Urwatul-Wusqaa - Hud : 102
وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌ١ؕ اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ
وَ : اور كَذٰلِكَ : ایسی ہی اَخْذُ : پکڑ رَبِّكَ : تیرا رب اِذَآ اَخَذَ : جب اس نے پکڑا (پکڑتا ہے) الْقُرٰي : بستیاں وَهِىَ : اور وہ ظَالِمَةٌ : ظلم کرتے ہوں اِنَّ : بیشک اَخْذَهٗٓ : اس کی پکڑ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ : دردناک سخت
اور تیرے پروردگار کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ انسانی آبادیوں کو ظلم کرتے ہوئے پکڑتا ہے یقینا اس کی پکڑ بڑی ہی دردناک ، بڑی ہی سخت ہے
اے پیغمبر اسلام ان کو بتا دو کہ تمہارے پروردگار کی پکڑ اس طرح ہوتی ہے ۔ 128 اس میں پیغمبر اسلام ﷺ کی امت کے لئے تعلیم کا بندوبست کیا گیا ہے یعنی ان واقعات کے بیان کرنے کا مقصد وحید تو صرف یہ ہے کہ گمراہ لوگ اپنی اصلاح کریں لیکن ایسا نہیں ہوتا ، کیوں ؟ اس لئے کہ جو عیش و عشرت میں کھوئے ہوتے ہیں وہ ان باتوں کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ ان کے لئے یہ اجڑے ہوئے دیار اور کھنڈرات تفریح کا سامان ہوتے ہیں۔ ان کے استاد انہیں یہ بتاتے ہیں کہ ان بربادیوں کا تعلق سرکشیوں سے نہیں تھا بلکہ طبعی اسباب کے باعث تھا حالانکہ ان کے لئے بہتر ہوتا کہ وہ یوں ارشاد فرماتے کہ یہ سارے طبعی اسباب ان کی ہلاکت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اکٹھے کر رکھے تھے اگر وہ اس طرح کی سرکشیاں نہ کرتے تو یقینا یہ طبعی اسباب بھی قطعاً پیدا نہ ہوتے جس طرح اگر کوئی شخص آسمان پر تھوکنے والا آسمان پر نہ تھوکتا تو یقینا وہ تھوک اس کے منہ پر نہ پڑتا اگر تھوک اس کے منہ پر پڑا تو کیوں ؟ محض اس لئے کہ اس نے آسمان پر تھوکا بلاشبہ وہ طبعی اسباب ہیت ہے جس کو ” زلزلہ “ یا ” صیحہ “ سے تعبیر کیا گیا اور وہ زلزلہ ہی تھا جس سے ان آباد بستیوں کی فلک بوس عمارتیں پیوند خاک ہوگئی ، بارشیں کثرت سے ہوئیں ، دریائوں میں طغیانی آئی جس نے ان تمام آباد علاقوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ بادل آئے جس طرح آتے ہی رہتے ہیں ، بجلی کڑکی جیسا کہ عموماً کڑکتی ہی رہتی ہے لیکن یہ طغیانی ، یہ بجلی کا کڑکا ، یہ بارش کا تسلسل کے ساتھ برستے رہنا سب احکام الٰہی تھے جو ان بدکرداروں ، بد اخلاقوں ، بد اندیشوں ، بد عملوں اور بد عقیدوں کے لئے اپنے اپنے وقت پر نافذ ہوتے رہے ۔ بات ایک ہی ہے لیکن ایک مسلم روح اس سے جو نتیجہ اخذ کرسکتی ہے ایک ناقدرو ناشکر اس سے و سبق حاصل نہیں کرسکتی۔ بلاشبہ بات ایک ہی ہے لیکن بات کرنے کے انداز میں بہت بڑا فرق ہے۔ کلمہ وہی تھا جو فرعون نے مرتے وقت پڑھا اور زور دار الفاظ سے پڑھا لیکن جب کلمہ پڑھنے کا وقت تھا اس وقت وہ یہ کلمہ پڑھنے کے لئے تیار نہ ہوا اور جب وقت نکل گیا تو اب اس کے کلمہ کی کیا قیمت باقی رہ گئی ؟ کاش کہ قوم مسلم کے راہنما ایک دوسرے پر چوٹیں کرنے کی بجائے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے تاکہ ان کا بھی بھلا ہوتا اور ان کی اس سادہ لوح قوم مسلم کا بھی۔ فرمایا اے پیغمبر اسلام ! تیرے رب کی پکڑ بھی بڑی ہی سخت ہے کیونکہ آج تک جب سے دنیا قائم ہوئی اور جب تک قائم رہے گی کوئی شخص ایسا پیدا نہ ہوا جو اللہ کی پکڑ سے بچا سکے اور جب اللہ نے کسی فرد یا قوم کو پکڑا تو اس کو چھڑانے اولا کوئی نہ ہوا اور نہ ہی ہو سکتا تھا کیونہ اللہ نے آج تک کسی فراد یا قوم کو ظلم یا غلطی کے ساتھ نہیں پکڑا بلکہ جب بھی پکڑا تو وہ وہی فرد یا قوم تھی جس کا ظلم حد سے بڑھ گیا۔ اللہ تعالیٰ اپنے قانون مشیت کے مطابق اور قانون امہال کے باعث ان سے درگزر کرتا رہا تا آنکہ وہ متعین وقت آپہنچا جو ان کی پکڑ کے لئے طبعی طور پر مقرر کردیا گیا تھا اور یہ بھی کہ جس کو پکڑا اس کو بغیر بتائے نہیں پکڑا بلکہ ان کو پکڑ لینے کا چیلنج دیا ، وقت متعین کیا اور مقرر کردیا گیا تھا اور یہ بھی کہ جس کو پکڑا اس کو بغیر بتائے نہیں پکڑا بلکہ ان کو پکڑ لینے کا چیلنج دیا ، وقت متعین کیا اور پھر متعین وقت کا اعلان کیا اور پھر جب پکڑ لیا تو نرمی کے ساتھ نہیں بلکہ پوری سختی کے ساتھ پکڑا کیونکہ اس کی پکڑ بہت ہی درد ناک اور بہت ہی سخت ہوتی ہے۔
Top