Urwatul-Wusqaa - Yunus : 85
فَقَالُوْا عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا١ۚ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَۙ
فَقَالُوْا : تو انہوں نے کہا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر تَوَكَّلْنَا : ہم نے بھروسہ کیا رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تَجْعَلْنَا : نہ بنا ہمیں فِتْنَةً : تختہ مشق لِّلْقَوْمِ : قوم کا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اُنہوں نے کہا ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا اے پروردگار ! ہمیں اس ظالم گروہ کے لیے آزمائشوں کا موجب نہ بنائیو
بنی اسرائیل کے نوجوانوں نے کہا کہ ہمارا بھروسہ تو یقینا اللہ ہی پر ہے 117 ؎ اوپر کی آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) نے جو تلقین اپنی قوم کو کی تھی اس کا جواب آپ کی قوم کی طرف سے دیا جا رہا ہے اور ان جان بازوں نے اپنے رسول ﷺ کے اس سبق کو یاد رکھنے اور اس کے مطابق عمل کرتے رہنے کا جو وعدہ کیا اور پھر اپنے پروردگار کی بارگاہ عزت و جلال میں دامن طلب پھیلا کر التجا کرنی شروع کردی کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس ظلم قوم یعنی قوم فرعون کیلئے فتنہ نہ بنا اور یہ جواب ظاہر ہے کہ ان نوجوانوں ہی کا تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھ دینے کیلئے واضح طور پر کھڑے ہوچکے تھے اور ان کے دلوں میں کسی طرح کا کوئی خوف موجود نہ تھا اس لئے ان صادق ال ایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ ” اے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ہمیں اس ظالم گروہ کیلئے آزمائش کا موجب نہ بنا “ ۔ بہت ہی وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ آزمائش و فتنہ کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں یعنی ہمیں ان کے ظلم و ستم کا ہدف نہ بنا ۔ مبادیٰ ہماری قوت برداشت جواب دے دے اور ہمارے پائوں ڈگمگا جائیں اور صبر و اسقامت کا دامن ہمارے ساتھ سے چھوٹ جائے۔ دوسرا مفہوم جو زیادہ پسندیدہ ہے وہ یہ ہے کہ اگر ان کے ظلم و تشدد کے مقابلہ میں ہماری بےبسی کا یہی عالم رہا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی برتری کے باعث اپنے بر حق ہونے کی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں ۔ وہ جب دیکھیں گے کہ انہوں نے تو ہم پر مظالم کی انتہا کردی ہے اور مار مار کر ہمیں لہولہان کردیا ہے اور ان میں سے تو کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی تو وہ یقین کرلیں گے کہ ہمارا کوئی خدا نہیں ورنہ اس کی غیرت اپنے بندوں کی اس رسوائی کو برداشت نہ کرسکتی اور یہی غلط فہمی ان کو اپنے کفر پر پکا نہ کرے۔
Top