Urwatul-Wusqaa - Yunus : 92
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةً١ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۠   ۧ
فَالْيَوْمَ : سو آج نُنَجِّيْكَ : ہم تجھے بچا دیں گے بِبَدَنِكَ : تیرے بدن سے لِتَكُوْنَ : تاکہ تو رہے لِمَنْ : ان کے لیے جو خَلْفَكَ : تیرے بعد آئیں اٰيَةً : ایک نشانی وَاِنَّ : اور بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنَ النَّاسِ : لوگوں میں سے عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری نشانیاں لَغٰفِلُوْنَ : غافل ہیں
پس آج ہم ایسا کریں گے کہ تیرے جسم کو بچا لیں گے تاکہ ان لوگوں کے لیے جو تیرے بعد آنے والے ہیں ایک نشانی ہو اور اکثر انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں کی طرف سے یک قلم غافل رہتے ہیں
فرعون کو اس وقت اس کی پکار کا واضح جواب سنا دیا گیا کہ اب تیرا کچھ کہنا بےسود ہے 126 ؎ فرعون کی بےوقت درخواست کا جواب اس کو اس نازک وقت میں سنا دیا گیا ۔ اس کا مضمون بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے یعنی مشیت الٰہی کا یہ فیصلہ کہ فرعون کے جسم کو غرق ہونے سے نجات دی جائے گی تاکہ آنے والی قوموں کیلئے قدرت الٰہی کی نشانی ہو اور اس لئے قدیم مفسرین کو حل مطلب میں بہت پریشانیاں اور مشکلات پیش آئیں لیک ن اگر ذرا رقت نظر سے کام لیا جائے تو مطلب بالکل واضح ہے ۔ قدیم مصریوں میں حنوط کا طریقہ رائج تھا یعنی بادشاہوں اور امیروں کی نعشیں ایک خاص طرح کا مصالحہ لگا کر ایک عرصہ تک کیلئے محفوظ کردیتے تھے چناچہ اٹھارویں صدی کے اوائل سے لے کر اس وقت تک بیشمار نعشیں مصر میں نکل چکی ہیں اور دنیا کا کوئی عجائب خانہ نہیں جس کے حصے میں دو چار نعشیں نہ آئی ہوں اس طرح کی نعشوں کیلئے ” ممی “ کا لفظ یونانیوں نے استعمال کیا تھا جو غالباً خود مصریوں ہی کی اصطلاح تھی۔ آیت کے مطلب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ، فرمایا تو اب موت سے تو نہیں بچ سکتا لیکن تیرا جسم سمندر کی موجوں سے بچالیا جائے گا تاکہ وہ حسب معمول ” ممی “ کر کے رکھا جائے اور آنے والی نسلوں کیلئے عبرت و تذکیر کا موجب ہے ۔ اگر مصریات کے بعض علماء کی یہ تحقیق درست ہے کہ یہ فرعون ریمسیس ثانی تھا تو اس کا بدن آج تک زائل نہیں ہوا ہے کیونکہ اس کی ” ممی “ نکل آئی ہے اور قاہرہ کے دارالاثار میں صحیح وسالم ہے ۔ ممکن تھا کہ سمندر کی بےرحم موجیں اس کی نعش کو کہیں دور بہا لے جائیں اور سمندر کا کھارا پانی تھوڑی دیر بعد اس کے گوشت پوست کو گلا کر رکھ دیتا یا بحری جانور اس کو نگل جاتے اور اس کا کوئی نشان تک باقی نہ رہتا لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ دنیا خدائی کے جھوٹے مدعی کے ہولناک انجام کو فراموش کر دے چناچہ سمندر کی موجوں کو حکم ملا اور انہوں نے اس کے بےروح جسم کو اٹھا کر ایک ٹیلے پر پھینک دیا اور یہ جگہ آج بھی جبل فرعون کے نام سے مشہور ہے اور وہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں فرعون کی لاش کو سمندر نے پھینکا تھا اس کی لاش کو دیکھ کر بنی اسرائیل کو بھی اس کے ڈوب جانے کا یقین ہوگیا اور باقی لوگوں کیلئے بھی اس میں درس عبرت رکھ دیا گیا ۔
Top