Urwatul-Wusqaa - Hud : 118
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَجَعَلَ : تو کردیتا النَّاسَ : لوگ (جمع) اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک وَّ : اور لَا يَزَالُوْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے مُخْتَلِفِيْنَ : اختلاف کرتے ہوئے
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک امت بنا دیتا اور لوگ ایسے ہی رہیں گے کہ مختلف ہوں
اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک قوم بنا دیتا لیکن ان کی مشیت کا فیصلہ یہ ہوا کہ لوگ مختلف ہوں ۔ 147 انسان کی جو خلقت رکھی گئی ہے اس کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ اہل حق کے مقابلہ میں کچھ ضلال بھی برابر پیدا ہوتے رہیں اور جس طرح صفت رحم و کرم کے مظہر اہل حق و اہل جنت ہیں اسی طرح صفت غضب کے مورد اہل باطل و اہل جہنم ہوتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ اگر چاہتا تو طبیعت بشری ایسی بناتا کہ اس میں خلاف و نزاع کا مادہ ہی نہ ہوتا اور کسی ایک حالت معیشت پر مجبور کردیا جاتا لیکن اس کی حکمت کا فیصلہ یہی ہوا کہ انسان کو مجبور و مضطرنہ بنائے اور ہر راہ میں چلنے کی قدرت دے دے پس کتنے ہیں جو ہدایت کی راہ اختیار کرتے ہیں اور کتنے ہیں جو گمراہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ غور کرو کہ اوپر اقوام گزشتہ کی تباہی کا جو سبب بیان کیا گیا ہے اس پر یہ اعترضا کیا جاسکتا تھا کہ ان میں اہل خیر کا موجود نہ رہنا یا بہت کم پایا جانا بھی تو اللہ کی مشیت ہی تھا پھر اس کا الزام ان قوموں پر کیوں رکھا جائے ؟ کیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہل خیر پیدا کردیئے ؟ اس کے جواب میں یہ حقیقت حال صاف صاف بیان کردی گئی ہے کہ اللہ کی مشیت انسان کے بارے میں ہے ہی نہیں کہ حیوانات اور نباتات اور ایسی ہی دوسری مخلوقات کی طرح اس کو بھی جبلی طور پر ایک لگے بندھے راستے کا پابند بنا دیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل بھی نہ سکے۔ اگر یہ اس کی مشیت ہوئی تو پھر دعوت ایمانی ، بعثت انبیاء اور تنزیل کتب کی ضرورت ہی کیا تھی۔ سارے انسان معلم و مومن ہی پیدا ہوتے اور کفر و عصیان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا لیکن اللہ نے انسان کے بارے میں جو مشیت فرمائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اس کو انتخاب و اختیار کی آزادی بخشی جائے ، اسے اپنی پسند کے مطابق مختلف راہوں پر چلنے کی قدرت دی جائے اس کے سامنے جنت و دوزخ دونوں کی راہیں کھول دی جائیں اور پھر ہر انسان اور ہر انسان کے گروہ کو موقع دیا جائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کو بھی اپنے لئے پسند کرے اس پر چل سکے تاکہ ہر ایک جو کچھ بھی پائے اپنی سعی و کسب کے نتیجہ میں پائے۔ پس جب و اسکیم جس کے تحت انسان پیدا کیا گیا ہے آزادی انتخاب اور اختیاری کفر و ایمان کے اصول پر مبنی ہے تو یہ کیسے ہو ستکا ہے کہ کوئی قوم و فرد خود بڑھنا چاہے بدی کی طرف اور اللہ زبرسدتی ان کو خیر کے رساتے پر موڑ دے۔ اگر ایسا ہو تو وہ آزادی اور اختیار کہاں یا ؟ جس کے بل بوتے پر انسان کو مکلف قرار دیا گیا۔ اس لئے ناگزیر ہے کہ اختلاف ہمیشہ ہوتا رہے کیونکہ اس اختلاف پر جنت و دوزخ جائز و ناجائز اور حق و باطل کا امتیاز قائم ہے۔ صرف انسان سے وہ امتیاز چھین لیا جائے تو دین و مذہب کی ساری عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے۔ اس کی وضاحت اس سے پہلے سورة یونس میں بھی گزر چکی ہے اور النمل اورا لشوریٰ میں بھی آئے گی۔ انشاء اللہ۔
Top