Urwatul-Wusqaa - Hud : 111
وَ اِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّهُمْ رَبُّكَ اَعْمَالَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
وَاِنَّ : اور بیشک كُلًّا : سب لَّمَّا : جب لَيُوَفِّيَنَّهُمْ : انہیں پورا بدلہ دیگا رَبُّكَ : تیرا رب اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا يَعْمَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں خَبِيْرٌ : باخبر
اور سب کے لیے یہی ہونا ہے کہ جب وقت آئے گا تو تیرا پروردگار ان کے اعمال انہیں پورے پورے دے گا جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں وہ پوری خبر رکھنے والا ہے
تیرا رب ان کے اعمال کا بدلہ پورا پورا دے گا کہ وہ اچھی طرح خبردار ہے ۔ 138 اللہ تعالیٰ کے ہاں قانون امہال کے باعث ڈھیل دینا مشیت الٰہی میں طے ہے اس لئے جن لوگوں کو ڈھیل دی گئی اور ایک مدت کے بعد ان کا فیصلہ ہوا اور وہ اپنے انجام کو پہنچے یا اس وقت جن کو اس قانون امہال کے تحت ڈھیل دی جا رہی ہے کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں اللہ کے ہاں سب کا جمع ہونا یقینی امر ہے اور سب کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جانا بھی رب ذوالجلال والا کرام پر لازم و ضروری ہے کیونکہ اس نے خود بغیر کسی کے کہے اس بات کا وعدہ فرمایا ہے اور وعدئہ الٰہی کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ اس لئے فرمایا گیا کہ ” سب کے لئے یہی ہونا ہے کہ جب وقت آئے گا تو تیرا پروردگار ان کا عمل انہیں پورے پورے دے دے گا ، جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں وہ اس کی پوری خبر رکھنے الا ہے۔ “ زیر نظر آیت میں ” کلا “ میں تنوین مضاف الیہ کے قائم مقام ہے یعنی سب اختلاف کرنے والے خواہ وہ مومن ہوں یا کافر ” لما “ کا استعمال بھی کلام عرب میں کئی طرح پر ہے ” حین “ یعنی وقت کے معنی میں جیسے ارشاد الٰہی ہے کہ ولما وردمآء مدین (القصص 23:28) اور فلما بلغ معہ السعی (الصفت 37 : 102) اور کم جازمہ کے عنی میں یعنی صرف نف کے لئے۔ جیسا فرمایا بل لما یذوقوا عذاب (ص 38 : 8) اور اس طرح ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم (التوبہ 16:9) اور الا کے معنی میں جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے وان کل نفس لما علیھا حافظ (الطارق 4:86) مطلب یہ ہے کہ کوئی نفس نہیں مگر اس پر حافظ ہے لما مگر یعنی الا اور اس طرح ارشاد فرمایا وان کل لما جمیع لدینا محضرون (یس 32:36) اور پھر یہ کہ یہ لفظ لم اور ما سے مرکب ہے جیسا کہ الا مرکب ہے ” ان “ اور ” لا “ سے گویا یہ دو نفسیوں کا اجتماع ہے جو دونوں مل کر اور ایک لفظ ہو کر نفی کی حد سے نکل گئے۔ مختصر یہ کہ قراء نے اس کے پڑھنے یعنی تلفظ کرنے میں اور اہل لغت نے اس کے معنی بیان کرنے میں اور اس کو مختلف تراکیب سے مرکب کرنے اور معنی بیان کرنے میں بہت کچھ بیان کیا ہے ان ہی نظائر میں سے چند باتیں ہم نے عرض کردی ہیں ورنہ معنی کے اعتبار سے بات بالکل صاف ہے اس میں کوئی گنجلک نہیں اور رسم خط اور اعراب کی حالت یہی درست ہے جو زیر تلاوت ہے زیادہ گہرائیوں میں جانے کے لئے منطبقوں اور نحویوں سے استفادہ کریں۔ مفہوم بیان کرنے کے لئے ان ٹامک ٹوئیوں میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
Top