جو مال کو جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے
2 ؎ گزشتہ آیت میں دو صفات جن لوگوں کی گنائی گئی ہیں ان کے متعلق مزید فرمایا جا رہا ہے کہ یہ عادات و خصائل ان لوگوں کے ہیں جو بہت مالدار ہیں اور مال و دولت کے جمع کرنے کے عادی مجرم ہیں کہ پیسہ خرچ ہو تو ان کی جان ہوتی ہے اور مال و دولت کی جمع کرنے کے لیے وہ سارے جتن کرتے ہیں اور جب مال جمع ہوگا تو اب گویا وہ بڑے لوگ بن گئے اور پھر کوئی سمجھے یا نہ سمجھے بہر حال وہ خود تو اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھنے لگتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بنظر حقارت دیکھتے ہیں لیکن دولت مند ہونے کے باوجود بڑے کنجوس مکھی چوس ہیں کہ مال و دولت کو گن گن کر بڑی احتیاط سے اسے سنبھال کر رکھتے ہیں۔ ایک درہم بھی خرچ کرنے کی ان کو ہمت نہیں ہوتی حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ مال دے تو انسان اس کے ساتھ نیکی کما سکتا ہے لیکن نیکی نام کی کوئی شے ان کے نزدیک ہی کب ہے ؟ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مال کی محبت انسان کو ہو تو وہ اس حد تک ہو کہ انسان اس کے باعث اپنی اور دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرے لیکن جو خود اپنی ذات کے لیے خرچ نہیں کرسکتا وہ دوسروں کے لیے کیا خاک خرچ کرے گا ؟