Urwatul-Wusqaa - Al-Humaza : 3
یَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخْلَدَهٗۚ
يَحْسَبُ : وہ گمان کرتا ہے اَنَّ : کہ مَالَهٗٓ : اس کا مال اَخْلَدَهٗ : اسے ہمیشہ رکھے گا
وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس (کے نام) کو باقی رکھے گا
وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس کے نام کو باقی رکھے گا 3 ؎ انسانی خواہشات میں سے یہ خواہش بھی سر فہرست ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ میرا نام باقی رہے اس کے لیے وہ اولاد کی خواہش رکھتا ہے اور اولاد کے بعد مال کی خواہش رکھتا ہے تو اس کا مدعا بھی یہ ہے لیکن اگر انسان غور کرے تو گزشتہ لوگوں کے حالات پڑھنے اور سننے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ تو کوئی شخص اولاد کے باعث اپنا نام زندہ رکھ سکا اور نہ مال و دولت کے بل بوتے پر کوئی شخص اپنے نام کو سدا زندہ رکھ سکا پھر یہ مقصد بھی تو اس کا اسی طرح پورا ہو سکتا تھا کہ وہ مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ، اپنی ذات پر بھی خرچ کرتا اور دوسروں کی ضرورتوں کے لیے بھی خرچ کرتا لیکن جب وہ بوجہ بخل مال کو خرچ کرنا جانتا ہی نہیں وہ تو لے لے آ اور دھر دھرجا کو سمجھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص محض اپنی حماقت سے سمجھتا ہے کہ محض روپیہ اسے ہمیشہ رکھے گا کیونکہ آخر اس کو مرنا ہے اور اس مال کو اس نے اس دنیا میں چھوڑ کر چلے جانا ہے تو ضرور تھا کہ وہ اپنے لیے بھی خرچ کرتا اور اللہ کی راہ میں اس کی مخلوق کی ہمدردی میں بھی مال کو خرچ کرتا کیونکہ یہی طریقہ ہے جس سے دنیا میں بھی انسان کے سر پر بقائے دوام کا تاج رکھا جاتا ہے اور آخرت میں بھی ابدی جتنی زندگی نصیب ہوتی ہے اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مال اگر کسی صورت میں نفع دے سکتا ہے تو اس کے لیے صرف اور صرف یہ صورت ہے کہ مال کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے وہ اپنی ضرورتوں اور مخلوق کی دوسری ضرورتوں پر خرچ کیا جائے اس میں جس قدر بھی علو اور ہمیشگی انسان کو مال کے ذریعہ سے حاصل ہے یا ہو سکتی ہے وہ اسی مال کے برمحل خرچ کرنے میں مضمر ہے نہ کہ مال کو باقی رکھنے میں خواہ دنیا کے لیے ہو یا آخرت کے لیے لیکن جو شخص مال کو خرچ ہی نہیں کرتا اور دن رات اس کی بڑھوتری کی فکری میں غلطاں و پیچاں ہے تو سوائے اس کے کیا سمجھا جائے گا کہ وہ سمجھتا ہے نہ میں مروں گا اور نہ یہ مال مجھ سے جدا ہوگا اور یہ سونے چاندی کے ٹکڑے ہی میری زندگی اور ہمیشگی کا موجب ہیں ۔ تو اس نے جو سمجھا غلط سمجھا اور بالکل فضول سمجھا اور یہی بات قرآن کریم کی آیت کہہ رہی ہے۔
Top