تم اس حرص دنیا کو دوزخ کی صورت میں دیکھ لو گے
6 ؎ گزشتہ آیت میں ( علم الیقین) کی بات کی جا رہی تھی جس کے متعلق ہر ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ علم کے ذریعہ تو میں نے یقین حاصل کرلیا ہے۔ اب فرمایا جا رہا ہے کہ یہ بات کہ علم کے ذریعہ یقین حاصل کرلیا ہے کیسے درست تسلیم کی جاسکتی ہے جب کہ وہ مطلوب حاصل نہیں ہو رہا جو علم کے ذریعہ دوزخ کے یقینی ہونے کو حاصل ہے اور جب تک مطلوب حاصل نہ ہو حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہی سمجھا جائے گا کہ ابھی تو دال میں کچھ کالا ہے خواہ وہ شک و شبہ ہے جو زائل نہیں ہوا مثلاً آپ یوں سمجھ لیں کہ آپ کو پیاس لگی ہے ، پیاس کا ازالہ کیا ہے ؟ یہی کہ پانی پیا جائے کیوں پیا جائے ؟ اس لیے کہ پیاس باقی نہ رہے لیکن اگر کوئی شخص پیئے اور اپنی طرف سے سرس ہو کر پیئے لیکن پیاس مزید بڑھ جائے تو پھر یہی ہوگا کہ چونکہ مطلوب حاصل ہیں ہو لہٰذا اس بات کی تلاش کی جائے گی کہ وہ کیوں حاصل نہیں ہوا ؟ صرف پانی پی کر اس کی طرف سے غفلت نہیں برتی جائے گی اور جب تک مطلوب حاصل نہیں ہوگا اس کا پیچھا نہیں چھوڑا جائے گا ۔ دوزخ کے متعلق علم یقین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی برائیوں سے باز آجائے کیونکہ دوزخ برائیوں کا مآل ہے لیکن اگر کوئی شخص برائیوں سے باز بھی نہ آئے اور دوزخ کے متعلق علم یقین ہونے کا دعویٰ بھی کرے تو اس کی بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یقین حاصل کرنے کے لیے اس کا برائیوں سے باز آنا لازم ہے۔ یہی بات اس جگہ سمجھائی جا رہی ہے کہ اگر اس طرح علم یقین حاصل نہیں ہو رہا تو پھر یقینی ہے کہ تم حقیقت میں دوزخ کو دیکھ لو اور وہ اس وقت ہوگا جب تم کو اٹھا کر اس میں پھینک دیا جائے گا اور اگر صورت حال یہی رہی تو وہ وقت بھی یقینا آئے گا اور تم دوزخ کو اس طرح دیکھ لو گے کہ اب تم کو یقین آجائے گا ۔ اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یقین نہ آئے کیونکہ گولی لگ جانے کے بعد گولی لگنے میں کبھی شک و شبہ نہیں ہو سکتا کہ گولی لگی ہے یا نہیں ؟ کیونکہ اب اس کو علم الیقین حاصل ہوگیا ہے جو گولی لگنے تک محدود ہے۔