Tafseer-e-Mazhari - Al-Humaza : 78
فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب رَاَ : اس نے دیکھا الشَّمْسَ : سورج بَازِغَةً : جگمگاتا ہوا قَالَ : بولے هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب هٰذَآ : یہ اَكْبَرُ : سب سے بڑا فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَتْ : وہ غائب ہوگیا قَالَ : کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار مِّمَّا : اس سے جو تُشْرِكُوْنَ : تم شرک کرتے ہو
پھر جب سورج کو دیکھا کہ جگمگا رہا ہے تو کہنے لگے میرا پروردگار یہ ہے یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہنے لگے لوگو! جن چیزوں کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں
فلما را الشمس بازغۃ قال ہذا ربی ہذا اکبر پھر جب سورج کو دمکتا دیکھا تو اس نے کہا یہ میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے (یعنی تمام ستاروں سے بڑا ہے) شمس عربی زبان میں مؤنث ہے اور ہذا (اسم اشارہ مذکر) ہے اشارہ سورج کی طرف ہے کیونکہ ہذا کی خبر یعنی رب مذکر ہے (اور جو اسم اشارہ مشار الیہ اور خبر کے درمیان واقع ہوتا ہے اس میں مشار الیہ کی تذکیر تانیث قابل لحاظ نہیں ہوتی خبر کا مذکر مونث ہونا ملحوظ رہتا ہے) بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ ہذا سے اشارہ نکلنے والے (یعنی طالع) کی طرف سے یا معنی کی طرف ہے یعنی چمک اور نور۔ میں کہتا ہوں کہ لفظ شمس کی تانیث صرف سماعی ہے کیونکہ اس کی تصغیر شمیستہ آتی ہے (اور تصغیر میں اصلی حروف ظاہر کردیئے جاتے ہیں) اور حضرت ابراہیم کی زبان عربی نہیں تھی ان کی زبان میں سورج مذکر تھا اپنی زبان کے اعتبار سے انہوں نے اشارہ بصیغہ مذکر ذکر کیا ہوگا اور اللہ نے انہی کے زبان کے استعمال کا لحاظ کر کے اشارہ کو عربی زبان میں ذکر کردیا۔ حضرت ابراہیم نے ہذا اکبر استدلال کے اعتبار سے اور مشرکوں کے شبہ کو ظاہر کرنے کی غرض سے فرمایا (یعنی مشرکوں کو غیر اللہ کی ربوبیت کا شبہ سورج کو دیکھ کر زیادہ ہوسکتا ہے) فلما افلت قال یقوم انی بری مما تشرکون پھر جب وہ ڈوب گیا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم والو ! تم جن چیزوں کو (معبود برحق کا عبادت میں) شریک بناتے ہو میں ان سب سے بیزار ہوں۔ ستارے اور چاند سورج اجرام علوی ہیں بڑے بڑے ہیں روشن ہیں مگر الوہیت کے قابل نہیں۔ محل حوادث ہیں خود حادث ہیں ان کے احوال حادث ہیں پیدا کرنے والے کے محتاج ہیں اور ایسی ذات کے ضرورت مند ہیں جس نے ان کو یہ مخصوص احوال عطا فرمائے ہیں ان کے مقابلہ میں بت اور دوسرے سفلی اجسام بہت حقیر ہیں اور ناقابل عبادت ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی لئے اجرام علویہ کے حالات کو دیکھ کر تمام علوی اور سفلی اجرام کی الوہیت سے بیزاری کا اظہار کردیا جب علوی اجرام قابل الوہیت نہیں تو سفلی اجسام کیسے معبود ہوسکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے استدلال کیا پھر قوم کو خطاب کر کے غیر اللہ کی الوہیت سے بیزاری کا اظہار کیا اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مسئلہ توحید کی تحقیق پہلے ہوچکی تھی یہ کلام بول کر فقط مشرکوں کو لاجواب بنانا مقصود تھا۔ باطل معبودوں سے اظہار براءت کرنے کے بعد آئندہ کلام میں آپ نے قوم کو الٰہ حق کی ہستی کی طرف رہنمائی کی جس کے وجود پر تمام ممکنات دلالت کر رہے ہیں چناچہ فرمایا۔
Top