ان کو تلقین کر رہے تھے کہ اگر تم واقعی مسلمان ہو تو جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو فرعون کی طاقت سے خوفزدہ نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی طاقت پر بھروسہ رکھو کیونکہ اللہ پر بھروسہ رکھنا ہی دراصل ایمان ہے۔
Top