Urwatul-Wusqaa - Yunus : 99
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًا١ؕ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَاٰمَنَ : البتہ ایمان لے آتے مَنْ : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں كُلُّھُمْ جَمِيْعًا : وہ سب کے سب اَفَاَنْتَ : پس کیا تو تُكْرِهُ : مجبور کریگا النَّاسَ : لوگ حَتّٰى : یہانتک کہ يَكُوْنُوْا : وہ ہوجائیں مُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور اگر تیرا پروردگار چاہتا تو جتنے آدمی روئے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے کیا تو ان پر جبر کرے گا کہ جب تک وہ ایمان نہ لائیں میں چھوڑنے والا نہیں ؟
اگر تیرا رب چاہتا تو روئے زمین کے سارے لوگ ایمان پر مجبور کردیئے جاتے 135 ؎ قرآن کریم نے جا بجا یہ حقیقت واضح کی ہے کہ انسانی طبیعت و استعداد کا اختلاف فطری ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی ہوئی کہ یہ اختلاف ظہور میں آئے اگر وہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک طرح طبیعت ، ایک ہی طرح کی استعداد ، ایک طرح کی فکری و عملی حالت پر مجبور کردیتا مگر اس نے ایسا نہیں چاہا ۔ اس کی حکمت کا یہی فیصلہ ہوا کہ انسان میں ہر طرح کی حالت پیدا کرنے کی استعداد ہو اور ہر طرح کی راہ اس کے آگے کھول دی جائے وہ اگر اونچا ہونا چاہے تو زیادہ سے زیادہ اونچا ہو سکے ، پست ہونا چاہے تو زیادہ سے زیادہ پستی میں گر سکے۔ اس تنوع و استعداد کا نتیجہ ہے کہ فکر و عمل کے ہر گوشے میں مختلف حالتیں پیدا ہوگئیں ۔ ایک فرد جماعت کا ذوق ایک طرح کا ہوا دوسرے کا دوسری طرح کا ۔ ایک کی سمجھ ایک طرف گئی دوسرے کی دوسری طرف ایک نے ایک راہ پسند کی ، کہ حق ہے دوسرے نے اس سے انکار کیا کہ حق نہیں ! اور پھر اس اختلاف فکر و عمل نے ہدایت وسعادت اور ضلالت و شقاوت کی وہ کشمکش پیدا کردی جسے قرآن کریم ” آزمائش حیات “ سے تعبیر کرتا ہے کہ ” لیبلو کم ایکم احسن عملاً “ ( الملک 67 : 2) وہ تمہیں کشمکش حیات میں ڈالتا ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ تم میں کون ہے جس کے اعمال سب سے زیادہ بہتر ہوتے ہیں کیونکہ اس کشمکش میں کامیاب وہی ہوگا جو اپنے عمل میں احسن و انفع ہوگا ۔ زیر نظر آیت میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے پھر غور کرو کہ کتنے مختصر لفظوں میں کتنی عظیم الشان بات کہ دی ہے ؟ فرمایا فکر و استعداد کا اختلاف یہاں نا گزیر ہے اور ایمان کوئی ایسی چیز نہیں کہ زور و زبردستی سے کسی کے اندر ٹھونس دیا جائے۔ یہ تو اس کے اندر پیدا ہوگا جس میں فہم و قبول کی استعداد ہے پھر اگر تم پر یہ بات شاق گزر رہی ہے کہ کیوں لوگ مان نہیں لیتے تو کیا تم لوگوں پر جبر کرو گے کہ نہیں تمہیں ضرور مان ہی لینا چاہئے ؟ اس آیت سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ قرآن کریم کے نزدیک دین و ایمان کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں جبر واکراہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جبر واکراہ کی صورت کا ذکر ایک ان ہونی اور نا کردنی بات کی طرح کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم کا مقررہ قانون ہے کہ لا اکرہ فی الدین ( سورة البقرہ 2 : 256) ” کیا تو ان پر جبر کرے گا کہ جب تک وہ ایمان نہ لائیں میں چھوڑنے والا نہیں “ ۔ آیت کے اس حصہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ لوگوں کو زبردستی مومن بنانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا کرنے سے روک رہا تھا۔ دراصل اس فقرے میں وہی اندز بیان اختیار کیا گیا ہے جو قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر ہمیں ملتا ہے اور ابھی پیچھے 94 میں بھی گزرا ہے کہ خطاب بظاہر تو نبی کریم ﷺ سے ہوتا ہے مگر اصل میں لوگوں کو وہ بات سنانی مقصود ہوتی ہے جو نبی کو خطاب کر کے فرمائی جاتی ہے یہاں جو کچھ کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ لوگ ! حجت اور دلیل سے ہدایت و ضلالت کا فرق کھول کر رکھ دینے اور راہ راست صاف صاف دکھا دینے کا جو حق تھا وہ تو ہمارے نبی ﷺ نے پورا پورا ادا کردیا اب اگر تم خود راست رد بننا نہیں چاہتے اور تمہارا سیدھی راہ پر آناصرف اس پر مو وف ہے کہ کوئی تمہیں زبردست راہ راست پر لائے تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا ۔ ایسا جبری ایمان اگر اللہ کو منظور ہوتا تو اس کیلئے اسے نبی بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ یہ کام تو وہ خود جب چاہتا کرسکتا تھا۔
Top