ہرگز نہیں ، کاش کہ تم یقینی علم رکھتے ہوتے
5 ؎ فطرت انسانی ہے کہ بات جتنی اہم ہوتی ہے انسان کو اس کو اتنے ہی اہم طریقہ سے کرتا ہے اور پھر جب کرلیتا ہے تو پھر تاکید پر تاکید کیے جاتا ہے۔ اشاروں اور استعاروں میں تاکہ جس کے ساتھ بات کی گئی ہے وہ اس کے اشارہ ، استعارہ اور رمز کو سمجھے اور دوسروں کو اس میں کچھ بھی حاصل نہ ہوتا تاکہ راز بھی قائم رہے اور بات بھی جاری ہے اور تاکید در تاکید بھی ہوتی رہے۔ قرآن کریم چونکہ انسانوں ہی کی زبان میں نازل کیا گیا ہے اس لیے اس نے وہی پیرا یہ بیان اختیار کیا ہے اور یہی صورت اس جگہ پیش آرہی ہے۔ بات کی ہے اور بات پر اس کی تاکید انداز بدل کر کی جا رہی ہے اور پھر اشارہ اور استعارہ میں بات کو بار بار کیا جا رہا ہے گویا بات ہوتی نظر بھی نہیں آتی اور بات بھی بار بار دہرائی جا رہی ہے تاکہ اگر کسی کا بھلا ہو سکتا ہے تو ضرور ہوجائے۔ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تم کو اس بات کا یقینی علم ہوتا تو تم فانی لذتوں ، ناپائیدار عزتوں اور فانی دولت و ثروت کے لیے اپنے قیمتی اوقات کا خزانہ اس بےدردی سے کیوں لٹاتے ؟ اسوقت تو تمہارا ہر سانس ، ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ، ابدی نعمتوں اور لا فانی راحتوں کے حصول کے لیے وقف رہتا ۔ ( علم) علم ، دانش ، جانتا یہ علم یعلم کا مصدر ہے اور علم کہتے ہیں ۔ یقین چناچہ علم یعلم کا استعمال کسی بات کو قین کرنے کے لیے ہوا کرتا ہے نیز علم کے معنی معرفت کے اور معرفت کے معنی علم کے بھی آیا کرتے ہیں چونکہ علم اور معرفت دونوں مسبوق بالجہل ہونے میں باہم شریک ہیں اس لیے ان میں سے ہر ایک دوسرے کے معنی پر متضمن ہے اور علم کا حصول اگرچہ کسب کی بنا پر ہوتا ہے مگر یہ کسب جہالت کے بعد بھی ہوتا ہے۔ چناچہ قرآن کریم میں ( مما عرفوا من الحق) (5 : 83) ” اس وجہ سے کہ انہوں نے حق بات کو یقین کرلیا “ سے مراد یہی ہے ۔ یعنی ایسا علم جو ایک یقینی بات کا ہوتا ہے۔ اگر ایسی بات ہوتی تو انسان سے آخر بد اعتدالیاں ہی کیوں ہوتیں ۔ ایک آدمی جب کوئی کام کرنے لگتا ہے تو اپنے چاروں کی طرف دیکھتا ہے کہ کوئی ادھر ادھر سے دیکھ تو نہیں رہا پھر جب اس کو تین چار سال کا بچہ قریب کونے میں کھڑا دیکھ رہا ہوتا ہے تو وہ اس کام کے کرنے سے باز رہتا ہے اور اگر وہ بچہ وہاں نہ ہو تو اس کام کو کرجاتا ہے کیا اس شخص کو اس عمل کی سزا ماننے پر یقین ہے ، کیا اس شخص نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر اپنے سارے یقین کی کلی خود نہیں کھول دی اور کیا اس نے تین چار سال کے بچے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی حیثیت کو سمجھا ہے ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر آپ اس کو ( علم الیقین) کی بجائے صرف علم کے نام سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ؟ اس لیے زیر نظر آیت میں ( علم الیقین) یعنی مکمل یقین رکھنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ اللہ کرے کہ ہم مسلمانوں کو اس پر یقین آجائے۔