Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Yunus : 98
فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ
فَلَوْلَا
: پس کیوں نہ
كَانَتْ
: ہوتی
قَرْيَةٌ
: کوئی بستی
اٰمَنَتْ
: کہ وہ ایمان لاتی
فَنَفَعَهَآ
: تو نفع دیتا اس کو
اِيْمَانُهَآ
: اس کا ایمان
اِلَّا
: مگر
قَوْمَ يُوْنُسَ
: قوم یونس
لَمَّآ
: جب
اٰمَنُوْا
: وہ ایمان لائے
كَشَفْنَا
: ہم نے اٹھا لیا
عَنْھُمْ
: ان سے
عَذَابَ
: عذاب
الْخِزْيِ
: رسوائی
فِي
: میں
الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا
: دنیا کی زندگی
وَمَتَّعْنٰھُمْ
: اور نفع پہنچایا انہیں
اِلٰى حِيْنٍ
: ایک مدت تک
پھر قوم یونس کی بستی کے سوا اور کوئی بستی ایسی نہ نکلی کہ یقین کرلیتی اور ایمان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتی ؟ یونس کی قوم جب ایمان لے آئی تو ہم نے رسوائی کا وہ عذاب اس پر سے ٹال دیا جو دنیا کی زندگی میں پیش آنے والا تھا اور ایک خاص مدت تک سروسامان زندگی سے بہرہ مند ہونے کی مہلت دے دی
یونس (علیہ السلام) کی بستی کے سوا کوئی ایسی بستی نہ ہوئی کہ ایمان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتی 134 ؎ ذکر ان بستیوں کا ہو رہا ہے جو تکذیب انبیاء کی بناء پر ہلاکت و برباد ہوئیں اور ان پر افسوس کیا جا رہا ہے کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ان کے انبیاء کرام (علیہ السلام) نے ان کو عذاب کی دھمکی سنائی تو وہ ایمان نہ لائیں سوائے قوم یونس کے یعنی جس قوم کی طرف یونس (علیہ السلام) کو رسول بنا کر مبعوث کیا گیا اس بستی کی داستان اس طرح ہے کہ وہ حدود سے تجاوزکر رہی تھی کہ یونس (علیہ السلام) نے جن کا تعلق اس بستی سے تھا نبوت سے پہلے ہی ان کو دھمکی سنائی کہ اے لوگو ! اگر تم باز نہ آئے تو تم اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آ جائو گے ۔ یہ کہہ کریونس (علیہ السلام) تو اس بستی سے کسی دوسری طرف چلے گئے جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکل کر مدینہ کی طرف چلے گئے تھے جب کہ ابھی وہ نبی و رسول نہیں بنائے گئے تھے لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبی و رسول بنا کر مبعوث کیا اور انہیں اہل مصر کی طرف نبی و رسول بنا کر بھیجا گیا بعینہٖ یہی صورت یونس (علیہ السلام) کے ساتھ پیش آئی ۔ انہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو ان کے اعمال پر سرزنش کی اور وہاں سے نکل کر کسی دوسری جانب نکل گئے لیکن جونہی اس بستی والوں نے بادل آتے دیکھے تو ڈر گئے کہ شاید عذاب الٰہی آ رہا ہے ۔ زیر نظر آیت میں اس واقع کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے ۔ یونس (علیہ السلام) کا عبرانی نام ” یوناہ “ ہے جو عربی میں ” یونس “ بن گیا ۔ بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں لیکن آپ (علیہ السلام) کو نبوت اس کے بعد ملی جس واقع کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے وہ نبوت ملنے سے پہلے کا ہے ۔ بہر حال عہد عتیق نوشتوں میں ایک نوشتہ ان کے نام سے بھی ہے اس نوشتہ ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے باشندگان نینویٰ کو خبر دی تھی کہ چالیس دن کے بعد یہ شہر تباہ ہوجائے گا ( لیکن اس کی تصریح قرآن کریم یا کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے) کیوں ؟ اس لئے کہ تمہارا ظلم و فساد حد سے گزر گیا ہے یہ سن کر انہوں نے سے کشی نہیں کی بلکہ بادشاہ سے لے کر گڈریئے تک سب توبہ و استغفار میں لگ گئے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چالیس دن کی مدت گزر گئی مگر تباہی ظہور میں نہ آئی کیوں ؟ اس لئے کہ انہوں نے بات مان لی اور عذاب سے بچ گئے جس کے متعلق کوئی اعلان الٰہی بھی نہیں ہوا تھا اس کے بعد فرمایا کہ ایک خاص مدت کیلئے ان کو مہلت دے دی گئی چناچہ اس کے بعد یونس (علیہ السلام) کو باقاعدہ نبی بنا کر ان کی طرف بھیجا گیا اور قوم بھی پہلے ہی سے آپ کو گویا کہ منتظر تھی انہوں نے آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کیا اور یونس (علیہ السلام) کی وفات کے بعد تقریباً 690 ھ قبل مسیح میں ان کا ظلم و ستم دوبارہ حد سے تجاوز کر گیا اور ایک اور اسرائیلی نبی ناحوم نامی نے انہیں پیش آنے والی تباہی کی خبر دی لیکن اس واقعہ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اور پھر وہ موعود وقت آگیا اور بعد ازیں اہل بابل نے ان پر حملہ کیا اور ساتھ ہی دجلہ میں اس زور سے سیلاب آیا کہ نینویٰ کی مشہور عام چار دیواری جا بجا سے گر گئی اور حملہ آوروں کیلئے کوئی روک نہ رہی اس طرح آشوری تمدن کا یہ مرکز اس طرح نابود ہوا کہ 200 قبل مسیح میں اس کا جائے وقوع بھی لوگوں کو صحیح طور پر معلوم نہ رہا جیسا کہ اس عہد کے یونانی مورخین نے اس کو بیان کیا۔ اس طرح زیر نظر آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اہل مکہ انکار و سر کشی کر رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نیں ہے تمہیں غور کرنا چاہئے کہ کتنے ہی رسول علاقہ عرب کے قرب و جوار میں آئے لیکن قوم یونس کے سوا کوئی قوم نہ نکلی جس نے داعی حق کی بات فوراً مان لی ہو اتنی جلدی کہ عذاب ان سے ٹل جائے پھر اگر اکثر حالتوں میں ایسا ہی ہوا ہے تو موجودہ حالت پر تعجب و مایوسی کیوں ؟ اس جگہ قوم یونس کے توسط سے یونس (علیہ السلام) کا صرف نام آیا ہے اور علاوہ یونس (علیہ السلام) کا قصہ اس جگہ بیان نہیں ہوا البتہ قرآن کریم میں سورة الانبیاء آیت 87 ، 88 ، سورة الصافات آیات 139 تا 148 ، سورة القلم آیت 48 تا 50 میں یونس (علیہ السلام) کے واقع کی طرف مختصر اشارات دیئے گئے ہیں اور بائبل میں بھی جو ” یوناہ “ کے نام سے کتاب دی گئی ہے وہ بھی بالکل مختصر ہے ۔ بہر حال ہم نے یونس (علیہ السلام) کا مختصر تذکرہ اس جگہ کردینا مناسب سمجھا ہے ۔ اس کو اچھی طرح سمجھ کر پڑھ لیں اور کوئی بات خلاف واقعہ نظر آئے تو ہمیں اطلاع دیں انشاء اللہ اصلاح کردی جائے گی بشرطیکہ وہ اصلاح کے قابل ہوئی۔ سیدنا یونس (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت قرآن کریم میں یونس (علیہ السلام) کا ذکر چھ سورتوں میں آیا ہے یعنی سورة النساء 4 ، سورة الانعام 6 ، سورة یونس 10 ، سورة الانبیاء 21 ، سورة الصافات 37 اور سورة القلم 68 میں ۔ پھر ان سورتوں میں پہلی دو سورتوں میں تو صرف یونس (علیہ السلام) کا نام دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ناموں کے ساتھ درج ہے علاوہ نام کے اور کچھ نہیں اور سورة یونس میں صرف آپ (علیہ السلام) کی قوم کے عذاب سے بچ جانے کا ذکر ہے اور سورة الانبیاء میں یونس (علیہ السلام) کو ” ذوالنون “ کے نام سے مخاطب فرما کر ان کی اس تقریر کا ذکر ہے جو انہوں نے کشتی میں سوار ہو کر کشتی کے مسافروں کو کی اور وہ بھی صرف تقریر کے تین موضوع کی نشاندہی کی گئی ہے تفصیل نہیں اور یہی وہ تقریر ہے جس کو مفسرین نے دعا کے نام سے موسوم کیا ہے جو یونس (علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں چلے جانے کے بعد کی تھی اور سورة الصافات میں مختصر ذکر ہے جس میں آپ (علیہ السلام) کی رسالت ، رسالت سے پہلی زندگی اور رسالت کے بعد کی زندگی کا اختصار بلکہ اشارات میں ذکر ہے اور سورة القلم میں آپ (علیہ السلام) کے ” صاحب الحوت “ ہونے کا بیان فرما کر رسول اکرم یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کو ایک ہدایت دی گئی ہے اس لئے دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرح آپ (علیہ السلام) کی سرگزشت کو تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا بلکہ آپ (علیہ السلام) ان انبیاء کرام (علیہ السلام) میں سے ایک ہیں جن کا فقط نام یا ان کی تعلیم کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے تفصیل نہیں بیان کی گئی۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ مخاطبین اول یعنی عرب ، یہود اور نصاریٰ ان انبیاء کرام (علیہ السلام) کے صرف ناموں ہی سے واقف تھے یا ناموں کے ساتھ کسی نبی کی ایک آدھ بات کا تذکرہ ان کی کتابوں میں تھا جس میں انہوں نے اپنی عادت کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور ملایا ہوا تھا اور جو انہوں نے ملایا تھا اس کی تردید کیلئے صرف اتنا ہی ذکر کیا گیا کیونکہ قرآن کریم نے بطور تاریخ ان واقعات کو پیش ہی نہیں کیا بلکہ بطور تذکیر و نصیحت پیش کیا ہے اور یہی کچھ یونس (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی کیا گیا ۔ تا ہم جو کچھ ہمارے مفسرین یا مورخین نے تحریر کیا اس کا ماحصل یہ ہے کہ : یونس (علیہ السلام) کی عمر 28 سال کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب نبوت پر سرفراز فرمایا اور اہل نینویٰ کی رشد و ہدایت کیلئے مامور کیا ۔ آپ (علیہ السلام) ایک عرصہ تک ان کو تبلیغ کرتے رہے اور توحید کی دعوت دیتے رہے مگر قوم نے اعلان حق پر کان نہ دھرا اور نمرود و سر کش کے ساتھ شرک و کفر پر اصرار کرتے رہے اور گزشتہ نافرمان قوموں کی طرح اللہ کے رسول کی دعوت حق کو ٹھٹھا بنائے رکھا اور آپ (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتے رہے ۔ اس مسلسل اور پیہم مخالفت و معاندت سے متاثر ہو کر یونس (علیہ السلام) قوم سے خفا ہوگئے اور ان کو عذاب الٰہی کی بد دعا کر کے ان کے درمیان سے اس غصہ کی حالت میں روانہ ہوگئے ۔ تفسیر روح المعانی کے بیان کے مطابق فرات کے کنارے پہنچے تو ایک کشتی کو مسافروں سے بھرا ہوا تیار پایا اور آپ (علیہ السلام) اس کشتی میں سوار ہوگئے ۔ کشتی نے جب لنگر اٹھایا تو بہت جلد راہ میں طوفانی ہوائوں نے کشتی کو آگھیرا جب کشتی ڈگمگانے لگی اور اہل کشتی بہت ہی گھبرائے تو اپنے عقیدہ کے مطابق کہنے لگے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشتی میں کوئی غلام اپنے آقا سے بھاگا ہوا آ بیٹھا ہے اور جب تک اس کو کشتی سے الگ نہ کیا گیا اس کشتی اور اہل کشتی کی نجات مشکل ہے۔ یونس (علیہ السلام) نے اہل کشتی کی یہ بات سنی تو ان کو خیال ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو میرا نینویٰ سے وحی کا انتظار کئے بغیر اس طرح چلا آنا شاید پسند نہیں آیا اور اس میں میری آزمائش ہے یہ سوچ کر انہوں نے اہل کشتی سے فرمایا کہ وہ غلام میں ہوں جو اپنے آقا سے بھاگا ہوں مجھ کو کشتی سے باہر پھینک دو مگر ملاح اور اہل کشتی ان کی پاکبازی سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور آپس میں یہطے کیا کہ قرعہ اندازی کی جائے چناچہ تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی اور ہر مرتبہ یونس (علیہ السلام) کے نام کا قرعہ نکلا ۔ تب مجبور ہو کر انہوں نے یونس (علیہ السلام) کو دریا میں ڈال دیا یا یہ کہ وہ خود دریا میں کود گئے ۔ یونس (علیہ السلام) کا دریا میں گرا یا جانا گرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو ایک مچھلی نے نگل لیا لیکن مچھلی کو حکم ہوا کہ صرف نگل لینے کی اجازت ہے ۔ یونس (علیہ السلام) تیری غذا نہیں اس لئے اس کے جسم کو مطلق گزند نہ پہنچے ۔ یونس (علیہ السلام) جب زندہ اور صحیح و سلامت مچھلی کے پیٹ میں رہے تو انجام کار بارگاہ الٰہی میں اپنی اس ندامت کا اظہار کیا کہ کیوں وہ وحی الٰہی کا انتظار کئے بغیر اور اللہ تعالیٰ سے اجازت لئے بغیر اپنی قوم سے ناراض ہو کر نینویٰ سے نکل آئے اور عفو و تقصیر کیلئے وہ دعا پڑھی جس کو ” آیت کریمہ “ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے یعنی ” الا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین “ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہی یکتا ہے میں تیری پاکیزگی بیان کرتا ہوں بلا شبہ میں اپنے نفس پر خود ہی ظلم کرنے والا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کی درد بھری آواز کو سنا اور قبول فرمایا ، مچھلی کو حکم ہوا کہ وہ یونس (علیہ السلام) کو ” جو تیرے پاس ہماری امانت ہے اگل دے ، چناچہ مچھلی نے ساحل پر یونس (علیہ السلام) کو اگل دیا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے ان کا جسم ایسا ہوگیا تھا جیسا کہ کسی پرندہ کا پیدہ شدہ بچہ کا جسم بیحد نرم ہوتا ہے اور جسم پر بال تک نہ رہے۔ مختصر یہ کہ یونس (علیہ السلام) بہت نحیف و ناتواں حالت میں خشکی پر ڈال دیئے گئے اس کے بعداللہ تعالیٰ نے ان کیلئے ایک بیل دار درخت اگا دیا جس کے سایہ میں وہ ایک جھونپڑی بنا کر رہنے لگے ۔ چند دن کے بعد ایسا ہوا کہ اللہ کے حکم سے اس بیل کی جڑ کو کیڑا لگ گیا اور اس نے جڑ کو کاٹ ڈالا اور جب بیل سوکھنے لگی تو یونس (علیہ السلام) کو بہت غم ہوا تب اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ ان کو مخاطب کیا اور فرمایا اے یونس ! تم کو اس بیل کے سوکھنے کا بہت رنج ہوا جو ایک حقیر سی چیز ہے مگر تم نے یہ نہ سوچا کہ نینویٰ کی ایک لاکھ سے زیادہ آبادی جس میں انسان بےبس رہ رہ ہیں اور علاوہ ازیں جاندار بھی آباد ہیں اس کو برباد اور ہلاک کردینے میں ہم کو کوئی ناگواری نہیں ہوگی اور کیا ہم ان کیلئے اس سے زیادہ شفیق و مہربان نہیں ہیں جتنا کہ تجھ کو اس بیل کے ساتھ انس ہے جو تم وحی کا انتظار کئے بغیر قوم کو بد دعا کر کے ان کے درمیان سے نکل آئے حالانکہ ایک نبی و رسول کی شان کے یہ نا مناسب تھا کہ وہ قوم کے حق میں عذاب کی بد دعا کرنے اور ان سے نفرت کر کے جدا ہوجانے میں عجلت کرے اور وحی کا بھی انتظار نہ کرے۔ حقیقت حال اس طرح ہوئی کہ ادھر یونس (علیہ السلام) کے بستی چھوڑ دینے پر ان کو یقین ہوگیا کہ وہ ضرور اللہ کے سچے پیغمبر تھے اس لئے اب ہلاکت یقینی ہے تب ہی یونس (علیہ السلام) ہم سے جدا ہوگئے یہ سوچ کر فوراً بادشاہ سے لے کر رعایا تک سب کے دل خوف و دہشت سے کانپ اٹھے اور یونس (علیہ السلام) کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے تاکہ ان کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کریں اور ساتھ ہی سب کے سب اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرنے لگے اور ہر قسم کے گناہوں سے کنارہ کش ہو کر آبادی سے باہر میدان میں نکل آئے حتیٰ کہ چوپائوں کو بھی ساتھ لے آئے اور بچوں کو مائوں سے جدا کردیا اور اس طرح دنیوی علائق سے کٹ کر درگاہ الٰہی میں گریہ وزاری کرتے اور متفقہ آواز سے یہ اقرار کرتے رہے کہ ” ربنا امنا بما جاء بہ یونس “ اے پروردگار ! یونس (علیہ السلام) جو تیرا پیغام ہمارے پاس لے کر آئے تھے ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ فرمائی ، ان کی دولت ایمان سے نوازا اور ان کو عذاب سے محفوظ رکھا۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یونس (علیہ السلام) کو اب دوبارہ حکم ہوا کہ وہ نینویٰ جائیں اور قوم میں رہ کر ان کی رہنمائی فرمائیں تاکہ اللہ کی اس قدر کثیر مخلوق ان کے فیض سے محروم نہ رہے چناچہ یونس (علیہ السلام) نے اس حکم کا امتثال کیا اور نینویٰ میں واپس تشریف لے آئے قوم نے جب ان کو دیکھا تو بیحد مسرت ہوئی اور انہوں نے مسرت کا اظہار کیا اور ان کی رہنمائی میں دین و دنیا کی کامرانی حاصل کرتی رہے ۔ یہ ہے یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کی وہ ترتیب جو آیات قرآنی کی تفسیر میں تلاوت سے پاک اور صحیح مفہوم کی ترجمان ہے اور بلا شبک و ریب مختلف سورتوں کی تمام آیات کے معافی کو کسی گنجلگ کے بغیر صاف صاف ادا کردیتی ہے لیکن یہ حقیقت اچھی طرح اس وقت ظاہر ہوگی جبکہ واقعہ سے متعلق اختلافی مباحث کو زیر بحث لایا جائے اور پھر اس تفصیل ترتیب کا موازنہ کیا جائے مگر اس سے پہلے کہ ہم آیات قرآنی کا مطالعہ کر کے اس واقعہ کے ساتھ موازنہ کریں ہم چاہتے ہیں کہ پہلے یہ دیکھیں کہ اس سلسلہ میں یونس (علیہ السلام) کے متعلق تورات کا کیا بیان ہے اور وہ اس واقعہ کے ساتھ جو اوپر مذکور ہوا کہاں تک میل کھاتا ہے تاکہ بات اچھی طرح واضح ہوجائے چناچہ تورات میں ” یو ناہ “ کے نام سے ایک مضمون اس طرح درج ہے کہ : ” خداوند کا کلام یوناہ بن امتی پر نازل ہوا کہ اٹھ اس بڑے شہر نینوہ کو جا اور اسکے خلاف منادی کر کیونکہ ان کی شرارت میرے حضور پہنچی ہے لیکن یوناہ خداوند کے حضور سے ترسیس کو بھاگا اور ریان میں پہنچا اور وہاں اسے ترسیس کو جانے والا جہاز ملا اور وہ کرایہ دے کر اس میں سوار ہوا تاکہ خداوند کے حضور سے ترسیس کو اہل جہاز کے ساتھ جائے ۔ لیکن خداوند نے سمندر پر بڑی آندھی بھیجی اور سمندر میں سخت طوفان برپا ہوا اور اندیشہ ہوا کہ جہاز تباہ ہوجائے تب ملاح ہراساں ہوئے اور ہر ایک نے اپنے دیوتا کو پکارا اور وہ اجناس جو جہاز میں تھیں سمندر میں ڈال دیں تاکہ اسے ہلکا کریں لیکن یوناہ جہاز کے اندر پڑا سو رہا تھا تب ناندا اس کے پاس جا کر کہنے لگا کہ تو کیوں پڑا سو رہا ہے ؟ اٹھ اپنے معبود کو پکار ! شاید وہ ہم کو یاد کرے اور ہم ہلاک نہ ہوں اور انہوں نے آپس میں کہا کہ آئو ہم قرعہ ڈال کر دیکھیں کہ یہ آفت ہم پر کس کے سبب سے آئی چناچہ انہوں نے قرعہ ڈالا اور یوناہ کا نام نکلا ۔ تب انہوں نے اس سے کہا کہ تو ہم کو بتا کہ یہ آفت ہم پر کس کے سبب سے آئی ؟ تیرا کیا پیشہ ہے اور تو کہاں سے آیا ہے ؟ تیرا وطن کہاں ہے اور تو کس قوم کا ہے ؟ اس نے ان سے کہا کہ میں عبرانی ہوں اور خداوند آسمان کے خدا بحر و بر کے خالق سے ڈرتا ہوں تب وہ خوف زدہ ہو کر اس سے کہنے لگے تو نے یہ کیا کیا ؟ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ وہ خداوند کے حضور سے بھاگا ہے اس لئے اس نے خود ان سے کہا تھا۔ تب انہوں نے اس سے پوچھا ہم تجھ سے کیا کریں کہ سمندر ہمارے لئے ساکن ہوجائے ؟ کیونکہ سمندر زیادہ طوفانی ہوتا جاتا تھا۔ تب اس نے ان سے کہا مجھ کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دو تو وہ تمہارے لئے ساکن ہوجائے گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ بڑا طوفان تم پر میرے ہی سبب سے آیا ہے تو بھی ملاحوں سے ڈنڈا چلانے میں بڑی محنت کی کہ کنارے پر پہنچ جائیں لیکن نہ پہنچ سکے کیونکہ سمندر ان کے خلاف اور بھی زیادہ موجزن ہوتا جاتا تھا۔ اب انہوں نے خداوند کے حضور گڑگڑا کر کہا اے خداوند ہم تیری منت کرتے ہیں کہ ہم اس آدمی کی جان کے سبب سے ہلاک نہ ہوں اور تو خون ناحق کو ہماری گردن پر نہ ڈالے کیونکہ اے خدوند تو نے جو چاہا سو کیا اور انہوں نے یوناہ کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور سمندر کا تلاطم موقوف ہوگیا ۔ تب وہ خداوند سے بہت ڈر گئے اور انہوں نے اس کے حضور قربانی گزرانی اور نذریں مانیں لیکن خداوند نے ایک بڑی مچھلی مقرر کررکھی تھی کہ یوناہ کو نگل جائے اور یوناہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا ۔ تب یوناہ کے پیٹ میں خداوند نے اپنے خدا سے یہ دعا کی ۔ میں نے اپنی مصیبت میں خداوند سے دعا کی اور اس نے میری سنی ۔ میں نے پاتال کی تہہ سے دہائی دی ۔ تو نے میری فریاد سنی ۔ تو نے مجھے گہرے سمندر میں پھینک دیا اور سیلاب نے مجھے گھیر لیا تیری سب موجیں اور لہریں مجھ پر سے گزر گئیں اور میں نے سمجھا کہ تیرے حضور سے دور ہوگیا ہوں لیکن میں پھر تیری مقدس ہیکل کو دیکھوں گا ۔ سیلاب نے میری جان کو محاصرہ کیا ۔ سمندر میری چاروں طرف تھا۔ بحری نبات میرے سر پر لپٹ گئی ۔ میں پہاڑوں کی تک تک غرق ہوگیا۔ زمین کے اڑیں گے ہمیشہ کیلئے مجھ پر بند ہوگئے۔ تو بھی اے خداوند میرے خدا تو نے میری جان پاتال سے بچائی ۔ جب میرا دل بیتاب ہوا تو میں نے خداوند کو میرے خدا تو نے میری جان پاتال سے بچائی۔ جب میرا دل بیتاب ہوا تو میں نے خداوند کو یاد کیا اور میری دعا تیری مقدس ہیکل میں تیرے حضور پہنچی ۔ جو لوگ جھوٹے معبودوں کو مانتے ہیں وہ شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں میں حمد کرتا ہوا تیرے حضور قربانی گزاروں گا ۔ میں اپنی نذریں ادا کروں گا ۔ نجات خداوند کی طرف سے ہے اور خداوند نے مچھلی کو حکم دیا اور اس نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا۔ اور خداوند کا کام دوسری بار یوناہ پر نازل ہوا کہ اٹھ اس بڑے شہر نینوہ کو جا اور وہاں اس بات کی منادی کر جس کا میں تجھے حکم دیتا ہوں تب یوناہ خداوند کے حکم کے مطابق اٹھ کر نینوہ کو گیا اور نینوہ بہت بڑا شہر تھا اس کی مسافت تین دن کی راہ تھی اور یوناہ شہر میں داخل ہوا اور ایک دن کی راہ چلا اس نے منادی کی اور کہا چالیس روز کے بعد نینوہ برباد کیا جانے لگا ۔ تب نینوہ کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰ و اعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا اور یہ خبر نینوہ کے بادشاہ کو پہنچی اور وہ اپنے تخت پر سے اٹھا اور بادشاہی لباس کو اتار ڈالا اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا اور بادشاہ اور اسکے ارکان دولت کے فرمان سے نینوہ سے یہ اعلان کیا گیا کہ اور اس بات کی منادی ہوئی کہ کوئی انسان یا حیوان گلہ یا رمہ کچھ نہ چکھے اور نہ کھائے پئے لیکن انسان اور حیوان ٹاٹ سے ملبس ہوں اور خدا کے حضور گریہ وزاری کریں بلکہ ہر شخص اپنی بری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے باز آئے۔ شاید خدا ارحم کرے اور اپنا ارادہ بدلے اور اپنے قہر شدید سے باز آئے اور ہم ہلاک نہ ہوں ۔ جب خدا نے ان کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بری روش سے باز آئے تو وہ اس عذاب سے جو اس نے ان پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اسے نازل نہ کیا ۔ لیکن یوناہ اس سے نہایت نا خوش ہوا اور ناراض ہوا اور اس نے خداوند سے یوں دعا کی کہ اے خداوند ! جب میں اپنے وطن میں تھا اور ترسیس کو بھاگنے والا تھا تو کیا میں نے یہی نہ کہا تھا ؟ میں جانتا تھا کہ تو رحیم و کریم خدا ہے جو قہر کرنے میں دھیما اور شفقت کرنے میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے ۔ اب اے خداوند ! میں تیری منت کرتا ہوں کہ میری جان لے لے کیونکہ میرے اس جینے سے مرنا بہتر ہے۔ تب خداوند نے فرمایا کیا تو ایسا ناراض ہے ؟ اور یوناہ شہر سے باہر مشرق کی طرف جا بیٹھا اور وہاں اپنے لئے ایک چھپر بنا کر اسکے سایہ میں بیٹھ رہا کہ دیکھے شہر کا کیا حال ہوتا ہے ؟ تب خداوند نے کدو کی بیل اگائی اور اسے یوناہ کے اوپر پھیلایا کہ اس کے سر پر سایہ ہو اور وہ تکلیف سے بچے اور یوناہ اس بیل کے سبب سے نہایت خوش ہوا ۔ لیکن دوسرے دن صبح کے وقت خدا نے ایک کیڑا بھیجا جس نے اس بیل کو کاٹ ڈالا اور وہ سوکھ گئی اور جب آفتاب بلند ہوا تو خدا نے مشرق سے لو چلائی اور آفتاب کی گرمی نے یوناہ کے سر میں اثر کیا اور وہ بیتاب ہوگیا اور موت کا آرزو مند ہو کر کہنے لگا کہ میرے اس جینے سے مر جانا بہتر ہے اور خدا نے یوناہ سے فرمایا کیا تو اس بیل کے سبب سے ایسا ناراض ہوا ہے ؟ اس نے کہا میں یہاں تک ناراض ہوں کہ مر جانا چاہتا ہوں ۔ تب خداوند نے فرمایا کہ تجھے اس بیل کا اتنا خیال ہے جس کے لئے تو نے نہ کچھ محنت کی اور نہ اسے اگایا ۔ جو ایک ہی رات میں اگ اور ایک ہی رات میں سوکھ گئی اور کیا مجھے لازم نہ تھا کہ میں اتنے بڑے شہر نینویٰ کا خیال کروں جس میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ایسے ہیں جو اپنے داہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کرسکتے تھے اور بیشمار مویشی ہیں ؟ ( بائبل پرانا عہد نامہ کتاب یوناہ کے چار ابواب) ان دونوں عبارات کو بغور پڑھیں ۔ یہ بات آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ تورات موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی لہٰذا اس میں بیان کیا گیا واقعہ پہلے کا ہے اور اس کے بعد قرآن کریم میں اس واقعہ کا اشارات میں ذکر آیا اور ازیں بعد مفسرین نے اور مورخین اسلام نے اس واقعہ کو نقل کیا اور جو کچھ نقل کیا وہ مع شے زائد وہی ہے جو تورات میں مذکور ہے اس کو تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ قرآن کریم کی تفسیر میں نقل کردیا اور وہ ساری باتیں اب کتب تفاسیر میں اور تاریخ میں آگئیں جن کا ذکر قرآن کریم میں مطلق نہ تھا بلکہ قرآن کریم میں ان باتوں کی اشارات میں تردید فرمائی تھی تاکہ بات بھی صاف ہوجائے اور یہود و نصاریٰ اور عرب کے لوگ حقیقت حال کو بھی اچھی طرح جانچ لیں اور معلوم کرلیں کہ کوئی نبی و رسول نہ جھوٹ بولتا ہے اور نہ ہی اللہ سے ناراض ہو کر اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے اور کوئی رسول ہجرت کر جانے کے بعد اس مقام کی طرف دوبارہ لوٹ کر رہائش پذیر نہیں ہوتا جہاں سے وہ ہجرت کرے اور نبی و رسول ہونے والے انسان کی زندگی میں نبی و رسول بننے سے پہلے اور بعد کوئی خاص فرق نہیں ہوتا مگر یہ کہ وہ نبوت سے پہلے جو کچھ کہتا ہے وہ من حیث النبوت و رسالت نہیں کہتا اور نبی و رسول بنائے جانے کے بعد جو کچھ کہتا ہے وہ من حیث النبوت و رسالت نہیں کہتا اور نبی و رسول بنائے جانے کے بعد جو کچھ کہتا ہے وہ من حیث النبوت و رسالت کہتا ہے یعنی تحدی اور چیلنج سے کہتا ہے کیونکہ وہ اللہ کا پیغام قوم کو سناتا ہے جس پر کہنے سے پہلے وہ خود اس پر ایمان لاتا ہے کہ یہ بات اللہ کی طرف سے ہے لہٰذا اس طرح ہوگی جس طرح میں کہہ رہا ہوں اور یہی بات یونس (علیہ السلام) کے واقعہ سے ثابت ہوتی ہے۔ اب قرآن کریم کی آیات کا مطالعہ کریں بعد میں اس کا تجزیہ پیش کریں گے۔ قرآن کریم کی جن سورتوں میں یونس (علیہ السلام) کا واقعہ کریں بعد میں اس کا تجزیہ پیش کریں گے۔ قرآن کریم کی جن سورتوں میں یونس (علیہ السلام) کا واقعہ بیان ہوا ہے ان کی ترتیب نزول اس طرح ہے۔ القلم : 2۔ یونس : 51۔ الصافات : 56 اور الانبیاء 73۔ اس ترتیب سے آیات درج کی جا رہی ہیں ۔ ارشاد ہوا کہ : فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِم اِذْ نَادٰی وَہُوَ مَکْظُوْمٌ لَوْ لَآ اَنْ تَدٰرَکَہٗ نِعْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآئِ وَہُوَ مَذْمُوْمٌ فَاجْتَبٰـہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ (القلم : 68 : 48 تا 50) فَلَوْلَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَآ اِیْمَانُہَآ اِلاَّ قَوْمَ یُوْنُسَط لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰـوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰـہُمْ اِلٰی حِیْنٍ (یونس 11 : 98) اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ فَالْتَقَمَہُ الْحُوْتُ وَہُوَ مُلِیْمٌ فَلَوْلَآ اَنَّـہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ فَنَبَذْنٰـہُ بِالْعَرَآئِ وَہُوَ سَقِیْمٌ وَاَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ وَاَرْسَلْنٰـہُ اِلٰی مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ فَاٰمِنُوْا فَمَتَّعْنٰـہُمْ اِلٰی حِیْنٍ (الصافات 37 : 140 تا 148) وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرََ عَلَیْہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰـہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ لا وَنَجَّیْنٰـہُ مِنَ الغَمِّط وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ (الانبیاء 21 : 87 ، 88) ” پس آپ (علیہ السلام) ( اے پیغمبر اسلام ! ) اپنے رب کے حکم کا انتظار کیجئے اور مچھلی والے ( یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہوجائے۔ جب اس نے پکارا اس حال میں کہ وہ غم وغصہ کو پینے والا تھا۔ اگر اس کے رب کی حمت اس کی دستگیری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیا جاتا اور اس کی دنیا میں مذمت کی جاتی ۔ پھر اس کے رب نے اس کو منتخب فرمایا اور اس کو اپنے نیک بندوں میں شامل رکھا۔ ( القلم 68 : 48 تا 50) ” پھر کیوں ایسا نہ ہوا کہ قوم یونس کی بستی کے سوا اور کوئی بستی نہ نکلی کہ “ (نزول عذاب سے پہلے) یقین کرلیتی اور ایمان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتی ؟ یونس (علیہ السلام) کی قوم جب ایمان لے آئی تو ہم نے رسوائی کا وہ عذاب ان پر سے ٹال دیا جو دنیا کی زندگی میں پیش آنے والا تھا اور ایک خاص مدت تک سرو سامان زندگی سے بہرہ مند ہونے کی ( ان کو) مہلت دے دی۔ “ (یونس 10 : 98) ” اور بلا شبہ یونس (علیہ السلام) ہمارے بھیجے ہوئوں سے تھا۔ جب وہ دوڑ کر ایک کشتی کی طرف گیا جو لوگوں اور سامان وغیرہ سے بھری جا چکی تھی ۔ پس وہ بھی بھاگ دوڑ کر ان کشتی والوں کے ساتھ جا ملا ( اور ایک خطرناک جگہ پر) یعنی پھسلنے والوں میں جا بیٹھا۔ جہاں آپ کے پائوں کو مچھلیاں چھو رہی تھیں ( اور وہ خطرناک جگہ پر بیٹھنے کی وجہ سے) اپنے آپ کو ملامت کررہا تھا ( دل ہی دل میں کہ کچھ وقت پہلے آجاتا تو اچھا ہوتا) اور اگر وہ تسبیح خوانوں میں سے نہ ہوتا تو وہ مچھلیوں کے پیٹ میں قیامت تک پڑا رہنے والا ہوتا اور وہیں سے وہ دوبارہ اٹھایا جاتا ۔ پس اس طرح ہم نے اس کو ایک کھلے میدان میں اتار دیا جہاں وہ آزردہ حال اور دل برداشتہ تھا ( کیونکہ کوئی اس کا وقف کار نہ تھا) اور ہم نے اس کے پہلو میں ( قریب ہی) ایک بیل اگائی ہوئی تھی (کہ وہ آبادی کے آثار دیکھ لے) اور وہاں سے ہی ہم نے اس کو رسول بنا کر اس بستی کی طرف روانہ کردیا جس کی آبادی ایک لاکھ سے کچھ زیادہ تھی ( اور وہ بستی وہی نینوہ کی تھی اس لئے کہ وہ ) ایمان لا چکے تھے اور ہم نے ان کو ایک وقت تک دنیوی فائدہ حاصل کرنے کی مہلت دے دی تھی۔ ( الصافات 37 : 140 تا 148) ” اور ” ذوالنون “ ( یعنی یونس (علیہ السلام) جب وہ ( نبوت سے پہلے) غصے کی حالت میں چلا گیا پس اس کو یقین تھا کہ ہم اس پر تنگی نہیں کریں گے پس ( اس نے بھری ہوئی کشتی کے اندر ہی) شرک جیسے ظلم کے خلاف تقریر شروع کردی اور اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور تحمید و تمجید کو بیان کیا اور اپنے ( انسانی ) ظلم و زیادتیوں پر خوب روشنی ڈالی پس ( اس طرح کے بیان سے) ہم نے اس کو اس التجاء کو شرف قبولیت بخشا اور اس کو اس غم کی ( جگہ سے جو نہایت خطرناک تھی) نجات دے دی اور ( وہ محفوظ جگہ کی طرف لایا گیا) ہم ایمان والوں کو اس طرح نجات دیا کرتے ہیں “۔ ( الانبیاء 21 : 87 ، 88) بات کیا تھی اور اس کو کیا بنا دیا گیا ؟ قرآن کریم کے اشارات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یونس (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں سے ایک نبی و رسول تھے لیکن نبوت و رسالت کے عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے ہی وہ اپنی قوم کے لوگوں کو توحید الٰہی کا درس دیتے اور ان کو برے کاموں سے روکتے تھے لیکن قوم کے لوگ ایسے تھے کہ وہ آپ کی باتوں پر مطلق کان نہ دھرتے تھے۔ اس طرح وہ قوم کے لوگوں سے دل برداشتہ ہو کر نکل کھڑے ہوئے کہ ایسے لوگوں کی رفاقت سے الگ تھلگ ہوجانا ان کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے۔ اگرچہ کسی طرف جانے کا کوئی پختہ عزم موجود نہ تھا جب وہ دریائے فرات کے کنارہ پر پہنچے تو فرات پر کشتی نظر آئی تو خیال ہوا کہ اس پر سوار ہو کر دوسری طرف نکل جائوں اس غرض سے بھاگ دوڑ کر کشتی کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ کشتی مسافروں سے بھری جا چکی ہے لیکن اس کے باوجو آپ بھی بھاگ دوڑ کر کشتی تک پہنچ گئے اور کشتی بانوں نے بھی اپنی عادت کے مواقف انکار نہ کیا اور کشتی پر سوار ہونے کی دعوت دی ۔ آپ (علیہ السلام) کشتی پر سوار ہونے والوں کے ساتھ شریک ہوگئے ۔ اس طرح سوار تو ہوگئے لیکن بیٹھنے کی کوئی محفوظ جگہ آپ کو نہ مل سکی ۔ کشتی کے کنارہ پر ایسی جگہ آپ پائوں لٹکا کر بیٹھے کہ پائوں پانی میں چلے گئے گویا کہ مچھلیاں پائوں کو چھونے لگیں اور اس غیر محفوظ جگہ پر بیٹھ کر آپ کو خطرہ بھی محسوس ہوا کہ اگر ذرا دھکا پیل ہوئی یا کشتی نے ہچکولا کھایا تو سیدھا سمندر میں پہنچ جائوں گا جس کا حاصل کیا ہوگا ، بات بالکل واضح ہے لیکن اس کے باوجود کہ آپ ایسی خطرناک جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے آپ (علیہ السلام) نے ہمت کی لوگوں کے اس جم گھٹے میں وعظ و تقریر شروع کردی اور لوگوں کو ” لا الہ الا اللہ “ کے موضوع پر خوب درس دیا ۔ لوگوں نے بھی آپ (علیہ السلام) کے وعظ سے متاثر ہو کر آپ (علیہ السلام) کو اس مقام سے اٹھا کر محفوظ مقام پر آنے کی دعوت دی تاکہ آپ (علیہ السلام) لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر اپنا بیان جاری رکھیں اور آپ (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا اور آپ (علیہ السلام) نے تین موضوع پر خوب روشنی ڈالی اور توحید الٰہی پر ، اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور پاکیزگی پر اور انسان کے کفران نعمت پر ۔ کشتی چلتی رہی اور کتنے نازک مراحل سے گزری لیکن آپ (علیہ السلام) کے وعظ دل نشین کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں پر یہ سفر ذرا اشاق نہ گزرا حتیٰ کہ دریا کا دوسرا کنارہ آپہنچا لوگ اترنے لگے اور اس طرح آپ بھی کشتی سے اتر گئے ۔ سب لوگ اپنے اپنے مقام کی طرف چلے گئے لیکن آپ (علیہ السلام) کا کوئی مقام تو موجود نہ تھا آپ (علیہ السلام) اس میدان میں ٹھہر گئے اور کچھ وقت کے بعد کسی طرف کا رخ کر کے چل پڑے ۔ اس طرح چلتے چلتے کسی ایسے مقام پر پہنچے کہ وہاں بیلیں وغیرہ نظر آنے لگیں گویا بیل کیا نظر آئی کہ آبادی کے آثار نظر آنے لگے ۔ وہاں رک گئے اور ابھی زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اللہ نے پیغام رسالت سے نوازا اور حکم دیا کہ آپ نے ان کو کہا تھا وہ ان کی ہمدردی تھی ۔ آپ (علیہ السلام) پر ذمہ داری کا بوجھ نہیں رکھا گیا تھا لیکن اب یہ آپ (علیہ السلام) کی ذمہ داری ہے کہ آپ (علیہ السلام) ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلائیں اور یہ بھی کہ ہم نے اس بستی والوں کے دل اب نرم کردیئے ہیں اور آپ (علیہ السلام) کے وہاں سے نکلنے کے بعد ان کی حالت پہلے سے بالکل مختلف ہوچکی ہے ۔ آپ وہاں جا کر اللہ کا پیغام پہنچائیں وہ یقینا اس کو قبول کریں گے جہاں نہ ماننے والے رہیں گے وہاں ماننے والے بھی یقینا موجود رہیں گے ۔ اس طرح یونس (علیہ السلام) کو نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے انہی کی بستی کی طرف روانہ کردیا اور اب یونس رسول اللہ (علیہ السلام) نینویٰ کی بستی کے لوگوں کے رسول قرار پائے اور آپ نے اپنی اس بستی میں دوبارہ جا کر توحید الٰہی کا اعلان فرمایا اور ایک وقت تک بستی والوں کو پیغام نبوت و رسالت پہنچاتے رہے ۔ اس طرح یونس (علیہ السلام) کا بستی کو چھوڑ جانے کا واقع آپ کی نبوت کے پہلے کا قرار پاتا ہے اور نبوت سے پہلے کسی جگہ کو کسی وجہ سے چھوڑ جانا شرعی ہجرت نہیں کہلاتا اگرچہ اس کو عرف کے طور پر ہجرت کہا جائے ۔ کوئی نبی و رسول جب نبی بنا دیا جائے تو بعد از اعلان نبوت حالات کی خرابی کے باعث اپنے علاقہ سے نکل کھڑا ہو ؟ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہجرت کا حکم اس کو اللہ کی طرف سے نہ مل جائے وہ اس جگہ قتل تو ہو سکتا ہے لیکن ہجرت نہیں کرسکتا دوسری بات یہ ہے کہ کوئی نبی بھی جب اپنے علاقے سے بحکم الٰہی ہجرت کر جائے تو پھر حالات چاہے درست ہوجائیں اور لوگوں کی اکثریت بھی مسلمان و فرمانبردار ہوجائے لیکن کوئی نبی اس مقام کی طرف لوٹ کر جہاں سے اس نے ہجرت کی تھی رہائش پذیر نہیں ہوتا اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کے واضح ارشادات موجود ہیں جاسا کہ آپ ان آیات کریمات کی تفسیر میں پڑھیں گے ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ہمارے مفسرین نے بائبل کا بیان جب پڑھا تو اس سے جو تفہیم ہوتی تھی اس کو اپنی تفاسیر میں بطور تفسیر بھر دیا اور وہ ہمارے ذہنوں میں اس طرح پیوست ہوگیا کہ اب جو بات اس کے مطابق نہ ہوئی اس کے ماننے ہی سے ہم نے انکار کرنا شروع کردیا ۔ ہم نے کسی بھی نبی و رول کی نبوت و رسالت کا لحاظ نہ کیا بلکہ ہمیشہ مفسرین کی تفسیر کو پیش نظر رکھا اور ان کو وہ احترام کیا جو احترام نبوت و رسالت کا ہم پر لازم تھا اور نبی و رسول کو وہ مقام بھی نہ دیا جو مفسرین کرام (رح) کو دیا گیا ۔ بجائے اس کے کہ ہمارے مفسرین کرام قرآن کریم کے الفاظ پر غور و فکر کرتے انہوں نے تورات کے بیان پر غور و فکر کیا اور قرآن کریم کے الفاظ سے وہ مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی جو تورات کے بیان کی مطابقت کرے ۔ ایسا کیوں کیا گیا ؟ محض اس لئے کہ تورات بھی الہامی کتاب ہے اور مفسرین کرام یہ سمجھتے کہ قرآن کریم کی وحی الٰہی کے اس الفاظ سے پہلے کی الہامی کتاب کے ترجمان ہوں گے حالانکہ تورات میں یہود نے تفسیر در تفسیر کرتے ہوئے وہ کچھ بھر دیا جس کا اس کتاب میں نام و نشان بھی موجود نہ تھا ۔ آج اگر وہ تورات دنیا میں موجود ہوتی جو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوتی تھی تو یہ فرق واضح نظر آتا ۔ اس لئے تورات کا وہ حصہ جو قرآن کریم میں محفوظ کردیا گیا بلا شبہ تورات تھا لیکن جن باتوں کو قرآن کریم نے نظر انداز کیا وہ یقینا یہود ہی کا اضافہ تھیں ۔ اس واقعہ میں بھی اضافہ شدہ باتیں تھیں جن کا قرآن کریم نے ذکر نہیں کیا لیکن ہمارے مفسرین رحمہم اللہ نے وہ مطلب تورات کی تطبیق کے باعث نکال لیا مثلاً یہ کہ تورات کا بیان ہے : ” یونس (علیہ السلام) کو اللہ نے نینویٰ کو جانے کا حکم دیا اور وہ نینویٰ کی بجائے ترسیس کو بھاگ نکلا اور یافی کی بندرگاہ سے ترسیس کو جانے والے جہاز پر سوار ہوا لیکن خداوند نے سمندر پر بڑی آندھی بھیجی اور سمندر میں سخت طوفان برپا ہوا ۔۔۔۔۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ آئو ہم قرعہ ڈال کر دیکھیں کہ یہ آفت ہم پر کس کے سبب سے آئی ۔ “ لیکن قرآن کریم میں اس کا اشارہ تک نہیں۔ ہاں قرآن کریم میں تھا کہ اذا بق الی الفلک المشحون فساھم فکان من المدحضین (الصافات 37 : 140 ، 141) ” جب وہ دوڑ کر ایک کشتی کی طرف گیا جو بھری جا چکی تھی ۔ پس وہ ان کشتی والوں میں شامل تو ہوگیا لیکن ( کشتی کے ایک کنارے پر) دھکیل دیئے جانے والوں میں تھا۔ “ اس سورت کی ان دو آیتوں میں تین الفاظ ” ابق “ ” فساھم “ اور ” مدحضین “ جو استعمال ہوئے تو مفسرین نے ان کا مفہوم ایسا بیان کیا کہ اس کو جوڑ جاڑ کر وہ مفہوم لے لیا جو ان کو تورات کے بیان کے مطابق نظر آیا اور کہا گیا کہ ابق کہا گیا کہ ابق کا لفظ غلام کے بھاگنے پر بولا جاتا ہے پھر جب یونس (علیہ السلام) کسی کے غلام نہ تھے تو کہا گیا کہ دراصل وہ اللہ سے بھاگے تھے اس لئے یہ لفظ استعمال ہوا لہٰذا اس سے ” اللہ کے حکم کے بغیر ایک نبی و رسول کا ہجرت کر جانا مراد ہے “۔ حالانکہ قرآن کریم نے دوسری جگہ ” ابق “ کا مطلب خود ” ذھب “ سے بیان کردیا تھا لیکن اس کی طرف خیال نہ کیا ۔ تفصیل اس کی اپنے مقام پر ملے گی۔ ” فساھم “ سے قرعہ اندازی کا تصور محض اس لئے لیا گیا کہ تورات میں قرعہ اندازی کا ذکر تھا حالانکہ ’ ’ ساھم “ ” شارک “ شریک ہونا اور شامل ہوجانا تھا یعنی بھاگ دوڑ کر کشتی والوں میں شریک و شامل ہوگئے ۔ ” مدحضین “ چونکہ تورات میں قرعہ اندازی کے بعد یونس (علیہ السلام) کے نام پر قرعہ نکلنے اور پھر دریا یا سمندر میں پھینک دیئے جانے کا ذکر تھا اس لئے وہی تصور یہاں بیان کردیا حالانکہ بات بالکل صاف تھی کہ کشتی والوں میں شامل تو ہوگئے لیکن آپ ان لوگوں میں شامل تھے جو کشتی کے کنارے پر دھکیل دیئے گئے تھے جیسے تنگی کے باعث اکثر ہوتا ہے کہ کشتی کے اندر جگہ موجود نہ رہے تو بعد میں آنے والے کشیھ کے کناروں پر بیٹھتے ہیں حالانکہ وہ ایک خطرناک جگہ ہوتی ہے اور بیٹھنے والا اس خطرہ کو جس طرح محسوس ہوتا ہے وہ وہی سمجھ سکتا ہے جو اس طرح کے واقعہ سے دو چار ہوا ہو۔ دحض ذلق کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور مدحضین کہہ کر مزید بات کی وضاحت فرما دی کہ وہ اکالک نہیں بلکہ اس کے ساتھ بہت سے لوگ اور اس پھسلنے والی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے جو نہایت ہی خطرناک جگہ تھی ۔ یعنی وہ دھکیل دیئے جانے والوں یا پھسل جانے والوں میں سے تھا۔ اگر وہی مطلب لیا جائے جو مفسرین کرام نے لیا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ پھینک دیئے جانے والوں میں سے تھا حالانکہ آپ کے ساتھ کسی دوسرے کو پھینکے جانے کا کوئی ذکر کی مفسر نے بھی نہیں کیا ۔ اس طرح ایک آیت میں ” مغاضیا “ کا لفظ تھا اور ایک آیت میں ” نقدر ‘ ‘ کا پہلے لفظ سے اللہ کے ساتھ غصہ ہوجانے کا مفہوم لے لیا کہ اللہ کے ساتھ غصہ میں آ کر چلے گئے کہ اللہ نے اس قوم کو ہلاک کیوں نہ کیا اور دوسرے لفظ کو تقدیر وقدرت سے لے لیا کہ یونس نے سمجھا کہ ہم اس کو نہ پکڑ سکیں گے ۔ خاکم بدھن کہ میں اس طرح کا مفہوم ان الفاظ سے لوں ؟ حالانکہ ایسا مفہوم ایک عام مسلمان کے متعلق بھی نہیں لیا جاسکتا۔ ہاں ! قوم کے ساتھ غصہ ہونا ایک فطری امری ہے اور وہ بھی اس وقت کی بات ہے کہ آپ ابھی پیغام رسالت و نبوت سے نوازے ہی نہ گئے تھے اور نقدر کی معنی ’ ’ تنگی کرنے “ کے ہیں یعنی یونس (علیہ السلام) کو یقین تھا کہ ہم اس پر تنگی نہیں کریں گے چونکہ وہ رسول بنائے جانے والا تھا اس لئے اس کا مکمل بھروسہ اللہ کی ذات پر تھا اور وہی کچھ ہوا جو اس کے ذہن و دماغ میں تھا کہ ہم نے اس پر کوئی تنگی نہ کی بلکہ تنگی کے موقع پر اس کو آسانی بہم پہنچائی۔ تورات میں یونس (علیہ السلام) کو ان کے نام قرعہ نکلنے کے باعث پھینک دینے کا بیان تھا جیسا کہ لکھا ہے کہ ” تب انہوں نے اس سے پوچھا کہ ہم تجھ سے کیا کریں کہ سمندر ہمارے لئے ساکن ہوجائے ؟ کیونکہ سمندر زیادہ طوفانی ہوتا جاتا تھا۔ تب اس نے ان سے کہا مجھ کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دو تو تمہارے لئے سمندر ساکن ہوجائے گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ بڑا طوفان تم پر میرے ہی سبب سے آیا ہے ۔۔۔۔۔ انہوں نے یوناہ کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور سمندر کا تلاطم موقوف ہوگیا ۔ “ پھر کہا گیا کہ : ” خداوند نے ایک بڑی مچھلی مقرر کر رکھی تھی کہ یوناہ کو نگل جائے اور یوناہ تین دن رات مچھلی کے پٹ میں رہام تب یوناہ نے مچھلی کے پیٹ میں خداوند سے دعا کی۔۔۔۔۔۔ اور خداوند نے مچھلی کو حکم دیا اس نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا “۔ قرآن کریم نے ان ساری باتوں کو چھوڑ کر صرف اصل حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ ” یونس (علیہ السلام) کو کشتی میں ایسی جگہ بیٹھنے کیلئے میسر آئی کہ مچھلیاں آپ کے پائوں کو چھورہی تھیں چناچہ ارشاد فرمایا ” فلتقم الحوت “ پس مچھلیاں آپ کو چھو رہی تھیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ : ” ما رایت رجلا التقم اذن النبی ﷺ فینحی راسہ “ ابو دائود باب حس الشعرۃ۔ میں نے ایک آدمی جھکایا ہوا تھا “۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ ’ ’ ان رجلا القم عینہ خصاصۃ الباب “۔ اس طرح ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیف القم و قد النقم صاحب القرن (ابو یعلی ، ابن حبان ، ابن خزیمہ ، ابن منذر اور ابن مردویہ وغیرہ) اس سورت یونس میں یونس (علیہ السلام) کا واقعہ مذکور نہیں ہے صرف یونس (علیہ السلام) کے نام کی نسبت کے باعث اس مضمون کو اس جگہ درج کیا گیا ہے مزید وضاحت آیات کریمات کے اصل مقامات پر ہوگی۔ اس جگہ یونس (علیہ السلام) کی قوم کی توبہ اور اس کی قبولیت توبہ کا بیان ہے وہ ابھی اس لہجہ میں کہ ” پھر کیوں ایسا نہ ہوا کہ یونس (علیہ السلام) کی بستی کے سوا کوئی بستی ایسی نہ نکلی کہ ( نزول عذاب سے پہلے) یقین کرلیتی اور ایمان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتی “۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ یہ بات یونس (علیہ السلام) کے نبی و رسول بنائے جانے سے بھی پہلے کی بات ہے کہ یونس (علیہ السلام) نے قوم کو ٹیڑھی راہ چھوڑ کر سیدھی راہ اختیار کرنے کی دعوت دی تھی اور لوگوں کو کہا تھا کہ اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو تم تباہ و برباد کردیئے جائو گے اس کا یہ مطلب کیسے لیا گیا یونس (علیہ السلام) کی ہلاکت کا وقت متعین کر کے اس کا اعلان کردیا تھا کہ قوم نے اس وقت تک ہلاک ہوجانا ہے لیکن وہ وقت نکل گیا اور قوم ہلاک نہ ہوئی لیکن انہوں نے توبہ اختیار کی ۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے بعض مفسرین نے اس کا مطلب بھی صحیح نہ سمجھا جیسا کہ سید مودودی (رح) نے بھی تحریر فرما دیا کہ ” یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ قوم کن خاص وجوہ کی بنا پر خدا کے اس قانون سے مستثنیٰ کی گئی کہ ” عذاب کا فیصلہ ہوجانے کے بعد کسی کا ایمان اس کیلئے نافع نہیں ہوتا “ ۔ اور اس طرح سورة یونس کی آیت 98 کے اس حصہ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ ” پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کیلئے نفع بخش ثابت ہوا ہو ؟ یونس کی قوم کے سوا “۔ ( ترجمان القرآن جلد دوم 321) حالانکہ یہ ترجمہ اور اس کی تفسیر کتاب و سنت کی روشنی میں بالکل ساقط الاعتبار ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ زیر نظر آیت میں کسی جملہ سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قوم یونس (علیہ السلام) پر عذاب آچکا تھا اور جب وہ عذاب میں گھر گئے تو عذاب کے مشاہدہ کے بعد خوف نے ان کو ایمان پر آمادہ کیا اور پھر سنت اللہ کے خلاف صرف یونس (علیہ السلام) کی قوم کے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا کہ ان کے ایمان بالمشاہدہ کو قبول کر کے ان پر سے عذاب ہٹا لیا گیا بلکہ اس آیت میں تو صاف صاف یہ کہا گیا ہے کہ جس طرح یونس (علیہ السلام) کی قوم ایمان لے آئی اس طرح اور بستیوں نے بھی کیوں ایمان قبول نہیں کرلیا تاکہ جس طرح قوم یونس (علیہ السلام) اس وقت عذاب سے محفوظ رہی اسی طرح وہ سب بھی عذاب سے محفوظ رہیں ۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ اس پر ناراضی کا اظہار فرما رہے ہیں کہ ایمان لا کر دوسری بستیوں کے لوگوں نے بھی قوم یونس (علیہ السلام) کی طرح کیوں خود کو عذاب سے نہ بچالیا ۔ لیکن تفسیر بالا یہ ظاہر کرتی ہے کہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ قوم یونس (علیہ السلام) کے سوا جس قوم نے بھی عذاب کا مشاہدہ کر کے ایمان قبول کیا ہم نے اس کے ایمان کو رد کردیا مگر قوم یونس (علیہ السلام) پر مہربانی کی کہ ان کے ایمان بالمشاہدہ کو منظور کرلیا۔ ع ببیس تفاوت رہ از کجا ست تا بکجا ! اور اگر کوئی شخص اس موقع پر یہ سوال کرے کہ اللہ تعالیٰ کو قوم یونس (علیہ السلام) ہی کے ساتھ ایسی کیا خصوصیت تھی اور دوسری قوموں کے ساتھ کیا عداوت کہ جس قسم کا ایمان قوم یونس (علیہ السلام) کا قبول ہوا اس قسم کا دوسری قوموں کا کیوں نہ ہوا ؟ تو نہ معلوم اس تفسیر کے قائلین اس کا کیا جواب دیں گے ؟ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ چونکہ قوم یونس (علیہ السلام) نے عذاب کا مشاہدہ کر کے ایمان قبول کیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے صرف دنیا میں اس کو قبول قرار دیا اور ان پر سے عذاب ہٹا کر دنیا کی زندگی میں مہلت دے دی مگر آخرت کا عذاب بحالہ ان پر قائم رہا حالانکہ یہ قول بھی پہلے کی طرح غلط ہے اور قرآن کریم کے سیاق وسباق کے قطعا ًخلاف ہے کیونکہ ” منعنھم الی حین “ کا یہ مطلب کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ ان کا ایمان صرف دنیوی زندگی تک مفید تھا اور آخرت میں وہ کافر و مشرک ہی شمار ہوں گے ۔ جب کہ سورة یونس میں اللہ تعالیٰ قوم یونس (علیہ السلام) کی منقبت اور گزشتہ اقوام کے ایمان نہ لانے کی مذمت ہی میں اس واقعہ کو بیان کر رہا ہے اور شاہد بنا رہا ہے اور اس جگہ سیاق کلام ہی یہ ہے کہ دوسری قوم کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے تھا جیسا کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم نے کیا ۔ لہٰذا قرآن کریم نے اس شبہ کا جواب پہلے ہی دے دیا تاکہ شبہ کرنے والوں کی نگاہ فورا ًتاریخ کے دوسرے ورق پر پڑجائے وہ یہ کہ یہ درست ہے کہ قوم یونس حضرت (علیہ السلام) کے زمانہ مومن ، عادل اور پاکباز ہوگئی یعنی سچے دل سے توبہ کرلی لیکن ان کی حیات طیبہ کا یہ دور عرصہ تک قائم نہیں رہا اور کچھ ہی عرصہ کے بعد ان میں کفر و شرک اور ظلم و سر کشی کے وہ تمام مواد پھر جمع ہوگئے جس کے لئے یونس (علیہ السلام) معبوث ہوئے تھے اور اس زمانہ کے بنی اسرائیل کے نبی ناحول نے اگرچہ ان کو بہت سمجھایا اور ہدایت و رشد کی راہ دکھائی مگر اس مرتبہ گزشتہ قوموں کی طرح انہوں نے بھی سر کشی اور بغاوت کو زندگی کا نصب العین بنائے رکھا تب وحی الٰہی کی روشنی میں نا حوم (علیہ السلام) نے نینویٰ کی تباہی کی خبر دی اور ان کی پیش گوئی سے تقریباً ستر برس کے اندر آشوری قوم کا تمدن اور ان کا مرکزی شہر سب بابلیوں کے ہاتھوں اس طرح فنا ہوگئے کہ نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔ پس ایک طرف قرآن کریم نے قوم یونس (علیہ السلام) کے ایمان لے آنے کی مدحت کی اور ان کو سراہا تو دوسری طرف یہ بھی اشارہ کردیا کہ جن افراد نے یہ نیکو کاری اختیار کی ان کو ہم نے بھی سرو سامان زندگی سے نفع اٹھانے کا موقع دیا یعنی عذاب سے بچالیا لیکن قوم یونس (علیہ السلام) کی یہ حالت ہمیشہ نہ رہی اور ایک زمانہ آیا کہ انہوں نے پھر ظلم و ستم اور کفر و شرک کو اپنا لیا اور گزشتہ سرکش قوموں کی طرح سمجھانے کے باوجود بھی نہ سمجھی تب اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے ساتھ وہی کیا جو ” سنت اللہ “ کے مطابق ایسی قوموں کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ علمائے اسلام کی تفسیر کے مطابق بھی صحیح بات یہی ہے کہ قوم یونس (علیہ السلام) پر ایک دفعہ عذاب نہیں آیا بلکہ یونس (علیہ السلام) کے قوم سے رنجیدہ خاطر ہو کر چلے جانے کے بعد فوراً ہی ان پر یہ اثر ہوا کہ انہوں نے محسوس کیا کہ کہیں ہم عذاب کی لپیٹ ہی میں نہ آجائیں انہوں نے توبہ کرلی جیسا کہ پیچھے ذکر گزر چکا ادھر ان لوگوں نے توبہ کی اور ادھر یونس (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبی و رسول کے عہدہ پر فائز کر کے ان ہی لوگوں کی طرف مبعوث فرما دیا اس طرح یونس (علیہ السلام) کا زمانہ اپنی قوم کے ساتھ اچھا گزر گیا لنکک یونس (علیہ السلام) کی وفات کے بعد قوم کے پھر وہی طور طریقے شروع ہوگئے ازیں بعد ان کے پاس ناحول نبی مبعوث ہوئے چونکہ وہ رسول نہیں تھے بلکہ نبی ہی تھے اس لئے اس قوم کو یونس (علیہ السلام) کی قوم ہی کہا جاتا رہا ان کی پیش گوئی کے مطابق پھر قوم یونس پر وہ عذاب آیا جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا اور ان کو تہہ وبالا کر کے ان کا نام تک مٹا دیا گیا ۔ بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوگا کہ یونس (علیہ السلام) کا مچھلی کے پیٹ میں جا کر زندہ بچ جانے کے معجزہ سے انکار کیا گیا ہے ۔ خیال رہے کہ کسی انسان کا مچھلی کے پیٹ میں جا کر زندہ نکل آنا نہ بعید از عقیل ہے نہ خرق عادت بلکہ آپ ایسے کتنے ہی لوگوں کی کہانیاں سن چکے ہوں گے اور اب بھی اخبارات و رسائل میں ایسی چیزیں دیکھنے میں آتی رہتی ہیں اصل بات یہ ہے کہ شائقین معجزات کو یہ بھی معلوم نہیں کہ معجزہ کس کو کہتے ہیں ؟ اگر ان کو یہ معلوم ہوتا تو وہ ہر اس بات کو جو ان کو سمجھ میں نہ آئے معجزہ کے نام سے موسوم نہ کرتے حالانکہ علمائے کرام اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ معجزہ کیا ؟ اس کی تعریف کیا ؟ اور اس کی کیا شرائط ہیں ؟ لیکن جب وہ عوام کے سامنے آتے ہیں تو ان چیزوں کو بیان کرنے اور عوام کی تفہیم کرانے کی کبھی کوشش نہیں کرتے بلکہ وہ ہر اس بات کی ترجمانی کرتے ہیں جو پہلے ہی عوام کے ذہن میں موجود ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ محض اس لئے کہ ان کی زندگی کی ساری ضروریات کا انحصار عوام کے ساتھ وابستہ ہے اور ان کو خوش رکھنے اور ان کے ذہنوں کی ترجمانی کرنے ہی سے وہ ضروریات پوری ہو سکتی ہیں ۔ دکاندار کیا فروخت کرے گا ؟ ظاہر ہے کہ وہی چیزیں جن کی عوام کی ضروریات خواہش ہے اور یہ بھی کہ وہ دوسرے دکاندروں سے سستا بیچنے کی کوشش کرے گا اور زیادہ سے زیادہ دام حاصل کرنے کی بھی ۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں آپس میں متضاد ہیں۔ بالکل اس طرح گاہک کا خیال یہ ہوتا ہے کہ مجھے چیز اچھی ملے اور سستی بھی کہ دام کم خرچ ہوں اور یہ دونوں باتیں بھی آپس میں متضاد ہیں اب صاحب فن دکاندار کون ہے ؟ وہی جو سستا بھی بیچے ، دام بھی زیادہ کمائے اور اپنے خریدار کو یہ باور بھی کرائے کہ خریدار نے اچھا بھی خریدا ہے اور سستا بھی ۔ اس کیلئے اس دکاندار کو کیا کچھ کرنا پڑتا ہے پس یہ دکاندار ہی جانتا ہے۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو اس وقت دین کو ایک دکان بنا دیا گیا ہے اور دین کے سارے ٹھیکہ دار اپنی اپنی حیثیت کے مطابق دکاندار ہیں کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے ۔ وہ سب کے سب اپنے مال کی حیثیت کو اچھی طرح جانتے ہیں لیکن وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کی مجبوری ہے۔ اس لئے کہ اس کے سوا کام نہیں چلتا ۔ بالکل اسی طرح علمائے کرام معجزہ کی تعریف جانتے ہیں ؟ معجزہ کس کو کہا جاتا ہے ؟ سب ان کو معلوم ہے لیکن وہ سروردی مول لینا پسند نہیں کرتے اس لئے کہ اس کے سوا کام نہیں چلتا ۔ یونس (علیہ السلام) کے اس عمل کو جو نبوت سے پہلے کا تھا یعنی وہ وحی الٰہی سے نہ تھا بلکہ اپنی تفہیم کے مطابق تھا اور بالکل صحیح تھا اس کو غلطی قرار دے کر اپنی کئی غلطیاں اس میں چھپا دیں اور اس جال کے اندر کس کس نے کیا کیا کچھ چھپایا اس کا بیان بہت لمبا ہے۔ آپ صرف یہ بات یادر کھیں کہ نبی و رسول بھول سکتا ہے اس لئے کہ وہ انسان ہوتا ہے لیکن جان بوجھ کر خطا نہیں کرسکتا ۔ ہاں ! جو کچھ اس سے بھول کر ہوجاتا ہے اس کا اعتراف کرکے اپنی خطا تسلیم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوراً اس کی معافی کا اعلان ہوجاتا ہے۔ آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی اعظم و آخر ﷺ تک ایک ایک نبی کے قصہ کو سمجھ کر پڑھتے جائو اور اس اصول کو سامنے رکھو انشاء اللہ تمہاری آنکھیں روشن ہوجائیں گی۔ رہی یہ بات کہ میں نے یونس (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو جب وہ قوم سے ناراض ہو کر اپنی بستی سے نکلے تھے نبوت سے پہلے کا قرار دیا ہے تو خیال رہے کہ میں نے نہیں قرار دیا ہے بلکہ یہ صدر اول میں صحابہ کرام ؓ ہی میں سے بعض کی تحقیق ہے یا تفہیم ہے بات صرف اتنی ہے کہ میرے دل نے اس کو سچ مان لیا ہے اور وہ بھی محض اس لئے کہ ہجرت جیسا فعل نسیان اور بھول سے نہیں ہوتا بلکہ جان بوجھ کر اور سمجھ سوچ کر ہوتا ہے جو ہر غیر نبی کیلئے ضروری ہے کہ جب اس کے حالات ایسا رخ اختیار کر جائیں تو وہ اس مقام سے ہجرت کر جائے لیکن نبی و رسول چونکہ اللہ سے ہم کلام ہوتا ہے اس لئے وہ اس جان بوجھ کر کرنے والے کام کو ہمیشہ اللہ کی اجازت سے کرتا ہے بغیر اجازت کبھی نہیں کرتا حتیٰ کہ اپنی جان اپنے مالک حقیقی کے سامنے پیش کردیتا ہے اور وہ اس میں اپنے مالک کی رضا سمجھتا ہے۔ چنانچہ ابن جریر ؓ نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ یونس (علیہ السلام) کی بعثت کشت کے سوار ہونے اور مچھلی کے مذکورہ واقعہ سے بعد ہوئی ہے۔ ( ملاحظہ ہو سورة الصافات کی مذکورہ آیت کی تفسیر) مزید تفصیل آپ کو انشاء اللہ عروۃ الوثقیٰ کی مذکورہ آیات کے تحت مل جائے گی وہاں سے ملاحظہ فرمائیں اور یاد رکھیں کہ نبوت و رسالت ساری کی ساری معجزہ تھی اور نبی و رسول کا وجود ہی قوم کیلئے سب سے بڑا معجزہ تھا اور انبیاء کرام سے بہت سے معجزات کا صدور بھی ہوا اور قوم کے مطالبہ پر اللہ کے حکم سے چیلنج اور تحدی کے ساتھ ان معجزات کا اعلان بھی کیا اور دنیا نے دیکھا کہ جو کچھ نبی و رسول کی زبان سے نکلا وہی سچ تھا اور وہ ہو کر رہا اور ساری دنیامل کر بھی اس کو روک نہ سکی ۔ یونس (علیہ السلام) کے زمانہ کا تعین بھی ایک مشکل امر ہے۔ حافظ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ یونس (علیہ السلام) کے زمانہ کا تعین کرتے ہوئے بعض مورخین نے تحریر کیا ہے کہ جب ایران ( فارس) میں طوائف الملوکی کا دور تھا اس وقت نینویٰ میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا ظہور ہوا (فتح الباری جلد 6 ص 350) محققین نے فارس کی حکومت کو تین عہدوں پر تقسیم کیا ہے ایک حملہ سکندر سے پہلے دوسرا پارتھوی حکومت یعنی طوائف الملوکی اور تیسرا ساسانی عہد ۔ پہلا عہد عروج و ارتقاء کا عہد شمار ہوتا ہے اور اس کی ابتدائی تقریباً 559 ق م سے سمجھی گئی ہے جو تقریباً 372 ق م یعنی دو صدی پر جا کر ختم ہوجاتا ہے اور دوسرا عہد 372 ق م سے شروع ہو کر 150 تک پہنچتا ہے اور یہی طوائف الملوکی کا دور کہلاتا ہے اور اس کے بعد ساسانی دور حکومت شروع ہوجاتا ہے ۔ اس تحقیق کے پیش نظر حافظ ابن حجر (رح) کی نقل کے مطابق یونس (علیہ السلام) کا عہد 372 ق م سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت کے درمیان ہونا چاہئے مگر یہ بات تاریخی نقطہ نظر سے غلط ہے اس لئے کہ مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ بابلیوں کے ہاتھوں آشوریوں کا یہ مشہور شہر نینویٰ 612 ق م میں تباہ و برباد ہوچکا تھا اور اہل کتاب کی روایات بھی یہ شہادت دیتی ہیں کہ یونس (علیہ السلام) کے عہد کے بعد 690 ق م میں اہل نینو جی نے دوبارہ کفر و شرک اور ظلم و ستم شروع کردیا اور ان کی سر کشی بہت بڑھ گئی تب ایک اور اسرائیلی نبی نا حوم نے دوبارہ ان کو سمجھایا اور ہدایت و رشد کی دعوت دی اور جب انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی تو نینویٰ کی تباہی کی پیشین گوئی فرمائی اور پھر اس سے ستر برس بعد 612 ق میں نینویٰ تباہ و برباد ہوگیا ۔ اس طرح یونس (علیہ السلام) کا عہد 690 ق م سے بھی کچھ پہلے ہونا چاہئے اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ شاہ عبد القادر (رح) کا قول ہے کہ یونس (علیہ السلام) حزقیل (علیہ السلام) کے معاصر ہیں چناچہ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ ” حزقیل کے یاروں میں تھے یونس (علیہ السلام) “ ( سورة الانبیاء) حزقل (علیہ السلام) کا زمانہ بھی یہی ہوتا ہے اور امام بخاری (رح) نے موسیٰ اور شعیب (علیہم السلام) اور دائود (علیہ السلام) کے درمیان ان کا ذکر کیا ہے اور اس سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے ۔ حقیقت حال اللہ ہی کو معلوم ہے۔ یونس (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے نبی اعظم و آخر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” قال لا یقولن احد کم انی خیر من یونس بنی متی “ ( بخاری کتاب الانبیاء) ” فرمایا تم میں سے کوئی شخص ہرگز یہ نہ کہے کہ میں ( محمد رسول اللہ ﷺ بہتر ہوں یونس بن متی ہے “۔ یہ اور اس طرح کی دوسری روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ نے یہ اس لئے فرمایا تاکہ جو شخص یونس (علیہ السلام) کے واقعات کا مقابلہ کرے اس کے دل میں ان کی ذات اقدس کے متعلق کوئی تنقیص کا پہلو ہرگز پیدا نہ ہو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بر گزیدہ انبیاء و رسل میں سے ایک تھے اور ان کے تذکرہ کا ذکر کرتے وقت یا اس کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ وہ ایک نبی و رسول کا تذکرہ و مطالعہ کر رہا ہے کسی عام آدمی کا یہ ذکر نہیں اور نبی کی زندگی معصوم ہوتی ہے گناہ اس کے قریب بھی نہیں بھٹکتا ۔ یونس (علیہ السلام) کے تذکرہ کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ : 1۔ یونس (علیہ السلام) اللہ کے نبی و رسول تھے جو آشوری قوم کی طرف نبی و رسول بنا کر مبعوث کئے گئے اور یہ کہ آشوری قوم کا تعلق بھی بنی اسرائیل قوم ہی کے ساتھ تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اس نام سے معروف ہوئی۔ 2۔ یونس (علیہ السلام) نبی و رسول بنائے جانے سے پہلے بھی اپنی قوم کو توحید کا درس دیتے تھے اور کفر و شرک کی باتوں سے روکتے تھے اور قوم کے لوگ محض اس وجہ سے آپ کے درپے آزاد تھے اور انجام کار آپ نبوت سے پہلے ہی قوم سے ناراض و خفا ہو کر ترسیس یا کسی دوسرے مقام کی طرف نکل گئے ۔ یونس (علیہ السلام) اپنی بستی سے نکل کر جب دریائے فرات کے کنارہ کے قریب پہنچے تو ایک کشتی پر سوار ہونے کیلئے بھاگ اور دوڑے تاکہ اس پر سوار ہو کر دریا سے پار ہوجائیں۔ 3۔ یونس (علیہ السلام) کے کشتی تک پہنچنے سے قبل ہی پوری کشتی سامان اور لوگوں سے بھر چکی تھی اور آپ جب کشتی پر سوار ہوئے تو آپ کو ایک غیر محفوظ مقام پر بیٹھنے کی جگہ ملی جہاں آپ کے پائوں پانی میں چلے گئے اور مچھلیاں آپ کے پائوں کے چھونے اور بوسے دینے لگیں اور آپ کے دل میں یہ خطرہ گزرا کہ اگر کشتی کو ذرا جھٹکا لگا تو میں سیدھا دریا کے اندر چلا جائوں گا اور جہاں سے قیامت تک نکلنا مشکل ہوگا کیونکہ اس طرح گر کر مچھلیوں اور دریائی جانوروں کی غذا بن کر رہ جائوں گا ۔ 4۔ اس کے ساتھ اللہ نے آپ کی ہمت بندھائی اور اس طرح کے خیال سے آنکھیں بند کر کے توحید الٰہی کا درس دینا شروع کردیا ۔ آپ اللہ کا دین جب بیان کرنے لگے تو لوگوں نے آپ کو کشتی کے اندر ایک محفوظ مقام پر آجانے کی دعوت دی اور آپ کی باتوں کو بڑے غور سے سنا اور آپ کے پیغمبرانہ انداز بیان سے لوگ بہت متاثر ہوئے۔ حتیٰ کہ کشتی بخیریت دریا سے پار چلی گئی۔ 5۔ کشتی سے اگر کر سارے لوگ اپنے اپنے گھروں اور مقاموں کو چلے گئے لیکن آپ اس ساحل پر اتر کر رک گئے اس سے آگے نہیں بڑھے بلکہ دریا کے کنارے کے ساتھ چلنے لگے اس سوچ بچار میں تھے کہ آپ نے ساحل دریا پر ایک جگہ پھل دار بیلیں دیکھیں جس میں آبادی کے کچھ نشانات پائے جاتے تھے۔ ابھی آپ کسی آبادی میں نہیں پہنچے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت و رسالت کیلئے چن لیا اور حکم دیا کہ آپ اپنی قوم کے لوگوں کو جا کر اللہ کے پیغام سنائیں ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دی کہ آپ کی قوم اب سیدھے راہ پر لگ چکی ہے اور آپ کی بات بھی سنے گی۔ 6۔ یونس (علیہ السلام) کے چلے جانے کے بعد قوم کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ یونس (علیہ السلام) کا یہاں سے نکل جانا ہی گویا عذاب کی دعوت ہے لہٰذا انہوں نے من حیث القوم اجتماعی توبہ کی اور پوری قوم کی قوم اللہ تعالیٰ کے ہاں گڑ گڑا کر رہ گئی چونکہ عذاب الٰہی کا اعلان نہیں ہوا تھا اور قوم نے تو بہ کا راستہ اختیار کرلیا تو قوم کی اس توبہ کو منظور فرما کر اللہ نے ایک وقت تک ان کو موقع فراہم کردیا۔ 7۔ یونس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا پیغام سنانے کیلئے اپنی بستی میں چلے گئے اور وحی الٰہی کے مطابق اللہ تعالیٰ کے پیغامات ان کو سنانے لگے۔ آپ کی وفات اس بستی میں ہوئی اور آپ کی وفات کے بعد قوم آہستہ آہستہ دوبارہ کفر و شرک کی طرف مائل ہونے لگی اور ازیں نا حوم (علیہ السلام) کو نبی بنا کر یونس (علیہ السلام) کی دعوت کو جاری وساری رکھا گیا لیکن قوم نے ناحوم (علیہ السلام) کی سخت مخالفت کی ، انجام کار بابلیوں کے ہاتھوں اس قوم کو تباہ و برباد کرا دیا گیا اور صفحہ ہستی سے ان کا اور ان کے شہر نینویٰ کا نام و نشان ہی تقریباً مٹ گیا ۔ 8۔ یونس (علیہ السلام) کے واقع کو بعض مفسرین نے تورات کے بیان کے مطابق بنانے کیلئے قرآن کریم کی آیات کریمات کی تفیر میں تورات کے بیانات کو درج کردیا جو آہستہ آہستہ زبان زد خاص و عام ہوگئے حالانکہ قرآن کریم میں ان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ 9۔ یونس (علیہ السلام) کے انہی واقعات کے پیش نظر جو لوگوں نے بیان کئے تھے مرزا قادیانی نے فائدہ اٹھایا اور اپنی اختراعی اور بناوٹی پیش گوئیوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کی اور صورتحال کو اس نے خوب بگاڑا ۔ بعض علمائے کرام نے یونس (علیہ السلام) پر اجتہادی غلطی کا الزام لگایا جو کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔ 10۔ ابن جریر ؓ نے عبد اللہ بن عباس ؓ کی سند سے یہ بیان کیا کہ یونس (علیہ السلام) کا اپنی بستی کو چھوڑ جانا نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے بعد از نبوت کا نہیں اور اس طرح کشتی میں سوار ہونا اور ایسے نازک موقع پر توحید کا درس دینا نبوت سے پیشتر کا واقعہ ہے اور یہی بات صحیح ہے۔ 11۔ یونس (علیہ السلام) کو ” ذوالنون “ اور ” صاحب الحوت “ جو کہا گیا ہے تو یہ آپ کا لقب مشہور تھا اور اس لقب سے آپ یاد کئے جاتے تھے لہٰذا قرآن کریم نے بھی آپ کے ان القاب سے آپ کا ذکر کیا۔ 12۔ نبی کریم ﷺ نے یونس بن متی سے اپنے آپ کو افضل بیان کرنے سے جو منع فرمایا تو اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کے متعلق لوگوں کی غلط فہمی دور ہوجائے اور ایک نبی و رسول کے واقعہ کو عام لوگوں کے واقعہ کی طرح نہ بیان کیا جائے ۔ وغیرہ وغیرہ۔
Top